خیر کے اسباب

یہ مفصل ابتدائیہ لکھنے کی ضرورت مجھے اس لیے آن پڑی کہ آپ بیتی سناکر مجھے ایک دوست نے امید کی کرن دکھائی ہے۔


Hameed Ahmed Sethi November 19, 2017
[email protected]

یہ کہنا شاید پورا سچ نہ ہو کہ ہمارے ملک کے عوام بڑے بھولے اور معصوم ہیں اور اگرچہ وہ گزشتہ ستر برس سے ڈھول کی تاپ پر ناچ ناچ کر اپنے اپنے پسندیدہ لیڈروں کے حق میں نعروں کی گونج میں وقت گزار رہے ہیں اور وہ بھی اس امید پر کہ ان کے دن آج نہیں تو کل پھرینگے، یہ لوگ بڑے صابر اور حوصلہ مند ہیں کہ وہ بھی جنھوں نے اپنے لیڈر کی صرف ایک جھلک کسی جلسے جلوس میں دیکھی ہوتی ہے یا انھیں ٹیلیوژن کی اسکرین ہی پر تقریر کرتے سنا ہوتا ہے۔

ان کے وعدوں اور دعوؤں پر یقین کرکے ان کی گفتار کے سحر سے متاثر ہوکر کبھی اپنے مالک وڈیرے، سائیں، سردار یا پیر اور کبھی برادری کے بزرگ کے کہنے پر الیکشن والے دن نعرے لگاتے، انھیں ووٹ دینے ان ہی کی ٹرالیوں، بسوں، ویگنوں، بسوں اور ٹرکوں میں بیٹھ کر پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچ کر بیلٹ پیپر پر ان کے انتخابی نشان پر ٹھپے لگاتے اور نتیجہ نکلنے پر بھنگڑے ڈالتے، جشن مناتے گھروں کو لوٹتے ہیں، اس امید پر کہ آنیوالے دنوں میں ان کے وعدوں کا سورج یقینا طلوع ہوگا لیکن آئندہ الیکشن یا سیاسی لیڈروں کی جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے تک ان کے خوابوں کی تعبیریں پانی پہ بنی تصویروں کی طرح بنتی بگڑتی رہ جاتی ہیں اور یہ کھیل کبھی وردیوں کی صورت اور کبھی شیروانیوں کی شکل میں باریاں لیتا نظر آتا ہے اور بھولے عوام آنکھیں ملتے ہوئے دیکھتے اور سوچتے ہیں کہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں لیکن انسان ہیں کہ امید کا دامن نہیں چھوڑتے اور منتظر رہتے ہیں کہ جس صبح کی امید پر وہ جی رہے ہیں ضرور طلوع ہوگی۔

یہ دکھ بھرا لیکن مفصل ابتدائیہ لکھنے کی ضرورت مجھے اس لیے آن پڑی کہ آپ بیتی سناکر مجھے ایک دوست نے امید کی کرن دکھائی ہے۔ وہ بیرون ملک گیا ہوا تھا۔ جب اسے اطلاع دی گئی کہ اس کی بیگم کے سینے میں ایک تکلیف دہ پھوڑے کا انکشاف ہوا ہے۔ وہ پریشان ہوکر لوٹا، فوراً ڈاکٹروں سے رجوع کیا۔ علاج سے آفاقہ نہ ہوا تو اس کے عزیزوں نے مشورہ دیا کہ تمہیں مالی تنگی تو ہے نہیں اس لیے بیگم کو فوراً لندن لے جاؤ کیونکہ ملک کے خوشحال لوگ اور حکمران طبقہ علاج کے لیے ملک سے باہر جانے کو ترجیح دیتا ہے۔

کسی نے اسے شوکت خانم کینسر اسپتال سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ 0اس کی باری آگئی اور میڈیکل ٹیسٹ ہونے لگے اور علاج بھی شروع ہوگیا۔ اسپتال میں داخلے اور دیکھ بھال و علاج کا طریق دیکھ کر اس کا غصہ تو جاتا ہی رہا تھا، وہ شکرانے کے نفلوں پر آگیا۔ وہ اپنے رویے پر پشیمان بھی ہوا اور طریق علاج کا معترف بھی ہوا اور پھر ایک روز اپنی شفایاب بیگم کو گھر لے گیا۔ علاج کا بل چکاتے ہوئے اسے کچھ ریفنڈ بھی ملا جو ان ٹیسٹوں سے متعلق تھا جن کی ضرورت نہ پڑی تھی۔

اگرچہ کینسر کے مرض کے علاج کا شوکت خانم میموریل اسپتال ایک قابل فخر ادارہ ہے جس کا کریڈٹ عمران خان اور ان بے شمار ڈونرز کو جاتا ہے جو عمران کی ایک کال پر چند گھنٹوں میں لاکھوں روپے عطیہ کر دیتے ہیں لیکن خدمت کے اس جذبے میں کئی اداروں اور شخصیات کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔ احمد عبداللہ فاؤنڈیشن نے ایم اے عائشہ میموریل سینٹر کے نام سے کراچی میں ایک مکمل بحالی مرکز 1989ء میں قائم کیا جہاں اسپیچ، ہائیڈرو اور سائیکو تھیراپی کی جدید سہولتیں موجود ہیں۔

اس طرح ڈاکٹر سکندر حیات خاں نے 1980ء میں بحیثیت ٹرسٹی زبیدہ خالق میموریل ٹرسٹ کے نام سے اسپتال کا اجرا کیا اور اس کے لیے پسماندہ علاقوں میں سے بلتستان کا انتخاب کیا جہاں سے اب تک پانچ لاکھ سے زیادہ مریض علاج کراچکے ہیں۔ فاطمید فاؤنڈیشن ایسا فلاحی ادارہ ہے جو خصوصاً خون کی بیماریوں والے لاکھوں مریضوں جیسے تھیلیسیمیا اور ہیموفلیا اور دیگر خون کے امراض پر خاص توجہ دیتا ہے۔ اس کے علاوہ خون کی کمی والے مریضوں کو ان کا بلڈ گروپ مہیا کرتا ہے۔

اسی طرح لاہور کا حجاز اسپتال جس کے بانی حاجی انعام الٰہی ہیں۔ ہر قسم کے امراض میں معاون ہوتا اور فری میڈیکل سروس دیتا ہے۔ اس اسپتال میں 150 بستروں کی سہولت ہے ۔ہوپ (Hope) کے نام سے قائم ادارہ صحت تعلیم اور مستحق افراد کی مدد کے لیے کراچی، بلوچستان اور ٹھٹھہ میں سرگرم عمل ہے۔ اس کے صحت سے متعلق مراکز کے علاوہ 195 ہوپ ہوم اسکولز میں 9 ہزار بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

کراچی میں ایک ڈاکٹر آئی کے گل نے 1963ء میں میری ایڈلیڈ لپروسی سینٹر کا اجرا کیا۔ سن 1960ء میں 31 سالہ ڈاکٹر رُتھ فاؤ جرمن خاتون نے جو رومن کیتھولک نن تھی، پاکستان آکر کراچی میں قیام کیا اور جذام یا کوڑھ کی بیماری کا انسداد کرنے کا عزم کرکے ایک جُھگی نما کمرے سے اس کی ابتدا کی۔ اس نے افغانستان کے دورے بھی کیے لیکن اس کے مشن کا مرکز کراچی رہا۔ پاکستان میں جذام کے علاوہ اس نے TB اور اندھے پن کے مریضوں کا علاج بھی شروع کردیا۔ لوگ اسے منگھوپیر کی فرشتہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

1929ء میں مشرقی جرمنی میں پیدا ہونے والی ڈاکٹر رتھ فاؤ نے اپنی زندگی کے پچاس سال پاکستان میں کوڑھ کے مریضوں کا علاج کرنے میں لگا دیئے۔ کراچی میں میری ایڈلیڈ جذام سینٹر اس کی مصروفیات کا مرکز رہا۔ اسے لوگ پاکستان کی مدر ٹریسا بھی کہتے تھے۔انھیں متعدد اعزاز ملے۔ ڈاکٹر رتھ 2017ء کو 87 سال کی عمر میں انتقال کرگئیں۔ ان کی تدفین قومی اعزاز کے ساتھ گورا قبرستان کراچی میں ہوئی۔ وفات کے بعد حکومت نے سول اسپتال کراچی کا نام ڈاکٹر رتھ فاؤ اسپتال رکھ دیا ہے۔

پاکستان میں متعدد افراد نے خیراتی ادارے قائم کر رکھے ہیں جن میں مستحق اور غریب مریضوں کے لیے اسپتال شامل ہیں جن کا ذکر آئندہ ہوگا۔ نیکی کا پھل قادر مطلق ضرور دیتا ہے۔

نام مطلوب ہے تو خیر کے اسباب بنا
پُل بنا چاہ بنا مسجد و تالاب بنا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں