اب دوسری بلبلِ صحرا نہیں آئے گی
مجھے یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ بلبل صحرا سے بارہا ملا بھی ہوں۔
ISLAMABAD:
3 نومبر 2013 کا دن دنیائے موسیقی کے لیے بڑا رنج میں ڈوبا ہوا دن تھا، اس دن صحرا کی فضائیں اداس اور ہوائیں رو رہی تھیں کہ بلبل صحرا ریشماں اس دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئی تھی۔ ریشماں گلے کے کینسر میں مبتلا تھی اور انھوں نے بڑی کسمپرسی کی حالت میں لاہور کے ایک اسپتال میں دم توڑ دیا تھا۔ وہ ریشماں جس کی آواز کے پاکستان اور ہندوستان میں لاکھوں چاہنے والے تھے، اس کی بیماری کے دنوں میں اس کے آس پاس سوائے گلوکار شوکت علی کے کوئی بھی بڑا فنکار اس کی خبرگیری اور اسے دلاسا دینے نہیں آیا تھا۔
ہمارے معاشرے کا یہ ہمیشہ سے المیہ رہا ہے کہ اس معاشرے میں دانشوروں، ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کے ساتھ کبھی بھی اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔
مجھے یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ بلبل صحرا سے بارہا ملا بھی ہوں، اس کو بہت قریب سے سنا بھی ہے اور اس سے بڑی دلچسپ باتیں بھی کی ہیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نیا نیا فلمی صحافت کے شعبے میں آیا تھا اور میں نے ریڈیو کے لیے بھی لکھنا شروع کیا تھا۔ میری اکثر شامیں ریڈیو اسٹیشن کراچی کی کینٹین میں گزرتی تھیں، اسی ریڈیو کینٹین پر میری نامور فنکاروں سے ملاقاتیں بڑی آسانی سے ہوجاتی تھیں ۔
ایک دن حسب معمول جب میں بزم طلبا کے پروگرام کی ایک ریکارڈنگ کے بعد ریڈیوکے کینٹین میں آیا تو میں نے دیکھا خانصاحب مہدی حسن ان کے بڑے بھائی پنڈت غلام قادر، استاد امراؤ بندو خان اور موسیقار نہال عبداللہ ایک اُجڈ، گنوار سی عورت کی باتوں پر ہنس رہے تھے اس نے چنری کے تیز اور شوخ رنگوں کا لباس پہنا ہوا تھا۔
سب اس کی باتوں میں دلچسپی لے رہے تھے وہ بار بار مہدی حسن سے کہہ رہی تھی بس خاں صاحب یہ آپ کی محبت ہے جو مجھے یہاں تک لے آئی ہے ورنہ میری کیا اوقات سب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ میں آپ جیسے مہاگنی لوگوں کے ساتھ بیٹھ سکوں، باتیں کرسکوں، میں بھی قریب ہی ایک کرسی کھینچ کر بیٹھا خاموشی سے سب کی باتیں سن رہا تھا۔ مشہور کلاسیکل سنگر اور موسیقار استاد امراؤ بندوخان بولے ریشماں بی بی اب تم ہماری یہ بات اپنی گرہ میں باندھ لو کہ ریڈیو پر آنے کے بعد شہرت کے دروازے اب تمہارے لیے کھلتے چلے جائیں گے پھر مہدی حسن نے راجستھانی زبان میں ریشماں سے کہا۔ تجھے سلیم گیلانی نے چن لیا ہے اب تیرے اچھے دن شروع ہونے والے ہیں اسی دوران ڈائریکٹر جنرل سلیم گیلانی کا بلاوا آگیا اور ریشماں پنڈت غلام قادر اور مہدی حسن کے ساتھ اٹھ کر سلیم گیلانی کے آفس کی طرف چلی گئی۔
پھر میرے پوچھنے پر استاد امراؤ بندوخان نے بتایا کہ یہ خانہ بدوش گلوکارہ ریشماں ہے بڑی سریلی ہے۔ گیلانی صاحب کی مہربانی سے آج اس کی پہلی ریکارڈنگ ہے۔ پھر بات آئی گئی ہوگئی پھر ریڈیو اسٹیشن سے خانہ بدوش گلوکارہ ریشماں کی گمبھیر آواز میں بابا بلھے شاہ کا کلام اور بابا فرید کی کافیاں ریڈیو سے نشر ہونے لگیں۔ ریشماں کی آواز میں سروں کا بڑا منفرد رچاؤ تھا آہستہ آہستہ اس کی گائیکی لوگوں کو پسند آنے لگی اور پھر اس کی شہرت کا سفر شروع ہوتا چلا گیا۔ پھر اس کے کئی گیت یکے بعد دیگرے مشہور ہوتے چلے گئے جن میں:
چرخے دی مٹھی مٹھی کوک، میری ہمجولیاں، اکھیاں نوں رین دے اکھیاں دے کول، دم مست قلندر مست، کے ساتھ لال میری پت رکھیو بھلا جھولے لالن، سیہون دا... نے سارے پاکستان میں دھوم مچا دی تھی۔ ریشماں کے گیت اب پاکستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہونے لگے تو اور مقبولیت کی سند بنتے جا رہے تھے۔ وہ ریشماں جو پہلے کبھی مزاروں پر جاکر گایا کرتی تھی اب ایک بڑی گلوکارہ کا روپ دھار چکی تھی۔ اب اس کے گیتوں کے البم مسلسل مارکیٹ میں آرہے تھے اور پذیرائی حاصل کر رہے تھے اسی دوران میں اس کے کئی پنجابی گیتوں نے تہلکہ مچا دیا تھا، مہدی حسن کے ایک ہونہار شاگرد پرویز مہدی کے ساتھ اس نے ایک ڈوئیٹ گایا تھا۔ اسے بڑی شہرت ملی تھی جس کے بول تھے:
گوری اے میں جانا پردیس
میں جانا ماہی وے تیرے نال
نہ جاویں پردیس
اسی دور کا ایک اور گیت جس نے لاکھوں دلوں کو دیوانہ کردیا تھا بڑا مشہور ہوا جس کے بول تھے:
ہائے او ربّا نئیں او لگدا دل میرا
اس گیت کی گونج پاکستان سے لے کر ہندوستان تک پہنچ گئی تھی پھر اس کے ایک اور پنجابی کے خوبصورت گیت نے سارے برصغیر میں رنگ جمادیا تھا اس کے بول تھے:
وے میں چوری چوری تیرے نال لا لئی آں اکھاں
دنیا توں لُکا کے میں پیار تیرا رکھاں' وے میں چوری چوری
یہاں اس گیت کے بارے میں ایک دلچسپ اور خاص بات بھی چلوں کہ ریشماں کے گیت کی اس دھن پر انڈیا کی فلم ''لیکن'' کے لیے مشہور شاعرگلزار نے ایک گیت لکھا تھا جسے لتا منگیشکر نے گایا تھا اور ریشماں کو دھنے واد بھی پیش کیا تھا۔ گیت کے بول بالکل ریشماں والے گیت کے انداز میں لکھے گئے تھے۔
یارا سلی سلی برہا کی رات کا جلنا
یہ بھی کوئی جینا یا ہے مرنا' یارا سلی سلی
ریشماں سے میری ایک یادگار ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب وہ ہندوستان سے ایک کامیاب میوزک کنسرٹ کے بعد کراچی آئی تھی۔ جب ریشماں اپنی آواز کے سر بکھیرنے کے لیے نئی دہلی کے ایک پنڈال میں پہنچی تھی تو لوگوں کے ہجوم کو دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ جیسے ریشماں کو سننے کے لیے سارا دہلی سمٹ آیا ہے۔ لوگ ریشماں کے گیتوں پر جھوم رہے تھے، رقص کر رہے تھے۔ پھر انھی دنوں ریشماں کو اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنی رہائش گاہ پر بلایا تھا اور اپنے گھر کے دروازے پر آکر ریشماں کا بڑی شان سے سواگت کیا تھا۔
پھر دلیپ کمار نے بھی اپنے گھر ریشماں کی ایک محفل بڑے خوبصورت انداز میں سجائی تھی جو قدر و منزلت ریشماں کی ہندوستان میں کی گئی تھی افسوس اسے وہ وقار وہ قدر پاکستان میں نہ مل سکی جس کی وہ حق دار تھی پاکستان کی فلم انڈسٹری نے ریشماں کو کبھی گلے سے نہیں لگایا جب کہ اپنے ایک ہی انڈیا کے دورے کے بعد ریشماں بمبئی کے فلمسازوں کی آنکھوں کا تارا بن گئی تھی اسے اپنے وطن سے پیار تھا وہ اصرار کے باوجود ہندوستان میں نہ رہ سکی۔ البتہ اس نے انڈیا کی ایک فلم جو 1983 میں بنائی گئی تھی اس میں ایک ناقابل فراموش اور لازوال گیت گایا تھا۔ جسے فلم ''ہیرو'' کے لیے شاعر آنند بخشی نے لکھا تھا اور موسیقی لکشمی کانت پیارے لال نے دی تھی اور اس گیت کے بول تھے:
بچھڑے ابھی تو ہم بس کل پرسوں' جیوں گی میں کیسے اس حال میں برسوں
موت نہ آئی تیری یاد کیوں آئی' ہائے لمبی جدائی
چار دناں دا پیار ہو ربا' بڑی لمبی جدائی
ہونٹوں پہ آئی میری جان دہائی' ہائے لمبی جدائی
ریشماں کے گائے ہوئے فلم ''ہیرو'' کے اس گیت کو بے مثال کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اس کی آواز دشت و دمن میں کھلتے ہوئے گلابوں کا خواب تھی۔ ریشماں نے ہواؤں کو اپنی سہیلی بناکر اپنی گائیکی کو پروان چڑھایا تھا اس کی آواز ایسی تھی جیسے آسمان کے تاروں کے ساتھ سروں کی سنگت ہو، وہ ایک سیدھی، سچی اور کھری گلوکارہ تھی۔ ریشماں کو ہمارے ملک کی نام نہاد اشرافیہ اور بیورو کریٹس نے وہ مقام نہیں دیا جو اس کا حق بنتا تھا۔ میڈم نور جہاں کے بعد ریشماں ہی وہ دوسری گلوکارہ تھی جو لاکھوں دلوں کی دھڑکن بنی رہی اس نے کبھی کسی سے کچھ نہیں سیکھا اس کی آواز قدرت کی دین تھی وہ ساری دنیا گھوم کر آئی تو کہنے لگی کہ مجھے تو میرا دیس ہی سب سے خوبصورت لگتا ہے۔ اس کی آواز ایک خوشبو تھی اور خوشبو کبھی مرتی نہیں ہے۔ فضاؤں میں ہواؤں میں ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔
وہ سر کا سمندر تھی' سنگیت اُجالا تھی
وہ پیار کا نغمہ تھی وہ بلبل صحرا تھی