اندورن سندھ غربت

سندھ میں مجموعی طور پر آبادی کا بیشتر حصہ غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan November 18, 2017
[email protected]

دیہی سندھ آج بھی پاکستان کا سب سے غریب علاقہ ہے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان کے علاوہ تینوں صوبوں اورآزاد کشمیر کے عوام کے بینکوں کے کھاتے میں جمع ہونے والی رقم سندھ میں سب سے کم ہے۔ نومبرکے شماریاتی بلیٹن میں شایع ہونے والے اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ سندھ کی دیہی آبادی کے بینکوں کے اکاؤنٹ پختون خوا اور کشمیر کی دیہی آبادی کے مقابلے میں بھی کم ہیں۔ ان اعداد و شمار میں بلوچستان کو شامل نہیں کیا گیا۔

اسٹیٹ بینک کے شماریاتی بلیٹن میں تحریر کیا گیا ہے کہ بلوچستان کی آبادی تینوں صوبوں سے کم ہے اس بناء پر وہاں کے عوام کے بینک اکاؤنٹس کا کم ہونا ایک فطری حقیقت ہے۔ اس رپورٹ میں پنجاب کو سب سے خوشحال صوبہ کا اعزاز دیا گیا ہے۔

بینکوں کے کل اکاؤنٹس کے 54 فیصد اکاؤنٹس ہولڈرکا تعلق پنجاب سے ہے۔ رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ پورے پاکستان کے دیہی علاقوں کے عوام کا بینک اکاؤنٹس823.68 بلین ہیں جن سے پنجاب کے اکاؤنٹس ہولڈر کی رقم 448.75 بلین ہے۔ اسی طرح پختون خوا کے اکاؤنٹس ہولڈرز کی رقم 138.6 بلین ہے۔ سندھ کے اکاؤنٹس ہولڈرزکے محض82.3 بلین روپے بینکوںمیں موجود ہیں۔ لوگوں کے بینک اکاؤنٹ نہ کھولنے کا مطلب ان کے پاس اتنی رقم نہ ہونا ہے کہ وہ بینک میں جمع کرا سکیں جس سے اندرونِ سندھ غربت کی عکاسی ہوتی ہے۔

بلوچستان رقبے کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ پھر اس کی آبادی تینوں صوبوں سے کم ہے۔ بلوچستان گزشتہ 17 برسوں سے دہشتگردی اور سول نافرمانی کی عسکری مہم کا شکار ہے جس کی بناء پر وہاں غربت کی شرح بہت زیادہ ہے۔ سندھ کی شہری آبادی کی شرح پاکستان میں سب سے زیادہ ہے اور شہری علاقوں کے لوگوں کی بینکوں کے اکاؤنٹس میں جمع رقم خاطر خواہ حد تک بہتر ہے۔

سندھ پاکستان کو سب سے زیادہ آمدنی دینے والا صوبہ ہے۔ ملک کی مجموعی آمدنی کا 60 فیصد حصہ سندھ سے آتا ہے۔ پھر سندھ میں سب سے زیادہ تیل اورگیس کی پیداوار ہوتی ہے۔ اس وقت دیہی سندھ سے تعلق رکھنے والے امراء کی تعداد خاصی ہے مگر مجموعی طور پر آبادی کا بیشتر حصہ غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ سندھ کے دیہی علاقوں کی پسماندگی کا اظہار تعلیم اور صحت کے شعبوں اور انفرااسٹرکچر کی پسماندگی سے ہوتا ہے۔ سندھ میں تعلیم کے شعبے کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ سرکاری اسکولوں کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ نہ ہوسکا۔

ماہرین کاکہنا ہے کہ جامع منصوبہ بندی کے فقدان کی بناء پر اسکولوں اور کالجوں کے حالات خراب ہیں۔ دیہی علاقوں میں اب بھی بیشتر سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولتیں میسر نہیں، خاص طور پر طالبات کے اسکولوں کے حالات انتہائی خراب ہیں۔ اسکولوں کی ترقی کے لیے بجٹ میں مختص کی جانے والی رقوم کا بیشتر حصہ غیر شفاف انداز میں خرچ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ تعلیمی بجٹ کا ایک بڑا حصہ اسکولوں کی تعمیر اور پرانے اسکول کی مرمت، فرنیچر اور آلات کی فراہمی کے لیے مختص کیا جاتا مگر اس میں سے بیشتر رقم خرچ نہیں ہوتی۔ اس وقت سندھ میں 5 ہزار اسکول بند ہیں اور 9 ہزار اسکولوں کی عمارتیں نہیں ہیں۔ اب بھی سرکاری طور پر اس بات کا اقرار کیا جاتا ہے کہ اندورن سندھ گھوسٹ اسکول موجود ہیں۔

بااثر افراد ان اسکولوں کو اوطاق اور مویشیوں کے رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سرکاری رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سے اسکولوں میں بیت الخلاء نہیں ہے اور چار دیواری تک تعمیر نہیں ہوئی۔ بچوں کے وظائف اور ناشتہ کا انتظام بھی نہیں ہے۔ اگرچہ صوبائی حکومتوں نے کتابوں کی فراہمی کی اسکیم شروع کی ہے مگر کاپیوں، قلم اور یونیفارم نہیں ہوتا۔ سرکاری اسکولوں میں موجود غیر حاضر اساتذہ کا ادارہ اب بھی موجود ہے۔ موجودہ حکومت نے عالمی بینک کے دباؤ پر اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے بائیو میٹرک نظام رائج کیا ہے مگر اساتذہ اس نظا م کے تحت حاضری لگا کر لاپتہ ہونے کے فن سے بخوبی واقف ہیں۔

گزشتہ 8 برسوں کے دوران اساتذہ کی بھرتی کے مسلمہ اصولوں کو نظراندز کیا گیا ہے، یوں نااہل اساتذہ کی ایک فوج بھرتی ہوگئی اور اب بھی سرکاری اسکولوں میں سائنس کی جدید لیباریٹریاں قائم نہیں کی گئیں۔ یوں سائنس کے طلبہ کوچنگ سینٹر جاکر محنت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، اسی طرح اندرون سندھ صحت کی سہولتوں کی کمی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے شہریوں کو کم بچے پیدا کرنے کے لیے ذہن سازی مہم شروع نہیں کی جس کی بناء پر ایک ایک خاندان میں 10،10 بچے پیدا ہوتے ہیں اور کم سن بچوں اور بچیوں کی شادیوں کا رواج ہے جس کی بناء پر ماں اور بچے کی صحت پر توجہ نہیں ہوتی۔ نزلہ، کھانسی، ملیریا اور پیٹ کی بیماریوں کی بناء پر ماں اور بچے میں قوت مدافعت کم ہوتی ہے۔

ماں اور بچے کو دودھ اورگوشت وغیرہ دستیاب نہیں ہوتا جس کی بناء پرکم عمری کی شادی کے نتیجے میں زچہ اور بچہ کے مرنے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں اب ٹیسٹ، ادویات اور آپریشن وغیرہ کے لیے پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ سندھ کے بڑے اسپتالوں میں بنیادی سہولتوں کی کمی سے پرائیویٹ اسپتالوں کی لوٹ مار اور ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے اثرات عام آدمی پر پڑتے ہیں۔ صحت کی ناقص سہولتوں کی بناء پر قحط زدہ علاقے تھر میں نوزائیدہ بچوں اور ماؤں کے مرنے کی خبریں ٹی وی چینلز کی زینت بنتی ہیں مگر حکومت اس مسئلے کا حل تلاش کرنے پر تیار نہیں۔

سندھ میں ایک سنگین مسئلہ صاف پانی کی فراہمی کا ہے۔ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کے تحت اس معاملے کا نوٹس لیا تو پتہ چلا کہ پینے کی پانی میں فضلے کی آمیزش ہے۔ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے گزشتہ دنوں یہ بات تسلیم کی کہ سندھ کی 50 فیصد آبادی کو صاف پانی میسر نہیں ہے۔ اندرون سندھ ہیپاٹائیٹس وبائی امراض کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ حکومت ڈاکٹروں اور حجاموں کی تربیت نہیں کرسکی تاکہ انجکشن کی سوئیاں اور بال کاٹنے کے استرے وغیرہ سے یہ مرض دیگر افراد میں منتقل نہ ہوسکے۔ ایڈز کے جراثیم مردوں سے خواتین اور پیدا ہونے والے بچوں میں منتقل ہورہے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی اور کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کی بناء پرکینسر جیسا خطرناک مرض بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔

کراچی کی رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت 8 سال سے تعمیر ہونے والے سول اسپتال میں قائم بینظیر بھٹو ٹراما سینٹر کو مکمل طور پر فعال نہیں کرسکی۔ لوگ روزانہ مایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔ فوجی حکومتوں میں سندھ کو نظرانداز کیا گیا۔ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد پورے سندھ کا انفراسٹرکچر مخدوش ہوا ہے۔ ہر شہر میں ٹرانسپورٹ، پانی اور بجلی کی فراہمی کے معاملات التواء کا شکار ہیں۔ شہر اور گاؤں دھویں اور کوڑے کے بوجھ تلے دب گئے ہیں۔

سندھ کے دیہی علاقوں میں انفرااسٹرکچر پسماندہ ہے۔ حکومت خود صنعتیں لگانے میں دلچسپی نہیں لیتی نہ سندھ کی حکومت نے پنجاب اور پختون خوا کی حکومتوں کی طرح بیرونی سرمایہ کاروں کو اندرونِ سندھ سرمایہ کاری کے لیے پرکشش اسکیمیں تیارکی ہیں۔ سینئر صحافی اشرف خان کا مشاہدہ ہے کہ پنجاب میں ہر گاؤں کے باہر اے ٹی ایم مشین کے بوتھ ملتے ہیں مگر اندرونِ سندھ میں شہر کے اندر جا کر بینکوں میں یہ بوتھ نظر آتے ہیں، اس کی وجہ لوگوں کا بینکوں کے نظام سے منسلک نہ ہونا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی یہ رپورٹ پیپلز پارٹی کے 8 سالہ دور کی ناقص کارکردگی کو افشا کررہی ہے۔ حکومت سندھ میں تعلیم اور صحت کا نظام بہتر بنانے، انفرااسٹرکچر کی ترقی اور صنعتوں کے قیام پر توجہ دینی چاہیے۔ دوسری صورت میں مذہبی انتہا پسند اس صورتحال سے فائدہ اٹھائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں