US
صفحۂ اول
تازہ ترین
اسرائیلی جارحیت
امریکی انتخابات
پاکستان
انٹر نیشنل
کھیل
انٹرٹینمنٹ
دلچسپ و عجیب
صحت
سائنس و ٹیکنالوجی
بلاگ
بزنس
ویڈیوز
ہم سب اس وقت دو ابدیتوں کے مقام اتصال پر کھڑے ہیں ہمارے ایک طرف لامحدود ماضی ہے جو ازل سے جاری ہے۔
قدیم ہندوستانی داناؤں کا کہنا تھا کہ ہم پر پہلی ذمے داری ہمارے سماج کی ہوتی ہے پھر خاندان کی اور آخر میں ہماری اپنی۔
کہتے ہیں جتنی گالیاں یہ سب دے سکتے ہیں، مجھے دیتے ہیں اور میں بے شرموں ، بے حسوں کی طرح سب کچھ سنتا رہتا ہوں۔
وحشت ناک بات یہ ہے کہ ان کے ایجنڈے کی کامیابی میں روز بروز اضافہ ہوتا ہی چلا جارہا ہے۔
ذہن میں رہے پریشانیاں انسان کے جسم کے تمام نظاموں کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیتی ہیں۔
ہمارے سماج میں جبر سے مرنے والوں کی تعداد ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ہے وہ سب انسان بے وقت ، بے موت مار دیے گئے۔
بااختیار، طاقتور،تختوں پر بیٹھے ہمیں بھونکتے انسانوں سے زیادہ کوئی حیثیت، رتبہ یا مرتبہ دینے کو تیار ہی نہیں ہیں۔
ہم جھوٹ سننے کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ کوئی ہمیں سچ بھی بتائے تو ہم اس کی بات پر یقین کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے۔
بے شرمی اور بے حیائی کی اس وقت حد ہوجاتی ہے جب مجرم سرے عام سچ کو ننگی ننگی گالیاں دیتے پھررہے ہوتے ہیں۔
اس فلسفے کو سمجھنے کے لیے ہمیں تاریخ کی کتابوں کے علاوہ اپنے اطراف بھی کئی افراد نظر آتے ہیں۔