جاگیردارانہ انتخابی نظام

ہماری ناقص جمہوریت داخلی اختلافات کو ہوا دینے اور نظام حکومت کو کمزور کرنے کی بنی بنائی ترکیب ہے۔


اکرام سہگل November 18, 2017

KARACHI: میگنا کارٹا، جسے ''میثاقِ آزادی'' کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، 15جون 1215ء کو بادشاہ جوہن نے اس پر دستخط کیے، اس میں بادشاہ کے اختیارات محدود کردیے گئے اور امراء کو بااختیار بنادیا گیا۔ آرک بشپ آف کنٹربری نے بغاوت پر آمادہ امرا اور جاگیر داروں کو قابو کرنے کے لیے اس معاہدے کو ممکن بنایا، جب کہ شاہ جان نے صرف اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے یہ سمجھوتہ کیا۔

عام خیال کے بر خلاف میگنا کارٹا کے بعد جاگیرداری کے خاتمے کا آغاز تو نہیں ہوا لیکن اس وقت کی مغربی دنیا میں یہ اصول ضرور تسلیم کرلیا گیا کہ چاہے بادشاہ ہی کیوں نہ ہو کوئی بھی قانون سے بالا تر نہیں۔ اس معاہدے سے پانچ سو برس قبل قانون کی نظر میں برابری اور منصفانہ عدالتی کارروائی کی ضمانت اسلام نے فراہم کی اور اس اصول کو عملی طور پر نافذ کرکے دکھایا۔

زرعی علاقوں میں مقامی آبادی جاگیر داروں کے رحم و کرم پر ہے، یہ بے پناہ اراضی 1858ء سے 1947ء تک انگریزوں نے اپنے وفاداروں کو نوازی، پاکستان میں قائم جاگیردارانہ نظام اسی دور کی یاد گار ہے۔ جو زمین ان کی تھی ہی نہیں، انگریزوں نے من پسند لوگوں میں اسے تقسیم کیا اور جاگیرداروں کا پورا طبقہ کھڑا کر دیا، بیورکریٹ اور فوجی افسران کی مدد سے ''دولت مشترکہ'' پر اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے بیسویں صدی میں اس نظام کو مختلف جمہوری ماڈلز کا بہروپ دیا گیا۔ تاج برطانیہ کے وفاداروں نے انگریز حکومت کے ہاتھ مضبوط کیے۔

بھارت اور مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلا دیش) میں 1947ء کے فوری بعد زرعی اصلاحات ہوئیں جس سے جاگیرداری کا خاتمہ ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جو سیاسی نظریہ پیش کیا وہ سوشلزم کا ملغوبہ تھا۔77ء میں ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں جاگیرداری کی جڑیں مزید گہری ہوئیں۔

برطانیہ نے موروثی جاگیرداری کو جمہوریت کا نقاب پہنا دیا اور اسے آئینی بادشاہت کا نام دینے میں کام یاب رہے۔ حکومت ''عوام کی، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے''کا بنیادی اصول ہماری جمہوریت میں جس طرح مسخ کیا گیا، اس نے ہمارے ہاں جمہوریت کی صورت کو ''آئینی'' بادشاہت سے بھی زیادہ مکروہ بنادیا ہے۔ اگست 2015ء کے ''ٹیلی گراف'' میں لیو مک انسٹری نے شدید تنقید کرتے ہوئے لکھا تھا ''دارالامرا کا تسلسل برطانوی سیاست پر بزدلی اور جمود کی فرد جرم کے مترادف ہے۔

جدید جمہوریت میں اس قدر بڑے اور فرسودہ ایوان کی کوئی گنجایش نہیں۔۔۔ اس کے ارکان میں طاقتور کونسلرز، سیاسی جماعتوں کے عہدے داران، ناکام ارکان پارلیمان اور پارٹیوں کو چندہ دینے والوں کی اکثریت ہے۔'' ہمارے ہاں ''بالواسطہ'' منتخب ہونے والی سینیٹ مک انسٹری کی ان سطور پر پوری اترتی ہے۔ اس بالواسطہ انتخاب میں فریب کاری اور چال بازی کا بھرپور مظاہرہ ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں جاگیردارانہ نظام کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔ اسے جمہوری تصورات کی توہین ہی کہا جاسکتا ہے۔

برطانوی تسلط سے 1947ء میں آزادی کے بعد جاگیرداروں اور بیوروکریٹس نے رفتہ رفتہ پاکستان پر اپنی گرفت مضبوط کی۔ آج تمام سیاسی جماعتیں جاگیر کے طور پر ہی چلائی جاتی ہیں۔ موجودہ نظام انتخاب محض ایک رسم بن کر رہ گیا ہے جس سے منتخب ہونے والے پارلیمنٹ کی رکنیت کو لوٹ مار کا کھلا لائسنس تصور کرتے ہیں اور بے خوف ہوکر عوام کا استیصال کرتے ہیں اور یہ سب کچھ آئین و دستور کے نام پر کیا جاتا ہے۔ایسے ارکان اپنی بقا کے لیے منتخب کرنے والے عوام کے بجائے ''مخصوص مفاداتی گروہوں'' (اور افراد) کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔

برطانیہ نے دولت مشترکہ میں جاگیرداری نظام کو دوام بخشنے کے لیے ''فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ'' کا ''جمہوری'' فارمولا دیا۔ اس فارمولے کے مطابق مدمقابل امیداواروں میں سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے کو حق نمایندگی مل جاتا ہے۔ بس حلقے میں سب سے زیادہ ووٹ لینا درکار ہوتا ہے، اکثریتی ووٹ نہیں۔ اس فارمولے کی وجہ سے چھوٹی پارٹیاں ''شفاف'' نمایندگی کے دائرے سے باہر ہوجاتی ہیں۔

اسی فارمولے کے طفیل طاقتور اقلیت اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے جو ذات برادری اور فرقے وغیرہ کی بنیاد پر تقسیم پیدا کرکے انتشار پھیلانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ اس فارمولے میں دراصل انگریز کی ''تقسیم کرو اور حکومت کرو'' پالیسی کو جمہوری شکل دی گئی۔ اس صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے قومی و صوبائی اسمبلی کی 80 فی صد نشستوں پر صرف ایک حلقے میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے کو کامیاب قرار دینے کے بجائے ''Run off Election'' کا نظام متعارف کروانا انتہائی ضروری ہوچکا ہے۔ اس طرز انتخاب میں عوام کو پہلے مرحلے میں متعدد میں سے دو کو منتخب کرنے کا اختیار ملے گا۔

اس طرح نہ صرف نمایندگی حاصل کرنے والے کو اکثریتی رائے حاصل ہوگی بلکہ انتخابات میں دھاندلی اور دھوکا دہی بھی دشوار ہوجائے گی۔ اس طرز انتخاب کے نتیجے میں مختلف گروہوں کے مابین اکثریت حاصل کرنے کے لیے مذاکرات اور گفت و شنید کی راہیں بھی کھلیں گی۔

چھوٹی پارٹیوں کو دیوار سے لگانے کے باعث بے چینی میں اضافہ ہوتا ہے۔ مختلف سیاسی مؤقف رکھنے والی پارٹیوں کو بھی ووٹروں کے تناسب سے منتخب ایوان میں نمائدگی حاصل ہونی چاہیے۔ ''متناسب نمایندگی'' کے اصول کے مطابق مجموعی طور پر حاصل کردہ ووٹوں کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کے ہارنے والے امیدواروں کے حصے میں بھی 20 سے 25 فیصد نشستیں آنی چاہیے۔

ووٹوں کی فی صد کے اعتبار سے سیاسی جماعتوں کو قومی اسمبلی میں حاصل ہونے والی نشستیں عوامی رائے کی حقیقی عکاس ہوں گی۔ پیپلز پارٹی نے 2002ء کے انتخابات میں ق لیگ سے قومی اسمبلی کی کم نشستیں حاصل کیں جب کہ اس نے ووٹ ق لیگ سے زیادہ حاصل کیے تھے۔ اسی طرح 2013ء کے انتخابات میں حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے مسلم لیگ ن کے بعد تحریک انصاف دوسرے نمبر پر تھی جب کہ قومی اسمبلی میں حاصل کردہ نشستوں کے اعتبار سے اس کا نمبر تیسرا رہا۔

انتخابی نظام میں صرف نمایندگی کو محور بنانے کے بجائے رقبے اور آبادی دونوں کے تناسب سے ایک متوازن فارمولا متعارف کروانے کی بھی ضرورت ہے۔ بلوچستان پاکستان کے کل رقبے کا 43 فی صد ہے اور معدنی وسائل، ساحلوں اور دیگر قدرتی دولت سے مالا مال صوبہ ہے۔ حکومتوں کی جانب سے اپنائی گئی غیر حقیقت پسندانہ پالیسوں نے مقامی آبادی میں شدید مایوسی کا احساس پیدا کیا ہے۔ کم درجے کی شورش پر پاک فوج قابو پا چکی ہے۔ قومی اسمبلی کی 342 نشستوں میں سے بلوچستان کی صرف 14نشستیں ہیں۔ مقامی آبادی میں یہ احساس اجاگر کرنے کے لیے کہ ان کی آواز سنی جاتی ہے قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نمایندگی میں (کم از کم چالیس سے پچاس نشستوں کا) اضافہ ہونا چاہیے۔

عوام کے دروازے تک انصاف کی فراہمی کسی بھی مہذب معاشرے میں زندگی اور موت کا سوال تصور ہوتا ہے۔ اگر نظام میں عوامی شمولیت ہی کو یقینی نہ بنایا جائے اور اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل نہ کیا جائے تو جمہوریت محض ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں۔ فعال بلدیاتی حکومت سے نظام میں عوامی شمولیت کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ مختلف سماجی گروہ جب نظام کا حصہ بنتے ہیں، اسے اپناتے ہیں اور ان کے مابین مسائل حل کرنے کے لیے گفت و شنید کا عمل شروع ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں سماجی ہم آہنگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ مضبوط ہوتا جاگیرداری نظام جدید دنیا میں ہمیں اندھیروں کا قیدی بنائے ہوئے ہے۔

ہماری ناقص جمہوریت داخلی اختلافات کو ہوا دینے اور نظام حکومت کو کمزور کرنے کی بنی بنائی ترکیب ہے۔ اگر بلدیاتی حکومتوں کا نظام کے ساتھ ساتھ ''متناسب نمایندگی'' کا اصول نافذ نہیں کیا گیا تو ملک میں حقیقی جمہوریت کا نفاذ اگلے سو برسوں تک بھی ممکن نہیں ہوگا۔ یہی اصلاحات جاگیردارانہ نظام کے مقابلے میں عوام کو بااختیار بنائیں گی، جمہورت کے نام پر عوامی امنگوں کا جو تمسخر اڑایا جاتا ہے اس سے نجات ملے گی اور ملک حقیقی جمہوریت کے ثمرات حاصل کرنے کے قابل ہوسکے گا۔

(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔