عارف عزیز
-
کوچۂ سخن
ایسا منظر بھی بارہا دیکھا پاس رہ کر بھی فاصلہ دیکھا
-
کوچۂ سخن
بے سبب آوارگی سے دل کو بہلاتا تھا میں شام ہو جاتی تو گھر واپس پلٹ جاتا تھا میں
-
کوچۂ سخن
ہر سماعت نے تبھی تو مری عزت کی ہے میں نے اک عمر اس آواز پہ محنت کی ہے
-
کوچۂ سخن
بریدہ سر تھے مرے خواب جو ٹھکانے لگے ابھی سے لوگ بہت انگلیاں اٹھانے لگے
-
کوچۂ سخن
حروف جتنے ہماری غزل میں آتے ہیں کشید کرتے ہیں خونِ جگر تو لاتے ہیں
-
کوچۂ سخن
دل کہہ رہاہے میرامگرکس طرح کروں اتنا طویل تنہا سفر کس طرح کروں
-
کوچۂ سخن
جی چاہتا ہے تجھ سے ملوں پھر کسی طرح دو سال تیرے ساتھ رہوں پر نئی طرح