دُہری شہریت
پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں کیا اقدامات کئے جانے چاہئیں؟
آبائی وطن سے کسے پیارا نہیں ہوتا ، جہاں سے انسان کا خمیر اٹھا ہو وہ خطہ اس کے دل کے ہمیشہ قریب رہتا ہے۔
ہم آج بھی ایسے بہت سے بزرگوں کو جنھیں پاکستان بننے کے بعد ہجرت کر کے یہاں آنا پڑا، اپنی جنم بھومی کو یاد کر کے افسردہ ہوتے دیکھتے ہیں، یہ معاملہ صرف ادھر ہی نہیں بلکہ یہاں سے بھارت ہجرت کر جانے والے بزرگ بھی ایسے ہی جذبات کا اظہار کرتے ہیں ۔ اسی طرح روزگار کے ہاتھوں یاکسی اور وجہ سے پاکستان سے جا کر دوسرے ملکوں میں بس جانے والوں کو بھی اپنا وطن عزیز ہوتا ہے۔ ایسے افراد کا صرف یادوں کا رشتہ آبائی وطن سے نہیں رہتا بلکہ ان کے عزیز رشتہ دار اور بہت سے دیگر معاملات بھی اسی وطن سے وابستہ رہتے ہیں۔ بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو پتھر کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں اور پھر پلٹ کر نہیں دیکھتے ۔
جدید دور کی ابتدا ہوئی تو زندگی کی اسی بھاگ دوڑ کی وجہ سے دنیا کے تمام ممالک نے ایسے قوانین بنائے جس سے اس بات کا تعین ہو سکے کہ کون سا فرد ان کے ملک کا شہری ہے ، مگر یہاں پھر یہ مسئلہ پیدا ہواکہ جو لوگ اپنے آبائی وطن کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک کے شہری بن جاتے ہیں اور پھر وہ اپنے آبائی وطن سے بھی وابستہ رہتے ہیں ان کا کیا کیا جائے ، تب دہری شہریت کا تصور پروان چڑھاجس کے لئے شہریت کے قوانین میں اس بات کی گنجائش نکالی گئی کہ دوسرے ملکوں میں بس جانے والے افراد کی ان کے آبائی وطن سے بھی اتنی ہی وابستگی رہے جتنی کہ پہلے تھی، مگر تمام ممالک نے ان قوانین کو بناتے ہوئے اپنے سیاسی اور معاشی حالات کو مد نظر رکھا۔
پاکستان میں شہریت کا قانون 1951ء میں نافذ کیا گیا ، یہ ملک چونکہ برصغیر کی تقسیم سے وجود میں آیا تھا اور پھر اس کے دوحصے تھے مغربی اور مشرقی پاکستان ، اس کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ بھی ابھی تک حل طلب ہے تو اس قانون کے وضع کرنے میں ان تمام باتوں کو مدنظر رکھا گیا ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ضرورتیں بھی بدلتی گئیں اور یوں 1951ء کے شہریت کے قانون میں 1952،1972،1973ء اور2000ء میں ترامیم کی گئیں۔ اس قانون کے مطابق پاکستان کے شہریوں کو 16ملکوں کی شہریت رکھنے کی اجازت ہے جن میں امریکا، بیلجیم، کینیڈا،مصر، برطانیہ،آسٹریلیا، فرانس، اٹلی،آئر لینڈ،اردن، ہالینڈ، نیوزی لینڈ، سویڈن، سوئٹزر لینڈ اور شام شامل ہیں۔
تاہم دہری شہریت رکھنے والے شہریوں کو ممبر پارلیمنٹ بننے کا حق حاصل نہیں، اسی طرح وہ پبلک آفس کی ڈیلنگ اور فوج میں بھی بھرتی نہیں ہو سکتے۔ اگر دہری شہریت کے حامل کسی پاکستانی نے یہاں کی پارلیمنٹ کا ممبر بننا ہے تو اسے غیر ملکی شہریت چھوڑنا ہو گی ، تاہم اس کے علاوہ دہری شہریت رکھنے والے فرد کو دیگر پاکستانی شہریوں کی طرح حقوق حاصل ہیں اور وہ اپنے آبائی وطن میں آزادانہ آ جا سکتا ہے اس کے لئے اسے قسم کے ویزے یا اجازت کی ضرورت نہیں، کاروبار کر سکتا ہے ،زمین و جائیداد خرید سکتا ہے حتیٰ کہ اسے ووٹ ڈالنے کا حق بھی حاصل ہے۔دوسرے ممالک میں بسنے والے پاکستانی بھی اپنے آبائی وطن سے اتنا ہی پیار کرتے ہیں۔
جتنا کہ یہاں بسنے والے ، جس کا ثبوت دوسرے دیا ر میں بسنے والے گاہے بگاہے دیتے رہتے ہیں کبھی قرض اتارو ملک سنوارو کی مہم میں حصہ ڈال کر ، کبھی زلزلہ زدگان کی مدد کر کے ،کبھی سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کی بحالی میں حصہ ڈا ل کر ۔ جب بھی پاکستان کو ضرورت محسوس ہوئی تو انھوں نے اپنے وطن سے محبت کا ثبوت دیا ، ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیاکے مختلف ممالک میں 17لاکھ سے زائد پاکستانی مقیم ہیں ، برطانیہ میں 12لاکھ،امریکا میں 4لاکھ، کینیڈا میں 2 لاکھ،فرانس میں 50ہزار،اسپین میں70 ہزار،جاپان میں 15ہزار، ہالینڈ میں 35 ہزار، نیوزی لینڈ میں 5 ہزار پاکستانی شہری مقیم ہیں ۔
دیار غیر میں بسنے والے یہ پاکستانی ہر سال تقریباً13بلین ڈالر پاکستان بھیجتے ہیں جو ملک کی ایکسپورٹ کے بعد زرمبادلہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اسی طرح بہت سے پاکستانی دہری شہریت رکھنے کے باوجود برطانیہ ، کینیڈا ،سویڈن ، اٹلی، امریکا، سوئٹزر لینڈ، بیلجیم، آئر لینڈ، ہالینڈ، نیوزی لینڈ، فرانس، آسٹریلیاسمیت کئی ممالک میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ صرف برطانیہ میں 300پاکستانی نژاد مختلف شہروں میں کونسلر منتخب ہو کر خدمات سرانجام دے رہے ہیں،برطانیہ کے سات شہروں بلیک برن،نیلسن،بریڈ فورڈ،والتھم اسٹو،ہائی ویکمب ، برمنگھمم میڈن ہیڈ کے لارڈ میئر پاکستانی ہیں۔
اس کے علاوہ چھ پاکستانی نژاد ہاؤس آف لارڈز کے معزز ایوان میں پہنچ چکے ہیں جن میں لارڈ نذیر احمد، لارڈ قربان حسین، لارڈ محمد شیخ ، لارڈ طارق علی اور بیرونس سعیدہ وارثی شامل ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ پاکستانی نژاد سجاد کریم یورپین پارلیمنٹ کے ممبر بن چکے ہیں ۔ پاکستانی نژاد سعیدہ وارثی برطانیہ کی حکمران جماعت کی چیئر پرسن کی ذمے داریاں بھی نبھا چکی ہیں اور پہلی پاکستانی نژاد خاتون مسلمان وزیر ہونے کا اعزاز بھی انھیں حاصل ہے۔ لندن پولیس میں پاکستانی نژاد طارق غفور اہم عہدے پر فائز رہے ہیں ۔ برطانوی باکسر عامر خان بھی پاکستانی نژاد ہیں اور عالمی سطح پر پاکستان کی پہچان بن چکے ہیں ۔
برطانیہ کے فارن آفس ، ہوم آفس اور دوسرے سرکاری اور نجی اداروں میں پاکستانی نژاد ماہرین کام کر رہے ہیں اور برطانوی حکومت ان پاکستانیوں کی مہارتوں اور قابلیتوں سے استفادہ کر رہی ہے۔ برطانیہ کے علاوہ ناروے کے شہر اوسلوکی میونسپل کمیٹی کے آٹھ منتخب رکن پاکستانی نژاد ہیں جبکہ اختر چوہدری، طارق شہباز اور محترمہ افشاں رفیق ناروے کی پارلیمنٹ کے رکن رہ چکے ہیں۔ پہلی مسلمان تاجک ہادیہ تاجک نے ناروے کی کلچر منسٹر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ اسی طرح اشرف چوہدری نیوزی لینڈ کے رکن پارلیمنٹ اور یاسر نقوی کینیڈا میں وزیر برائے لیبر کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ گویا پاکستانی سوسائٹی کے افراد دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہیں ۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام افراد کی خدمات اور صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے کیا انھیں پاکستان کی پارلیمنٹ کا ممبر بننے کا حق دیا جانا چاہئے؟
اگر بیرون ملک میں مقیم افراد کی خدمات کو دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ انھیں پاکستانی پارلیمنٹ کا ممبر بننے کا حق بھی دیا جانا چاہئے مگر پاکستان گزشتہ چند سالوں سے جن حالات سے دوچار ہے خاص طور پر دہشت گردی کے عفریت نے جس طرح سے پورے ملک کو اپنے نرغے میں لے رکھا ہے تو ایسے حالات میں انتہائی پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ، پارلیمنٹ ایسا ادارہ ہے جس میں ملک کے لئے نا صرف قانون سازی ہوتی ہے بلکہ انتہائی اہم اور حساس نوعیت کے معاملات بھی زیر بحث آتے ہیں تو ایسی صورت میں اگر دہری شہریت کا حامل فرد پارلیمنٹ کا حصہ ہو گا تو لیکیج کا خطرہ ہر وقت سر پر منڈلاتا رہے گا ۔
یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے 17پارلیمنٹیرین کی ممبر شپ کینسل کردی ہے جو دہری شہریت کے حامل تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جن افراد کی ممبر شپ کینسل ہوئی ہے انھوں نے یہ کوشش بھی نہیں کی کہ پاکستان سے وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے بیرون ملک کی ممبر شپ ختم کر دیں ، ایک اہم بات یہ بھی کہ انھوں نے اپنی دہری ممبر شپ کو چھپا کر گویا آئین کی خلاف ورزی بھی کی جو بہت بڑا جر م ہے ۔ دہری شہریت کے حامل افراد کو پارلیمنٹ کا ممبر بننے کا حق دینے کے لئے حکومت کی طرف سے 21ویں ترمیم کا بل بھی تیار کیا گیا جو کسی وجہ سے پیش ہی نہیں کیا جا سکا۔
آئینی ماہر اور سابق جنرل سیکریٹری ہائیکورٹ بارلاہور لطیف سرا نے دہری شہریت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ''ایسے اہم فیصلے جب کئے جاتے ہیں تو ملک کی سیاسی ، معاشی اور ثقافتی صورتحال کو مدنظر رکھا جاتا ہے، اس وقت ملک کی جو صورتحال ہے معاشی طورپر ہم تباہی کے دہانے پر ہیں، سیاسی اور مذہبی طور پر سوسائٹی تقسیم ہے، ایسی صورت میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان سے محبت کرنے والوں کو آگے لایا جائے وہ ایسی صورت میں ہی ہو سکتا ہے کہ جب ایسے نمائندے آگے لائے جائیں جو صرف اور صرف پاکستان کے مخلص ہو ں، دہری شہریت والوں نے دوسرے ملک سے بھی وفاداری کا حلف دے رکھا ہوتا ہے، اس لئے ہمارے حالات کے تناظر میںدہری شہریت والوں کو پارلیمنٹ کا ممبر نہیں بنایا جانا چاہئے''۔
دہری شہریت رکھنے والوں کی پاکستان سے محبت اور خلوص کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور وہ پاکستان کی جس حد تک مدد کر سکتے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہے ۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ اگردہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کو پارلیمنٹ کا ممبر بننے کا حق دیا جانا چاہئے تو اس کے لئے کیا لائحہ عمل اختیارکیا جانا چاہئے، ایسی کون سی شرائط رکھی جائیں کہ ملک و قوم کے مفادات کا پوری طرح تحفظ ہو سکے، کیونکہ پاکستان اس وقت جن حالات سے دوچار ہے ان میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔
بھارت میں دہری شہریت کا قانون
بھارتی قانون دہری شہریت کے معاملے میں بالکل واضح ہے ، آئین میں صاف لکھا ہے کہ دہری شہریت کی بالکل اجازت نہیں ہے یعنی ایک فرد ایک ہی وقت میں بھارت اور کسی دوسرے ملک کی شہریت نہیں رکھ سکتا ۔
بھارتی حکومت کی طرف سے اوورسیز سیٹیزن شپ آف انڈیا (OCI)اورپرسنز آف انڈین اوریجن(PIO)دئیے جانے کے فیصلے کے بعدیہ سمجھا جانے لگا کہ شائد اس سے مراد دہری شہریت کا حق ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ یہ ان لوگوں کے لئے جو بھارت کے شہری ہوتے ہوئے کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کر لیتے ہیںسوائے پاکستان ، بنگلہ دیش اور دیگر چند ممالک کے، تب انھیں اوورسیز سیٹیزن شپ یا پھر پرسنز آف انڈین اوریجن کا کارڈ جاری کیا جاتا ہے ۔ اوور سیز سیٹیزن شپ کا کارڈ جاری کئے جانے پر بھی مندرجہ ذیل حقوق حاصل نہیں ہوتے۔
بھارتی پاسپورٹ جاری نہیں کیا جاتا۔
ووٹ ڈالنے کا استحقاق حاصل نہیں ہوتا۔
پارلیمنٹ ،ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کا ممبر نہیں بنا جا سکتا۔
سرکاری نوکری نہیں کی جا سکتی۔
تاہم ایسے بھارتی شہری کو بھارت میں تاحیات داخلے کا ویزہ مل جاتا ہے،بھارت کے کسی بھی علاقے میں ٹھہرنے کے لئے اسے کسی بھی تھانے میں رپورٹ کرنے کی ضرورت نہیںاور جتنی مدت تک چاہے بھارت میں ٹھہر سکتا ہے۔ زراعت کے علاوہ دیگر شعبوں میں سر مایہ کاری کر سکتا ہے۔اس کے علاوہ اگر ایسے شہری کو کوئی مزید مراعات دی جانی ہوں تو اس کا فیصلہ منسٹری آف اوور سیز انڈین افیئرز1955ء کے قانون کے مطابق کرتی ہے۔ اگر کوئی فرد پانچ سال سے او سی آئی کارڈ ہولڈر ہو اور اس دوران وہ چار سال تک بھارت میں رہائش پذیر رہا ہو تو اسے استحقاق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ بھارتی کی باقاعدہ شہریت حاصل کرنے کے لئے درخواست دیدے تاہم اسے اس کے لئے دوسرے ملک کی شہریت چھوڑنا ہو گی۔او سی آئی کی یہ اسکیم دسمبر 2005ء میں شروع کی گئی تاکہ بھارت سے باہر دوسرے ملکوں میں آباد بھارتیوں کو اپنے آبائی وطن میں آنے جانے میں آسانی ہو اور اگر وہ یہاں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہوں تو اس میں بھی انھیں کسی قسم کی مشکل پیش نہ آئے۔
پی آئی او اور او سی آئی کارڈ ہولڈرز میں فرق یہ ہے کہ او سی آئی کارڈ ہولڈر کو لائف ٹائم ویزہ جاری کیا جاتا ہے جبکہ پی آئی او کارڈ ہولڈر کا ویزہ 15سال کے لئے ہوتا ہے۔
اسی طرح اگر پی آئی او کارڈ ہولڈر بھارت کے ایک دورے کے دوران 180روز سے زیادہ ٹھہرنا چاہے تو اسے متعلقہ پولیس اسٹیشن میں نام رجسٹر کرانا ہو گاجبکہ او سی آئی کارڈ ہولڈر کو پولیس اسٹیشن میں نام درج کرانے کی ضرورت نہیں۔