اسموگ ایک ماحولیاتی روگ

زہریلے مادے سورج کی روشنی سے ملاپ پر اسموگ بن جاتے ہیں۔


ڈاکٹر آصف چنڑ November 19, 2017
صنعتی بڑھوتری اور گلوبلائزیشن جہاں انسان کے لیے وسائل پیدا کر رہی ہے وہاں ماحولیاتی آلودگی کے مسائل بھی پیچیدہ ہو رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

(ڈویژنل ایمرجنسی آفیسرریسکیو 1122بہاولپور)
ان دنوں وطن عزیز میں اسموگ کا راج ہے، جسے فضائی و ماحولیاتی آلودگی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، اس کو مد نظر رکھتے ہوئے اسموگ پر ایک تحریر قارئین کی نذر کی جا رہی ہے جس سے نہ صرف عام آدمی بلکہ صنعتی ادارے، محکمہ ماحولیات، صحت، ضلعی انتظامیہ سمیت دیگر محکمہ جات بشمول وفاقی و صوبائی حکومتیں استفادہ حاصل کر سکیں گی، نیز اس سے پیدا ہونے والی صورت حال پر قابو پانے کی سعی کی جا سکتی ہے۔

اسموگ دو الفاظ دھواں(Smoke) اور دھند (Fog)کا مجموعہ ہے، جو تاریخ میں پہلی بار 1900ء کے اوائل میں لندن میں استعمال ہوا، جہاں دھند اور دھوئیں نے لندن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مختلف ذرائع کے مطابق یہ لفظ Dr. Henry Antoine des Voeux نے اپنے مقالے فوگ اینڈ اسموگ (Fog & Smog)میں استعمال کیا۔ اسموگ نظر آنے والی درحقیقت ماحولیاتی آلودگی ہے، یہ نائٹروجن اکسائیڈ، سلفر ڈائی اکسائیڈ، اوزون(ozone) ، دھویں اور ہوا میں معلق دیگر اجزا پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس میں نہ نظر آنے والے مادے کاربن مونو آکسائیڈ (CO) کلورو فلورو کاربن(CFC) اور تابکار اجزا شامل ہیں۔ انسانی ذرائع سے پیدا ہونے والی اسموگ کوئلے کے جلنے، گاڑیوں کے دھوئیں، صنعتی اداروں کے اخراج اور جنگلی یا زرعی آگ سے پیدا ہوتی ہے۔ پھر ان میں شامل زہریلے مادے جب سورج کی روشنی سے ملاپ کرتے ہیں تو اسموگ بنتی ہے۔ فضا میںآلودگی کے دو طرح کے ذرات پائے جاتے ہیں۔

1۔ بنیادی آلودگی کے ذرات... یہ وہ ذرات ہیں جو براہ راست ماحول میں شامل ہوتے ہیں۔

2 ۔ ثانوی آلودگی کے ذرات...یہ ذرات کیمیائی ردعمل کے ملاپ سے بنتے ہیں۔فوٹو کیمیکل اسموگ نظر نہیں آتی لیکن یہ بہت زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ یہ صنعتی ترقی کے انقلاب کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے اور ان تمام جدید شہروں میں پائی جاتی ہے جہاں سورج زیادہ دیر تک روشن رہتا ہے اور موسم خشک و گرم ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہاں بھی جہاں روڈ ٹرانسپورٹ زیادہ ہوتی ہے۔ اسموگ کی قدرتی وجوہا ت میں ایک وجہ آتش فشاںکا پھٹنا بھی ہے جس میں سلفرڈائی اکسائیڈ کی وافر مقدار اور اس کے ساتھ دیگر معلق مادے موجود ہوتے ہیں ۔آتش فشاں کے پھٹنے سے جو اسموگ پیدا ہوتی ہے اسے ووگ(Vog )کہتے ہیں ۔

اسموگ پیدا کرنے کے لیے چند عوامل جن میںالٹراوائلٹ لائٹ ( Ultraviolet Light)، ہائیڈروکاربنز( Hydrocarbons)، نائٹروجن آکسائیڈ(Nitrogen oxides ) سمیت دیگر اجزا جن میں (Volalite Organic Compounds VOCs)بخاراتی نامیاتی کمپاونڈ شامل ہیں۔ صنعتی انقلاب اور ذرائع آمد رفت میں اضافہ وہ دو بنیادی ذرائع ہیں، جن سے یہ مادے بڑی مقدار میں خارج ہو رہے ہیں۔ دن کا وقت بھی بہت اہم ہے جو کہ فوٹو کیمیکل اسموگ بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ جیسے ہی صبح کا آغاز ہوتا ہے، ٹریفک کا رش بڑھتا ہے اور نتیجتاً نائٹروجن کا اخراج اور نامیاتی مادوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ درمیانی اوقات میں ٹریفک میں کمی ہوتی ہے، اس کے ساتھ نائٹروجن اور بخاراتی نامیاتی مادے آپس میں مل کر نائٹروجن آکسائیڈ بناتے ہیں۔

سورج کی روشنی میں نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ بائی پراڈکٹس (Byproducts) میں تحلیل ہو جاتی ہے، جس کے نتیجے میں اوزون بنتی ہے۔ علاوہ ازیں نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، بخاراتی نامیاتی مادوں (VOCs) سے مل کر PAN(Peroxyacetyl Nitrates) بناتی ہے PAN انسان اور پودوں کیلئے نقصان دہ ہے۔ یہ بات توجہ طلب ہے کہ غروب آفتاب کے بعد اوزون بننے کا عمل رک جاتا ہے۔اسموگ کے انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں، مثلاً نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ آنکھوں اور نظام تنفس کیلئے مضر ہے، سلفر ڈائی آکسائیڈ سانس کے راستے کو متاثر کرتی ہے اور پھیپھڑوں میں گیسوں کے تبادلے میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔ بخاراتی نامیاتی مادے( VOCs) جن میںشامل میتھین (Methane) گلوبل وارمنگ کا باعث ہے، بنزین (Benzene) کینسر پیدا کرتی ہے، اوزون ناک، کان اورگلے کو متاثر کرتی ہے۔

اس کے علاوہ حاملہ خواتین میں بچوں کی وقت سے پہلے پیدائش، پیدائشی طور پر جسم کی ساخت میں نقائص مثلا سر کا چھوٹا ہونا، دماغ اور حرام مغز کی کم نشوو نما ہونا (Low Birth Weight) نو مولود کا کم وزن ہونا، مضر اثرات کی فہرست میں شامل ہیں۔ اسموگ کے نباتات پر بھی ضرر رساں اثر ات مرتب ہوتے ہیں، جن میں فصلوں کی بڑھوتری اور پیداواری کمی شامل ہیں۔ فصلوں اور درختوں کو اوزون (Ozone)اور پین PAN شدید متاثر کرتے ہیں۔ PANپودوں اور فصلوں کے پتوں کو مار دیتا ہے جس سے انگور، آلو اور تباکو کی فصل کو50 فیصد اور کپاس کو 30 فیصد نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اسموگ ربڑ ، پلاسٹک ، رنگوں ، پتھر، کپڑا اور کنکریٹ کو بھی متاثر کرتی ہے، کیوں کہ اس میں سلفیورک ایسڈ اور نائٹرک ایسڈ جیسے زہریلے اجزا بھی شامل ہوتے ہیں۔ اسموگ کسی بھی موسم یا کسی بھی اس شہر بن سکتی ہے، جہاں صنعتوں سے پیدا ہونے والے دھوئیں اور گیسوں کا اخراج زیادہ ہوتا ہے۔ اسموگ کی شدت کی پیمائش کی جاسکتی ہے، جس کے لئے ایک خاص قسم کا آلہ جسے نیفلو میٹر(Nephelometer) کہتے ہیں، استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا میں معیار کے پیمانے مثلا ملائشین API (Air Pollution index)، امریکن (American Air Quality Index)AQIاور سنگاپور PSI ) (Pollutant Standards Index شامل ہیں۔ اسموگ سے معاشرے کا ہر فر د متاثر ہوسکتا ہے لیکن وہ لوگ جو گھروں سے زیادہ باہر رہتے ہیں وہ اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم یہاں آپ کو ان چار اقسام کے افراد کے بارے میں بتاتے ہیں، جو اسموگ سے بہت زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔

1۔ بچے

بچے چوں کہ زیادہ متحرک رہتے ہیں اور زیادہ وقت کھیل کود میں ہی باہر گزارتے ہیں، اس لیے اسموگ سے متاثر ہو سکتے ہیں اور نتیجتاً ان میں دمہ و دیگر سانس کی بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں، لہذا اسموگ کی صورت میں بچوں کو کم سے کم باہر نکلنے دیں۔

2۔ بالغ حضرات

وہ نوجوان جو باہر کا کام کرتے ہیں خواہ وہ کسی بھی عمر یا جنس کے کیوں نہ ہوں اور کسی بھی نوعیت کا کام چاردواری سے باہر کرتے ہیں، شدید رسک پر ہوتے ہیں، یعنی اسموگ ان نوجوانوں کا جلد اور باآسانی شکار کر سکتی ہے۔

3۔بیمار

جو لوگ دل اور سانس کی بیماری میں پہلے سے مبتلا ہوتے ہیں یہ لوگ دیگر صحت مند انسان کے مقابلے میں اسموگ سے شدید متاثر ہو سکتے ہیں، کیوں کہ بیماری کے باعث ان میں قوت مدافعت بھی کم ہو چکی ہوتی ہے۔



4۔ بزرگ افراد

بزرگ افراد شدید اسموگ کے موسم میں باہر جانے سے گریز کریں، کیوں کہ ضعف کی وجہ سے یہ ان پر جلد حملہ آور ہو سکتی ہے۔اسموگ سے نہ صرف انسانی حیا ت اورماحول پر خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ روڈ ٹریفک حادثات میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسموگ سے بری ، بحری اور ہوائی ٹریفک متاثر ہوتی ہے ۔ لوگوں کو چاہیے کہ اسموگ میں فوگ لائیٹس کا استعمال کریں ،غیر ضروری سفر سے اجتناب کریں، گاڑیوں کی مرمت کروائیں، چھوٹی گاڑیوں ، بیل گاڑیوں ، گدھا ریڑھی اور تانگہ گھوڑے پر ریفلکٹر سٹیکر کا استعمال کریں، غیر ضروری طور پر لمبے سفر سے اجتناب کریں۔صبح 10 بجے سے شام 6 بجے تک کا سفر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ ہیلمٹ اور سیٹ بیلٹ کا استعمال لازمی طور پر کریں۔ کھلی فضا میں کام کرنے والے افراد اور شدید ضرورت میں گھر سے نکلتے وقت فیس ماسک اور چشموں کا استعمال کریں۔ غیر ضروری طور پر عمارتوں کو منہدم نہ کیا جائے۔اس کے علاوہ درختوں کی غیر ضروری کٹائی نہ کی جائے بلکہ شجر کاری کو فروغ دیا جائے۔

صنعتی بڑھوتری اور گلوبلائزیشن جہاں انسان کے لیے وسائل پیدا کر رہی ہے وہاں ماحولیاتی آلودگی کے مسائل بھی پیچیدہ ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں وفاقی و صوبائی سطح پر ماحولیاتی آلوگی کے حوالے سے بڑی اچھی قانون سازی موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد اتنا زیادہ موثر نہیں۔ وفاقی و صوبائی حکومتوںکو آلات کی فراہمی اور مکمل حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ جس سے ماحولیاتی آلودگی کو کم کر کے انسانی، نباتاتی و ماحولیاتی بقا کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔