جنتِ شداد

تعلیم افراد کو تہذیب، علم وسعت ذہنی، گہرائی سے غوروفکر اور جدوجہد کے نئے افق سے روشناس کراتی ہے



لاہور: تعلیم افراد کو تہذیب، علم وسعت ذہنی، گہرائی سے غوروفکر اور جدوجہد کے نئے افق سے روشناس کراتی ہے۔ ہم اس پر حیران ہوجاتے ہیں کہ دوسرے ملک میں 20 سال کا نوجوان ایک کامیاب تاجر، رائٹر، صحافی یا کچھ اور بن گیا اور یہاں 30 سال تک بقول لوگوں کے ''کجھل'' مارنے کے بعد بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ نوکری اور وہ بھی کس طرح۔

یہ سوچنا یوں تو صحیح ہے مگر غور کی بات یہ ہے کہ جس کے بارے میں یہ حیرت زدہ گفتگو کرکے ہم خود کو نفریں کررہے ہیں وہ کس ملک کا شہری ہے، اس ریاست کے معاشرتی اصول کیا ہے، لوگوں کو تحفظ اور روزگار کے کیا طے شدہ طریقے ہیں۔

اور پھر اپنے ملک میں نظر دوڑائیں تو یہاں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے یہاں جرم پر سزا کے بجائے ''پلی بارگیننگ'' کا بے ہودہ رواج ہے جس سے مجرم کو قانون کی مدد مل جاتی ہے۔ ''پلی بارگین'' ملک سے باہر موجود سرمائے کو لانے کے لیے تھی اور کم سزا اور زندگی بھر کی نا اہلی ملازمت کی بھی یقینا اس میں ابتدا میں شامل ہوگی اور اسے قومی اسمبلی کے دونوں دھڑوں نے بلواسطہ طریقوں سے ختم کروادیا ہوگا جب ہی تو ایک صاحب آج کل ''مسٹر کلین'' بنے گھوم رہے ہیں، مگر کب تک انسانوں کو خریدا جاسکتا ہے دھوکا دیا جاسکتا ہے مگر اسے نہیں! خیر یہ تو ایک بات درمیان میں آگئی تو کہہ دی بات ہے تعلیم کی اور تعلیم حاصل کی جاتی ہے۔ اس کا شوق اور لگن ہوتی ہے مگر یہ طریقہ استعمال کرنے والے دوسروں کی اعلیٰ پیمانے کی ''دو نمبری'' کی وجہ سے رزلٹ وہ حاصل نہیں کر پاتے جو حق ہے اور بڑوں کے نالائق بچے گھر بیٹھے ناجائز ڈگریاں جائز نظر آنے والے ہتھکنڈوں سے حاصل کرلیتے ہیں اور جانے والے دوسروں ملکوں میں جاکر جوہر دکھاتے ہیں اور یہ دو نمبری پاس شدہ ملک میں سول سروس کا لطف اٹھاتے ہیں۔ مال بناتے ہیں اور اگر بے احتیاطی سے پکڑلیے جائیں تو آخر میں پلی بارگین تو ہے نا۔

ایک مسٹر کلین پہلے مسٹرکچھ پرسنٹ تھے، بلوچستان کا وہ سیکریٹری بھی چوری کا مال دے کر چھوٹ گیا شاید اور اچکزئی تو پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے لیڈر ہیں،سیاستدان کا رشتے دار پولیس کانسٹیبل کو قتل کردے تو کیا فرق پڑتا ہے اور اسفندیار ولی ہی تو اب قائد اعظم ثانی ہیں۔بات پھر کسی اور طرف چلی جائے گی بلوچستان کے اس سیکریٹری کا کھرا نکال لیں، نالائق ہوگا، کسی بڑے سیاست دان وہ جن کے نام لکھے ہیں کا رشتے دار یا کم از کم کارکن تو ہوگا۔ نالائقی کا تعلق تعلیم اور اس میں دو نمبری سے ہے۔ نااہل ہوجانے والے کے لیے یہ کہتے ہیں کہ نا اہل جوکہ رہا ہے اور کر رہا ہے درست ہے یعنی قانون کو نہیں مانتے،نقصان ہے اس میں کھلی آنکھوں سے سیاسی مکھی نگل رہے ہیں۔

مولانا اس میں نا پر زور ہے اور یہ دو حضرات پاکستان کی بھلا کیا خدمت کررہے ہیں اپنے آپ کو افغان پہلے کہہ رہے ہیں کیا تماشا ہے کھانا پاکستان کا، گانا افغانستان کا کیونکہ وہاں بھارت بھی موجود ہے نہ ہی کانگریس ہے تو انڈین۔بات ہورہی تھی علم تعلیم کی، یہ لوگ بھی پتا نہیں شاید کالج وغیرہ میں پڑھے ہوئے ہیں یا پارلیمنٹ ممبر وغیرہ ہونا تو الگ بات ہے وہ تو بزنس ہے نماز فرض ہے سود بزنس ہے آپ کو پتا ہی ہوگا اس پر کوئی اعتراض بے سود ہے۔ بینکوں میں سود موجود ہے۔تو بات ہم کررہے تھے تعلیم کی۔ اب یہ جو دہشت گرد پکڑے جارہے ہیں یہ بھی کوئی نہ کوئی تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں، کہیں برین واش کیے گئے ہیں یہ کام کرنے والوں کی فنڈنگ بھی ہورہی ہوگی،بڑے سیاستدان کی طرح اونٹوں پر تو پیسے سعودی عرب سے دبئی نہیں لے گئے ہوںگے، اب تو دہشت گردی بھی ایک تعلیم ہے نا اور اس کی تعلیم تربیت کہاں ہورہی ہے؟

کب تک یہ سب پوشیدہ رہے گا معصوم جان دیتے رہیںگے، حکومت ان کو نہیں پکڑے گی جو اس کے ذمے دار سیاسی معاملات ہیں۔ کھلے عام یہ چند لیڈران پر الزام ہے کہ وہ ان کے سہولت کار ہیں۔ سیاسی سہولت کار!

ہر حکومت ایک نیا پلان لاتی ہے اور وہ وقت گزاری کے لیے ہوتا ہے۔ اسامہ کو اسپانسر کس نے کیا اور کون سی حکومتیں سہولت کار بنیں جب تک اسامہ ڈرامہ ختم نہیں ہوگیا وہ بے چارہ تو شاید تورا بورا میں ختم ہوگیا تھا۔ امریکا نے اپنے مفادات اور مسلم دنیا کو تباہ کرنے کے لیے اس کا وجود برقرار رکھا اور پھر ایبٹ آباد کے ٹوپی ڈرامے کے ذریعے کردار ختم کردیا۔ شاید لوگ کہتے ہیں وہ زندہ ہے کہیں۔ یہ سیاسی اور دوسرے قسم کی تعلیم ہے جو بلیک واٹر اور ریمنڈ ڈیوس پیدا کرتی ہے۔یہ سب تعلیم ہے۔ علم ایک طاقت ہے وہ انسانوںکی بھلائی کے لیے بھی کام آتا ہے اور ان کو نیست و نابود کرنے کے لیے بھی جو امریکا کر رہا ہے۔ اسرائیل، بھارت اور میانمار کررہے ہیں۔ نشانہ مسلمان اور نشانہ کو درست جگہ تک پہنچانے والے مسلمان۔

ٹرمپ کو مسلمانوں سے پرخاش ہے، اس وجہ سے اپنے فوجی استعمال کر رہا ہے، مارے جائیںگے ان کے ہاتھوں جن کو اب امریکا استعمال نہیں کررہا۔ ہم مسلمان ہیں ''اقرأ'' سے بات شروع ہوتی ہے اور جہاد، شہادت سے ہوکر انا ﷲ و انا الیہ راجعون تک کا درس ہے۔

دہشت گرد کیونکہ ان کو تیار کرنے والے، ان کو تیار کرنے کے بعد سپلائی کرنے کے بعد یہی بیان دیتے ہیں کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، غلط بیان ہے ہوتا ہے اس کا مذہب اور مسلک جس کے تحت اس کی برین واشنگ کرکے اسے دہشت گرد بنایاجاتا ہے غلط ترجیحات، منافرتی مواد، تقاریر سے اس کو ذہنی مریض بنایاجاتا ہے اور وہ ان سے یک خاص نقطہ نظر کا روبوٹ بن جاتا ہے اور جو کام روبوٹ کرتا ہے ۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کااستعمال عام بات ہے اور اب اسے روکا نہیں جاسکتا چاہے کچھ کرلیں کیونکہ اس کاروبار میں بڑے شریک ہیں تو جہاں یہ دہشت گرد تعلیم حاصل کرتے ہیں وہاں اس کا بھی وافر مقدار میں بندوبست ہوتا ہے۔افغانستان میں دنیا میں سب سے زیادہ ہیروئن تیار ہورہی ہے امریکا ہیروئن کی رسد روکنے کے بہانے آیا تھا اور پیداوار 100 گنا زیادہ ہوگئی تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ افغانستان ایک وار لیبارٹری ہے ہے اور وہاں کے تجربات شام، عراق، یمن سب جگہ آزمائے جاتے رہے ہیں اور آزمائے جاتے رہیںگے۔ بھارت ان جرائم میں حصہ لیتا رہے گا تاکہ انگلی امریکا کی طرف نہ اٹھے۔

کیا کہیں دہشت گردوں کے سرپرستوں نے اقرأ اور انا ﷲ و انا الیہ راجعون کے درمیانی سارے مدارج ختم کردیے۔ اقرأ کی تشریح بھی ان کی اپنی ہے اور انا ﷲ و انا الیہ راجعون کی تشریح بھی شداد کی جنت ہے۔ استغفراﷲ کے دہشت گرد اور معاشی دہشت گرد ایک ہی راہ کے مسافر ہیں! وہ بھی بے گناہوں کو ہلاک کررہے ہیں اور یہ قوم کے جسم سے خون نچوڑ رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔