- کیا پریشانی ؟ ترمیم کیلیے نمبرز پورے اور نمبری بھی ، واوڈا
- آئینی ترامیم کا معاملہ؛ بلاول اور مولانا کے درمیان ایک روز میں دوسری ملاقات
- پاکستان اور عرب ممالک میں پاکستانی کرنسی میں لین دین ممکن
- کراچی؛ حسین آباد میں عوام نے 2 ڈاکوؤں کو فائرنگ اور تشدد کا نشانہ بنا کر زخمی کر دیا
- لاہور؛ دو خواتین سمیت پانچ رکنی نوسرباز جیب تراش گینگ گرفتار، موبائل فون، اسلحہ اور نقدی برآمد
- ملتان میں آتش بازی کا سامان بنانے والی فیکٹری دھماکے سے زمین بوس، 3 افراد جاں بحق
- اسرائیل میں فوجی بیس کو ڈرونز سے نشانہ بنایا گیا، حزب اللہ
- لاہور میں جعلی پیر کی ساتھی کے ساتھ ملکر ذہنی مریض لڑکی سے اجتماعی زیادتی
- جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت آج، عمران خان پر فرد جرم عائد ہونے کا امکان
- کراچی: فائرنگ کے مختلف واقعات میں 2 افراد زخمی
- دنیا بھر کے پانی میں ’فار ایور‘ کیمیکل کی موجودگی کا انکشاف
- لاہور؛ کالج میں مبینہ طور پر پیش آنے والے واقعے کی رپورٹ مرتب
- پی ٹی آئی رہنماؤں کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت مل گئی
- اپوزیشن راضی نہ ہوئی تو حکومت کو دو تہائی اکثریت کر کے دکھاؤں گا، بلاول
- چھاتی کا سرطان صرف اسپتال کی چار دیواری میں لڑی جانے والی جنگ نہیں، ماہر
- خیبرپختونخوا اسمبلی اجلاس کا دن تبدیل
- بہاولنگر میں یونیورسٹی طالبہ کو مبینہ ہراساں کرنے پر لیکچرار کے خلاف مقدمہ درج
- کراچی: کورنگی سے مبینہ مقابلے میں ڈاکو زخمی حالت میں گرفتار
- حکومت اور اتحادی جماعتوں میں آئینی ترامیم پر اتفاق رائے نہ ہوسکا، مزید مشاورت کا فیصلہ
- کراچی میں آج درجہ حرارت 40 ڈگری تک چھو سکتا ہے، محکمہ موسمیات
چھاتی کا سرطان صرف اسپتال کی چار دیواری میں لڑی جانے والی جنگ نہیں، ماہر
کراچی: قائم مقام وائس چانسلر ضیاء الدین یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر عباس ظفر کا کہنا ہے کہ چھاتی کا سرطان صرف اسپتال کی چار دیواری میں لڑی جانے والی جنگ نہیں، بلکہ یہ اس خاموشی، بدنامی اور جہالت کے خلاف جنگ ہے جس سے متاثرہ خواتین کی زندگیاں داؤ پر لگاتی ہے۔ ہمیں ان رکاوٹوں کو ختم کرنا ہوگا، معاشرتی پابندیوں کو چیلنج کرنا ہوگا، اور ہر شخص کو جلد تشخیص کے لیے بااختیار بنانا ہوگا، کیونکہ بے شمار زندگیاں خطرے میں ہیں۔
قائم مقام وائس چانسلر ضیاء الدین یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر عباس ظفرنے یہ گفتگو زیو ڈائیلاگس کی 23 ویں انٹرایکٹو سیریز کے دوران کی جس کا موضوع تھا “چھاتی کے سرطان کے خلاف جنگ: جلدی تشخیص، زندگیاں بچاتی ہے۔
اس سیشن کا مقصد چھاتی کے سرطان کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا، معاشرتی توجہ اس سنگین مسئلے کی طرف مبذول کروانا، اور جلدی تشخیص اور اسکریننگ کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔
ڈاکٹر عباس ظفر نے چھاتی کے سرطان کی جلد تشخیص کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا، “ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس پیغام کو پھیلائیں، خاص طور پر ان کمیونٹیز میں جہاں چھاتی کا سرطان اب بھی ممنوع سمجھا جاتا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ بدنامی بہت سی خواتین کو بروقت علاج سے روکتی ہیں، جس کے باعث ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
سیشن کے دوران، سروائیورز نے اپنی کہانیوں سے جلدی تشخیص کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سابق ڈپٹی گورنر اور سروائیور سیما کامل نے کہا کہ بہت سی خواتین چھاتی کے سرطان پر بات کرنے سے گریز کرتی ہیں اور اسکریننگ کروانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں، جو ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
ڈاکٹر فیض اللہ عباسی، سابق وائس چانسلر داود یونیورسٹی، اور ایک مرد سروائیور، نے کہا، “آپ اپنے جسم کو دوسروں سے بہتر جانتے ہیں، اور کسی غیر معمولی علامت کو نظر انداز نہ کریں۔” انہوں نے مزید کہا کہ جلدی تشخیص زندگی بچانے کی کلید ہے۔
کلینیکل نیوٹریشنسٹ آمنہ مجیب خان نے لائف اسٹائل کے چھاتی کے سرطان پر اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ متوازن غذا اور صحت مند طرز زندگی بیماریوں کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر قرۃ العین بدر، ریڈی ایشن اونکولوجسٹ، اور ڈاکٹر افشاں شیخ نے بھی جلد اسکریننگ اور خود جانچ کی اہمیت پر زور دیا۔
تقریب کی میزبانی کرتے ہوئے ڈاکٹر عدنان اے جبار، چیئرمین اونکولوجی ڈپارٹمنٹ، ضیاء الدین اسپتال، نے کہا کہ چھاتی کا سرطان ایک جنگ ہے جو ہم جیت سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے جلدی تشخیص اور بروقت علاج کی ضرورت ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ندا حسین، پرو چانسلر ضیاء الدین یونیورسٹی، نے کہا کہ چھاتی کے سرطان پر خاموشی اختیار کرنے سے بہت سی خواتین کی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ “یہ خاموشی مہلک ہے، اور ہمیں مل کر ان ثقافتی رکاوٹوں کو ختم کرنا ہوگا جو علاج اور تشخیص میں رکاوٹ ہیں۔
اس سیشن کا مقصد چھاتی کے سرطان کے بارے میں آگاہی کو عام کرنا اور بروقت تشخیص اور اسکریننگ کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا تاکہ معاشرے میں اس سنگین مسئلے پر کھلی بات چیت ہو اور خواتین کو بروقت طبی امداد کے لیے ترغیب دی جا سکے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔