- کراچی؛ صدر میں ریگل چوک کے قریب فائرنگ سے ایک شخص زخمی
- نیوکراچی؛ گٹکے کے کارخانے پر چھاپہ، ایک ملزم گرفتار، چھالیے کی بھاری مقدار برآمد
- بحرہ عرب میں موجودہ سسٹم ساحلی طوفان میں تبدیل ہونے کا امکان، پاکستان میں الرٹ جاری
- ایئرپورٹ کے قریب دھماکے کی تفتیش؛ نصف درجن سے زائد مشکوک افراد کو حراست میں لے لیا گیا
- ایف بی آر کا 28 لاکھ گھرانوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا فیصلہ
- عالمی سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بڑھنے لگا
- دوحصوں میں تقسیم کے بعد ڈی جی سول ایوی ایشن اتھارٹی کی پہلی پریس کانفرنس
- کراچی؛ واٹر ٹینکر سے کچل کر 2 نوعمر بھائی جاں بحق، کمسن بھائی سمیت 2 افراد زخمی
- کراچی میں قومی اقصیٰ کانفرنس، فلسطینیوں کی عملی مدد کا مطالبہ
- غزہ جنگ: اسرائیل یومیہ کتنا نقصان برداشت کررہا ہے؟
- کراچی سے بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ایجنٹ گرفتار، پولیس
- کراچی: منگھوپیر میں ویلڈنگ پلانٹ پھٹنے سے ویلڈر جاں بحق
- کراچی: سائٹ اندسٹریل ایریا میں دو فلائی اوورز تعمیر کرنے کا فیصلہ
- کروڑوں کا مبینہ ٹیکس فراڈ، عدالت نے ٹریکٹر کمپنی کی ایف آئی آر کیخلاف درخواست مسترد کردی
- پانچ آئی پی پیز کو بند کرنے پر غور، منافع 20 گنا سے زیادہ ہوگیا
- اسرائیلی شہریوں کی اکثریت حماس سے جنگ ختم کرنے کی حامی
- کراچی: فائرنگ کے واقعات میں سیکیورٹی گارڈ سمیت 2 افراد زخمی ہوگئے
- لاہور سے قدیم اور لاکھوں مالیت کے قیمتی مجسمے جاپان اسمگل کرنے کی کوشش ناکام
- ہم نے طویل جنگ کا انتخاب کیا ہے جو دشمن کیلئے مہنگی اور تکلیف دہ ہوگی، ابو عبیدہ
- ایف بی آر کو ریاست کے ملکیتی اداروں کو جاری کردہ ریکوری نوٹس واپس لینے کی ہدایت
سیاست کی اصل کنجی کس کے ہاتھ؟
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور پی ٹی آئی کے صدر چوہدری پرویز الٰہی قنے کہا ہے کہ سیاست کی کنجی اب عمران خان کے ہاتھ میں ہے۔ موجودہ عدم سیاسی استحکام پی ٹی آئی کا مینڈیٹ تسلیم نہ کیے جانے کا نتیجہ ہے، عوام بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔
پرویز الٰہی جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیر اعلیٰ پنجاب تھے جو جنرل پرویز کی تعریف کرتے ہوئے انھیں دس بار وردی میں صدر منتخب کرانے کے بیان دیتے تھے۔ چوہدری صاحب جب نواز شریف کی حکومت میں پنجاب اسمبلی کے اسپیکر تھے تو نواز شریف کی گجرات آمد پر نہ صرف چوہدریوں نے ان کا زبردست استقبال کرایا تھا اور ان کی گاڑی کندھوں پر اٹھوائی تھی اور بعد میں پرویز الٰہی کے وزیر اعظم نواز شریف سے سیاسی اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ شریف فیملی کی سیاسی مخالفت میں پہلے جنرل پرویز مشرف نے اور بعد میں عمران خان نے انھیں وزیر اعلیٰ بنوایا تھا۔
پرویز الٰہی نے نو سال جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے زیر سایہ سیاست کی ۔ بعد ازاں عمران خان نے انھیں پہلے پنجاب اسمبلی کا اسپیکر اور بعد میں وزیر اعلیٰ بنایا تھا جس کے بعد سے چوہدری پرویز الٰہی پی ٹی آئی کی سیاست کا حصہ بن گئے تھے جب کہ عمران خان کی سیاست کو عروج 2011 میں بعض قوتوں نے دیا تھا اور انھیں اقتدار میں لائے تھے مگر اپنی آئینی برطرفی کے بعد عمران خان چاہتے تھے کہ وہ قوتیں ان پر دوبارہ مہربان ہو جائیں اور سیاست میں ان کی حمایت جاری رکھیں جس کے عوض عمران خان ان کے مفادات پورے کرنے کے لیے راضی تھے۔
جنرل ایوب خان کے دور میں جنگ ستمبر کے بعد ایوب حکومت میں سالوں وفاقی وزیر رہنے والے ان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو تھے جب کہ اکتوبر 1958 میں جنرل ایوب خان کو مارشل لا لگانے کا موقعہ سیاستدانوں کے باہمی اختلافات اور دو گورنر جنرلوں غلام محمد اور اسکندر مرزا کی ہوس اقتدار کے باعث ملا تھا یہ دونوں بیورو کریٹ تھے جنھوں نے سیاسی حکومتیں چلنے ہی نہیں دی تھیں اور مختصر عرصے میں وزیر اعظم تبدیل کیے جاتے تھے اور جو سیاسی رہنما ان کے اشاروں پر چلتا تھا اسے وزیر اعظم بنا کر بے اختیار رکھا جاتا تھا۔ اسی وقت 1956 کا آئین بھی منظور ہوا تھا اور غلام محمد کے بعد اسکندر مرزا بااختیار صدر بن گئے تھے جس پر ملک میں سیاسی انتشار اسی طرح تھا جیسے آج ہے۔1971 میں ملک دولخت ہونے کی وجہ سے سیاستدانوں کی ہوس اقتدار تھی۔
شیخ مجیب نے مشرقی پاکستان میں اور بھٹو نے پنجاب و سندھ میں واضح اکثریت حاصل کی تھی مگر جنرل یحییٰ صدر رہنا چاہتے تھے مگر اس وقت ان کے ہاتھ میں سیاست کی کنجی نہیں تھی، اقتدار کی کنجی شیخ مجیب کے ہاتھ میں تھی جس نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کی سازش بھارت سے مل کر بنائی ہوئی تھی جس پر بھارتی مداخلت اور جنگ کے نتیجے میں بنگلہ دیش بن گیا اور شکست کے باعث یحییٰ خان کو فارغ کرکے زیڈ اے بھٹو کو وزیر اعظم بنایا گیا تھا اور 1977 میں بھٹو صاحب جنرل ضیا کے ہاتھوں اقتدار سے محروم کر دیے گئے اور اقتدار اور سیاست کی کنجی جنرل ضیا کے ہاتھ میں آئی اور آٹھ سال بعد انھوں نے غیر جماعتی الیکشن کرایا اور محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنایا تھا اور پنجاب سے نواز شریف پی پی کے مقابلے میں وزیر اعلیٰ بنے تھے۔
تین آمروں نے مسلسل سب سے زیادہ حکومت کی اور پہلی بار جنرل پرویز نے (ق) لیگ کی اسمبلی کی مدت پوری کرائی۔ سیاست میں بالاتروں کی سب سے زیادہ خوشامد عمران خان نے کی ۔ بالاتروں نے عمران خان پر اعتماد کر کے انھیں وزیر اعظم بنوایا تھا۔چوہدری پرویز الٰہی جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیر اعلیٰ بنے تھے اور 2008 میں ان کی صدارت میں وزارت عظمیٰ کے متمنی تھے ۔ کسی حکمران کے پاس سیاست کی کنجی نہیں تھی۔ سیاست کی کنجی ہمیشہ بالاتروں کے ہاتھ میں رہی۔ سیاست اور اڈیالہ کی کنجی اب بھی کہیں اور ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔