Arif Aziz
-
کوچۂ سخن
کہتے ہو اگر تم مجھے حصہ وجود کا
تو کیوں بدل کے رکھ دیا نقشہ وجود کا -
کوچۂ سخن
ہستی ملا کے خاک میں پھر سے نیا بنا
جیسا اُسے پسند ہو، کوزہ گرا ،بنا -
کوچۂ سخن
کسی کی آنکھ میں کھڑکی کھلی ہے
دھنک مجھ کو جہاں سے جھانکتی ہے -
کوچۂ سخن
وحشت سے بدحواس رہے اور مر گئے
چاہت سے ناشناس رہے اور مر گئے -
کوچۂ سخن
درد جو دل پہ ہیں معمور غزل کہتے ہیں
اشک جب کرتے ہیں مجبور غزل کہتے ہیں -
کوچۂ سخن
اعلان کر رہا ہوں کہ ہُشیار، اک طرف
معصوم اک طرف ہوں، ریا کار اک طرف -
کوچۂ سخن
بغضِ واعظ کے جو فتوے کی سند ہے، رد ہے
اس میں ہر زیر زبر پیش کہ شد ہے، رد ہے -
کوچۂ سخن
تیرے ہاتھوں سے پہننا تھا کسی سے پہنا
سرمۂ طور بھی بے راہ روی سے پہنا -
کوچۂ سخن
پسِ سکوت، پئے گفتگو پڑے رہیں گے
ہم ایسے سوختہ لب بے نمو پڑے رہیں گے -
کوچۂ سخن
کناروں پر کھڑے دیکھے ہیں میں نے
ترے جیسے بڑے دیکھے ہیں میں نے