لاپتہ افراد کا کمیشن

سپریم کورٹ کا کوئی معزز جج اس کمیشن کی نگرانی کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan November 22, 2017
[email protected]

لاپتہ افراد کا مسئلہ پاکستان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر سیاہ دھبہ تھا جو اب 16 سال بعد سیاہ صفحے پر محیط ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے دائرکردہ عرضداشتوں کی سماعت کے دوران خیبرپختون خواہ اور وفاق کے نمایندے پیش ہوئے مگر ان حکومتوں کے نمایندوں کی فائلوں میں لاپتہ افراد کے لواحقین کی تسلی اور تشفی کے لیے کچھ نہیں تھا، معزز جج صاحبان غصے کے سوا کچھ اور نہ کرسکے۔

سینیٹ میں پیپلزپارٹی کے فعال رکن سنیٹر فرحت اللہ بابر نے کوئٹہ میں سینیٹ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں لاپتہ افراد کے موضوع پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کیا جانے والا کمیشن اپنے اہداف کے حصول میں ناکام ہوچکا ہے، لہذا نیا کمیشن قائم کیا جائے۔

لاپتہ افراد کی اصطلاح یوں تو بہت پرانی ہے مگر نئی صدی کے آغاز کے بعد سے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں، سماجی کارکنوں اور طالب علموں وغیرہ کے اچانک لاپتہ ہونے کے بعد یہ اصطلاح استعمال ہوئی۔کہا جاتا ہے کہ نامعلوم افراد چار دروازوں والی ڈبل کیبن گاڑیوں میں آتے ہیں۔ عمومی طور پر یہ افراد راتوں کو گھروں میں آتے ہیں اور متعلقہ افراد کو ساتھ لے جاتے ہیں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان افراد کو حراست میں لینے سے انکار کرتے ہیں، پھر ان افراد کے لواحقین متعلقہ ہائی کورٹ میں حبس بے جا کی عرضداشتیں دائر کرتے ہیں۔

معزز عدالتیں وفاق کی وزارت داخلہ اور صوبوں کے افسروں کو طلب کرتی ہیں۔ یہ سب لوگ ان افراد کی گرفتاری سے انکار کردیتے ہیں تو پھر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ان افراد کو نامعلوم افراد نے اغواء کیا ہے۔ افتخار چوہدری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوئے تو انھوں نے ازخود کارروائی کے اصولوں کے تحت لاپتہ افراد کے لواحقین کی عرضداشتوں کی سماعت کی تو وزارت داخلہ نے اپنا جواب داخل کیا۔ وزارت داخلہ نے اپنے جواب میں ان افراد کی فہرست پیش کی جو مختلف نوعیت کے حفاظتی مراکز میں بند ہیں۔

ان میں سے کچھ لوگ وزارت داخلہ کی رپورٹ جمع کرانے سے پہلے اپنے گھروں کو پہنچ گئے، کچھ کو سرکاری طورپر بازیاب کرایا گیا اور کچھ لوگوں کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ بیرونِ ملک چلے گئے، خاص طور پر اس فہرست میں شامل کچھ لوگوں نے افغانستان جانے کی تصدیق کی ۔ معزز عدالت نے اپنے سابق جج جسٹس جاوید اقبال کو سندھ ہائی کورٹ کے ایک اور سابق جج جسٹس غوث محمد اور سابق انسپکٹر جنرل پولیس پر مشتمل کمیشن کے قیام کا اعلان کیا۔ اس کمیشن کے پاس عدالتوں کی طرح توہین عدالت کا اختیار نہیں ہے۔

سپریم کورٹ کا کوئی معزز جج اس کمیشن کی نگرانی کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ اس بناء پرکمیشن کا قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں پر دباؤ ڈالنا خاصا مشکل تھا مگر کمیشن کے اراکین نے ذاتی طور پر کوشش کی اورکچھ افراد بازیاب ہوئے اورکچھ کے بارے میں نئے حقائق سامنے آئے مگر مجموعی طور پر کمیشن لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے میں ناکام رہا۔

اس صدی کے آغاز پر جب بلوچستان میں مری قبیلے میں سیاسی بے چینی پھیلی اورجسٹس نوازمری کا قتل ہوا تو مری قبیلے کے بعض افراد کے اغواء اور ان کی عدم بازیابی کی خبریں شایع ہوئیں۔ خیبر پختون خواہ سے القاعدہ اور طالبان سے منسلک بعض افراد کے لاپتہ ہونے کی خبریں شایع ہونے لگیں اور یہ سلسلہ پنجاب اور سندھ تک پھیل گیا۔ سندھ میں کالعدم تنظیموں کے کارکنوں کے علاوہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کے لاپتہ ہونے کی خبریں شایع ہونے لگیں۔

بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد دیگر صوبوں سے آ کر بلوچستان میں آباد ہونے والے اساتذہ، ڈاکٹروں، صحافیوں ،وکلاء اور خواتین وغیرہ کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی اور بلوچ سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا کوئٹہ اور دیگر شہروں کے مضافاتی علاقوں سے ملنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

ایسی ہی صورتحال کراچی میں ایم کیو ایم کے لاپتہ ہونے والے کارکنوں کے ساتھ بھی ہوئی۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ بین الاقوامی میڈیا میں اجاگر ہونے لگا۔ بلوچ قوم پرست ماما قدیر نے اپنے بیٹے کے اغواء اور اس کی مسخ شدہ لاش ملنے کے بعد لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے پہلے کوئٹہ اور پھر کراچی میں بھوک ہڑتال کی اور اسلام آباد تک مارچ کیا۔ انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیموں نے اس مارچ کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا جس کی بناء پر جینیوا میں ہونے والی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس کے ایجنڈے میں یہ مسئلہ شامل کیا گیا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی بعض رکن ممالک نے پاکستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے کا بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے موازنہ کیا۔ یہی وجہ تھی کہ انسانی حقوق کونسل میں پاکستان مخالف لابی کو بھرپور استعمال کیا گیا۔ سیاسی اور سماجی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا معاملہ بین الاقوامی ایجنڈا بن گیا ۔

مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ نے جب پاناما کیس میں نااہل قرار دیا تو ان کی قومی اسمبلی کی لاہور کی نشست خالی ہوگئی۔ اس نشست پر ان کی اہلیہ کلثوم نواز نے انتخاب میں حصہ لیا۔ کلثوم نواز کے غیر موجود ہونے کے باوجود انتخاب میں کامیاب ہوئیں تو اسی شام نواز شریف نے لندن میں الزام لگایا کہ لاہور کے حلقہ 120 میں کام کرنے والے کئی مسلم لیگی کارکنوں کو انتخاب کی رات اغواء کر لیا گیا۔ میاں صاحب کا کہنا تھا کہ نامعلوم مسلح افراد ان لوگوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ لاہور میں مسلم لیگی رہنماؤں نے تصدیق کی کہ ان کے 6 کارکن لاپتہ ہوئے تھے اور وہ اب واپس گھروں کو آگئے ہیں ۔

پنجاب سے مسلم لیگی کارکنوں کے اغواء نے لاپتہ افراد کے مسئلے کو مزید سنگین کردیا۔ سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے کراچی میں ایک نشست میں اقرارکیا کہ سینیٹ اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہی۔ 60 ء اور 70ء کی دہائی میں جب لاطینی امریکا کے ممالک میں امریکا نواز حکومتوں کے خلاف کمیونسٹوں کی مزاحمتی تحریکیں مضبوط ہونے لگی تھیں تو پھر ان فوجی حکومتوں نے کمیونسٹوں اور ان کے حامیوں کو اغواء کرنا شروع کیا تھا، امریکی حکمت عملی کے تحت کیوبا میں آنے والے انقلاب کو لاطینی امریکا کے دیگر ممالک میں روکنے کی کوشش کی گئی تھی۔

ہٹلر نے ہزاروں لوگوں کو اغواء کرکے ہلاک کیااورکنسرٹیشن کیمپوں میں بند کیا تھا۔ ان کیمپوں کی درد ناک داستانوں نے ایک نئے ادب کو تخلیق کیا تھا اور اس موضوع پر سیکڑوں فلمیں نہیں مگر پاکستان میں اب ریاستی ادارے 1973ء کے آئین کے تحت فرائض انجام دے رہے ہیں، عدالتیں آزاد ہیں اور پارلیمنٹ قانون سازی کا فریضہ انجام دے رہی ہے۔ آئین کے تحت بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمے داری ہے۔

پاکستان نے اقوام متحدہ کے سول اور پولیٹیکل رائٹس کنونشن پر دستخط کیے ۔ پاکستان کی حکومت اس کنونشن پر عملدرآمد کی پابند ہے۔ اس صورتحال میں لاپتہ افراد کا معاملہ پاکستانی ریاست کے چہرے کو دھندلا کررہا ہے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر کی یہ بات درست ہے کہ موجودہ کمیشن متوقعہ نتائج حاصل نہیں کرسکا۔ کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نیب کے سربراہ مقرر ہوچکے ہیں اس صورتحال میں جاوید اقبال کو ایک قانون کے تحت بااختیار کمیشن قائم کرنا چاہیے جو اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچا سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں