تانا بانا کالے دھندوں کا

کراچی میں سرگرم جرائم پیشہ گروہ کس کس روپ میں سرگرم ہیں، ایک چشم کُشا رپورٹ


Abdul Latif Abu Shamil March 09, 2013
کراچی میں سرگرم جرائم پیشہ گروہ کس کس روپ میں سرگرم ہیں، ایک چشم کُشا رپورٹ۔ فوٹو: فائل

آبادی اور صنعتی وتجارتی سرگرمیوں کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی ایک مدت سے مختلف نوعیت کے جرائم کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔

یہاں جیب کتروں اور نوسربازوں سے لے کر کرائے کے قاتلوں تک ہر طرح کے جرائم پیشہ گروہ سرگرم ہیں اور کُھل کھیل رہے ہیں۔ یہ گروہ کس طرح کام کرتے اور شہریوں کو اپنا ہدف بناتے ہیں، اس ضمن میں کی گئی تحقیق، اختصار کے ساتھ قارئین کی نذر ہے، تاکہ جہاں تک ممکن ہو ہر شہری خود کو اور اہل خانہ کو ہدف بننے سے محفوظ رکھ سکے۔

کراچی میں سرگرم جرائم پیشہ افراد کتنے مُنظّم، مربوط اور کتنے بااثر ہیں، اس کا اندازہ آپ کو یقیناً ہوگا لیکن یہ آپ کے وہم و گمان سے زیادہ منظم ہیں۔ نت نئے طریقے ایجاد کرنا ان کا معمول ہے۔ یہ انسانی نفسیات سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔ انہوں نے شہر کو آپس میں بانٹ رکھا ہے اور ایک دوسرے کی حدود میں شاذ ہی مداخلت کرتے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد آپس میں جڑے ہوئے اور ایک دوجے کے دست و بازو ہیں اگر ان میں کوئی تنازع ہوجائے تو یہ اسے طول نہیں دیتے، بل کہ آپس میں معافی تلافی کرکے پھر سے شیروشکر ہوجاتے ہیں اور ہر صورت ایک دوسرے کا تحفظ کرتے ہیں۔ اب اِن جرائم پیشہ گروہوں کا ایک ایک کرکے جائزہ لیتے ہیں۔

ریکی کرنے والے:جرائم پیشہ افراد میں ہر گروہ اپنے کام کا ماہر ہے اور اپنی معلومات اور خدمات فروخت کرتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ ہر علاقے میں بڑے گھروں، کوٹھیوں اور بنگلوں کی مکمل معلومات رکھتے ہیں، اسے ریکی کرنے والا گروہ کہا جاتا ہے۔ اگر کسی کو کہیں ڈکیتی کرنی ہو تو وہ متعلقہ ریکی گروہ سے رابطہ کرتا اور معاوضہ دے کر معلومات حاصل کرتا ہے۔ یہ گرو ہ گھر میں مقیم افراد کے نام، عمر اور ان کے کاروبار کے بارے میں مکمل معلومات رکھتے ہیں۔ یہ افراد خانہ کی آمدورفت، گاڑی کا نمبر، بچوں کے اسکول، کاروبار، بنگلے میں نصب کیمرے اور سیکیوریٹی پر مامور افراد کے بارے میں مکمل معلومات رکھتے ہیں۔

انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کس وقت کتنے افراد گھر میں موجود اور کتنے باہر ہوتے ہیں۔ یہ ریکی گروہ خود بھی گھروں کی ریکی کرتا ہے اور اس کے کارندے آس پاس کی دکانوں، خصوصاً پان کے کیبن سے پان سگریٹ لینے کے بہانے متعلقہ گھر کی معلومات جمع کرتے رہتے ہیں۔ ان کا کام کرنے کا طریقہ بہت سادہ ہوتا ہے، بہت خوش اخلاق ہوتے ہیں اور اچھے کپڑے پہنتے ہیں۔ متعلقہ گھر کے چوکی دار سے دوستی کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے، وہ چوکی دار، مالی، خان ساماں اور ڈرائیور سے دوستیاں کرنے کے ماہر ہوتے ہیں، ان ہی لوگوں کی وساطت سے معلومات جمع کرتے ہیں۔ ذرائع آمدنی، اندرون و بیرونِ ملک مقیم افراد، گھر میں کام کرنے والی ماسیاں بھی ان کے لیے معلومات کا ذریعہ ہیں۔

یہ اپنی معلومات بہت منہگے داموں فروخت کرتے ہیں، خود ڈکیتی نہیں کرتے، ''جیسی اسامی، ویسے دام'' ان کا اصول ہے۔ اپنے کام میں انتہائی دیانت دار ہوتے ہیں، اگر کبھی معلومات درست نہ نکلیں تو وصول کیے دام مِن و عَن لوٹا دیتے ہیں۔

ڈکیت:ڈکیت ریکی کرنے والے گروہ سے معلومات خرید کر ڈکیتی کے لیے اپنی پلاننگ کرتے ہیں۔ اغواء کار گروہ بھی اسی ریکی گروہ سے معلومات حاصل کرتے ہیں۔ اغواء کار کسی فرد کو اغواء کرنے سے پہلے اس فرد کی مالی حیثیت، سماجی مقام، بااثر افراد سے روابط، اس کی کم زوریاں، بیماری اور مزاحمت کرنے کی طاقت تمام معلومات ریکی گروہ سے خریدتے ہیں۔ بینکوں سے بڑی رقم لے کر نکلنے والے افراد کی بھی ریکی کی جاتی ہے۔ اگر کوئی بڑی رقم لے کر بینک سے نکلے تو پہلے اس کی اطلاع دی جاتی ہے، اطلاع خریدنے والا گروہ فوراً حرکت میں آجاتا ہے اور اس فرد کا پیچھا کرتا ہے۔

اس طرح کے تمام گروہ اپنی ''گروہی سماجیات'' کے مطابق ایک دوسرے کی حدود کا احترام کرتے ہیں لہٰذا اگر ''شکار'' ایک گروہ کی حدود سے نکل جائے تو یہ گروہ فوری طور پر اگلے ''صاحبِ حدود'' کو شکار سے متعلق خریدی معلومات ''ری سیل'' کرتا ہے، اگر شکار اس سے بھی بچ کر نکل جائے تو یہ دوسرا گروہ اگلے یعنی تیسرے گروہ کو فروخت کر دیتا ہے اور علیٰ ہٰذالقیاس۔۔۔ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔

ڈکیت گروہوں کے اصول اور طریقۂ کار:ڈکیت گروہ کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ یہ خواتین کے ساتھ دست درازی نہیں کرتے، اگر کوئی خاتون ان پر حملے کی کوشش بھی کرے تو حتی الامکان اسے ڈراتے دھمکاتے ہیں اور کسی کمرے میں بند کردیتے ہیں۔ ڈکیتی کے دوران ٹیلی ویژن کی آواز کو بلند کر دیتے ہیں۔ ڈکیتی سے پہلے گارڈز کو ضرور بے دست و پا کر دیتے ہیں اور پھر کسی بچے یا نوجوان کو یرغمال بنا کر گھر والوں سے سب کچھ نکلوا لیتے ہیں۔

گھر کے تمام لوگوں سے موبائل فون اور دیگر ذرائع اطلاع چھین کر رابطے منقطع کردیتے ہیں۔ گھر کا کوئی فرد ڈکیتی کے بعد پولیس سے رابطہ کرنے کی کوشش کرے تو اس کا پیچھا کرتے ہیں۔ جان خطرے میں محسوس ہو تو کسی بھی طرح کے اقدام سے دریغ نہیں کرتے۔ بدقسمتی سے ہماری پولیس انتہائی فرسودہ لکیر کی فقیر ہے۔ اول تو کوئی شریف آدمی تھانے کے نام سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے اور اگر کوئی کم نصیب ہمت کر کے کود ہی پڑے تو اسے اتنا زچ کر دیا جاتا ہے کہ وہ اس آتشِ نمرود سے نکل بھاگنے ہی میں عافیت محسوس کرتا ہے۔

اغوا برائے تاوان:اغوا کار بھی عمدہ منصوبہ بندی سے واردات کرتے ہیں۔ ان کے اپنے ٹھکانے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی تاوان ادا نہ کرے اور پولیس کو اطلاع کردے تو اپنا شکار کسی اور گروہ کو فروخت کرکے دام کھرے کرلیتے ہیں۔ خواتین کو شاذ و نادر ہی اغوا کیا جاتا ہے البتہ بچے ان کی پہلی ترجیح ہوتے ہیں۔ یہ گروہ انتہائی منظم ہوتے ہیں۔ پیسے لے کر قتل کرنے والے گروہ الگ ہیں اور یہ انتہائی سفاک ہوتے ہیں، عورت، مرد، بچہ، بوڑھا، کوئی بھی ان کا شکار بن سکتا ہے۔ ان گروہوں کے بھی اصول و ضوابط ہوتے ہیں اور ان کا یہ لوگ بہ ہر حال احترام کرتے ہیں، مثلاً اگر کوئی گروہ مغوی کے وارثوں سے سودے بازی میں ناکام ہو رہا ہے تو وہ کیس مغوی کسی اور گروہ کو فروخت کردیتا ہے۔

مسافروں کو لوٹنے والوں پر ایک نظر:گاڑیوں میں لوٹ مار کرنے والے گروہ بھی مشاقی سے اپنا کام کرتے ہیں۔ ان کے کارندے اکثر موٹرسائیکلوں پر سفر کرتے ہیں، جب ایک ٹیم اپنے شکار پر نکلتی ہے تو دوسری اس کی حفاظت اور مشکل میں پھنس جانے پر اس کی مدد کرتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی گھر جائے تو دفاعی ٹیم ہجوم میں داخل ہوکر اپنے ساتھی کو خود ہی مارنا پیٹنا شروع کردیتی ہے اور اسی ہلے گلے میں اپنے ساتھی کو لے اُڑتی ہے۔ گاڑیوں میں مسافروں کو لوٹنے والا گروہ اکثر تین افراد پر مشتمل ہوتا ہے اور ان کی بھی ایک حفاظتی ٹیم ہوتی ہے۔

یہ جب گاڑی لوٹنے کی غرض سے کسی گاڑی میں مصروفِ کار ہوتے ہیں تو یہ حفاظتی ٹیم موٹر سائیکل پر سوار اس گاڑی کے پیچھے چوکس موجود ہوتی ہے۔ یہ گروہ اپنے بڑے کارنامے اکثر مہینے کی ابتدا میں کرتے ہیں کیوں کہ ان دنوں لوگوں کو تن خواہیں ملتی ہیں۔ یہ موبائل فون، پرس حتیٰ کہ مسافروں کی چھوٹی موٹی اشیاء بھی جھپٹ لیتے ہیں۔ پچھلے دنوں ہمارے ایک شناسا فوٹوگرافر اہلیہ کے ساتھ موٹر سائیکل پر جارہے تھے کہ رہ زنوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ ہمارے دوست نے درخواست کی کہ ان کے دفتر کا کارڈ کم از کم واپس کردیا جائے تو انہیں یقین دلایا گیا کہ وہ انہیں اگلے دن مل جائے گا اور اگلے روز انہوں وعدہ نباہ کر سچ مچ قول کے سچے اور اعلیٰ نسب ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔

بینکوں کے باہر کارروائی:جرائم پیشہ اکثر بینکوں کے باہر موجود ہوتے ہیں، جیسے ہی کوئی بینک سے نکلتا ہے، وہ کسی ایسی جگہ اسے روکتے ہیں، جہاں بھاگ نکلنے کے راستے کشادہ ہوں اور ایک سے زیادہ ہوں تو کیا کہنے۔ ان کی مہارت یہ ہوتی ہے کہ ان کا شکار ''خاصی رازداری کے ساتھ'' پیسے ان کے حوالے کر دیتا ہے۔ موٹرسائیکل سوار اکیلا ہو تو زیادہ سہولت رہتی ہے کیوںکہ یہ ''ذاتِ شریف'' بڑے دوستانہ انداز میں اس کے پیچھے سوار ہو جاتے ہیں، رہ گیر یہ ہی سمجھتے ہیں کہ دو دوست اتفاقاً سر راہے ملے ہیں اور اب خوش گپیاں ہو رہی ہیں۔

اے ٹی ایم مشین کے قریب لوٹ مار: یہ جرائم پیشہ افراد کی اور نوع ہے جو اے ٹی ایم مشین کے نواح میں گھات لگائے رہتی ہے، اگر کسی کے پاس سے اے ٹی ایم کارڈ برآمد ہوجائے تو اسے بوتھ میں دھکیل کر رقم دھروا لیتی ہے۔ یہ گروہ بھی اپنے اصول و ضوابط پر نیک دلی سے عمل پیرا رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی حدود کو ماں بہن کا درجہ دیتے ہیں۔ ملک بھر میں پھیلے ہوئے بڑے بڑے سپر اسٹوروں پر کام کرنے کچھ سیلز مین بھی ان کی مخبری کرتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ اعلیٰ خاندانوں کے بچے بھی یہ کام ایڈونچر کے طور کرتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک نجی جامعہ کے کچھ طلبہ اس نوعیت کی وارداتوں میں ملوث ہونے پر گرفتار کیے گئے تھے۔

منشیات فروش گروہ:یہ جرائم پیشہ افراد انتہائی منظّم ہیں۔ اتنے منظّم کہ آپ کی سوچ بھی نہیں پہنچ سکتی۔ وہ ایسے راستوں سے واقف ہوتے ہیں جہاں جانے کا آپ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اکثر قبرستان ان کی پناہ گاہیں ہوتی ہیں۔ چرس، گانجا، افیون، شراب اور دیگر منشیات کا اسٹاک بھی قبرستانوں میں چھپایا اور ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ آپ کو ایک قبر نظر آئے گی۔ اس پر کتبہ بھی نصب ہوگا۔ اس کے اردگرد چار دیواری بھی ہوگی، لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قبر کی آڑ میں منشیات کا ذخیرہ ہو۔ پختہ قبر کے کچھ ہی فاصلے پر ایک اور کچی قبر بنائی جاتی ہے اور اس پختہ قبر تک سرنگ بناکر منشیات اس میں چھپادی جاتی ہیں، وہاں سے جتنی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے نکال لی جاتی ہے، اور نیا مال رکھ دیا جاتا ہے۔

اس کے لیے رات کے آخری پہر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس وقت تک ناکہ لگائے ہوئے پولیس اہلکار نیم خوابی کی حالت میں نڈھال ہوجاتے ہیں۔ بس یہی وقت ان کے لیے سنہرا وقت ہوتا ہے۔ منشیات فروش اپنے مکروہ کاروبار کے لیے تعلیمی اداروں کا رخ بھی کرتے ہیں۔ ان کا اصل ہدف اپر کلاس کے لڑکے اور لڑکیاں ہوتی ہیں۔ کچھ پڑھی لکھی لڑکیوں کو وہ پرائیویٹ کالجز اور یونیورسٹیوں میں داخلہ دلادیتے ہیں، جوں اس تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کی آڑ میں ان کا مذموم دھندا کر رہے ہوتے ہیں۔ ان منظّم گروہوں کے واقف کار اور تعلقات اعلیٰ سطح تک ہوتے ہیں۔

وہ ان تمام بااثرافراد کو ان کا حصہ باقاعدگی سے پہنچاتے ہیں اور ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں۔ بعض میڈیکل اسٹور بھی ان کے مراکز ہوتے ہیں، جہاں یہ لوگ منشیات فروخت کرتے ہیں۔ بظاہر دوائیں فروخت کرنے والا منشیات فروش ہوسکتا ہے۔ اس طرح پان کے کھوکھے اور کیبن بھی ان کی منشیات فروخت کرنے میں مدد فراہم کرتے اور اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ بعض بڑے گھرانوں میں یہ لوگ ڈرائیور، خانساماں، مالی اور ماسیاں بھی رکھواتے اور ان کے ذریعے اپنا دھندا کرتے ہیں۔

گاڑیاں چھیننے والے:گاڑی میں حفاظتی ٹریکر کو ناکارہ بنانا اتنا آسان کام نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہر ٹریکر والی گاڑی کمپنی کے GBRS سسٹم سے منسلک ہوتی ہے۔ GBRS سسٹم کمپنی کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ گاڑی کہاں کہاں سفر کر رہی ہے، کمپنی اس سے آگاہ ہوتی ہے۔ ٹریکر والی گاڑی کے مالک پر یہ پابندی ہوتی ہے کہ وہ اگر شہر کی حدود سے باہر جائے تو کمپنی کو اطلاع دے کر جائے، اور اس اطلاع کی کمپنی کا پن کوڈ پوچھ کر تصدیق کی جاتی ہے، لیکن آپ مزید حیران ہوں گے کہ یہ گروہ گاڑی کو کمپنی کے ٹریکنگ سسٹم سے بھی باہر نکال لیتا ہے۔

اس کے لیے یہ جرائم پیشہ عناصر کمپیوٹر سسٹم کے ماہرین کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور ان کمپیوٹر ماہرین کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ مطلوبہ گاڑی کو کمپنی کے سسٹم سے باہر نکال دیں اور وہ اس کام کا بہت زیادہ معاوضہ لیتے ہیں۔ گاڑیوں کو چرانے کا ایک گروہ اپنے ساتھ گاڑی کا ایگزینشنررکھتا ہے، جو بازار میں 300 روپے میں دستیاب ہے، گاڑی کا دروازہ کھولتے ہی وہ گاڑی کو اسٹارٹ کرنے کے لیے بیٹری سے منسلک تاروں کو کاٹ کر اپنے ایگزینشن کے ساتھ منسلک کردیتا ہے اور اس طرح وہ گاڑی کو لے اڑتے ہیں۔

جرائم، شادی بیاہ کے دفاتر کی آڑ میں: کچھ جرائم پیشہ افراد شا دی دفتر کھو ل کر لوٹ مار کا دھندا کر رہے ہیں ۔ ہمارے سماج میں اچھے برے کی پہچان انتہائی مشکل ہوگئی ہے۔ معصوم انسانوں کی اس کم زوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ شاطروں نے شادی دفتر کھول لیے ہیں۔ ایسے شادی دفاتر میں کچھ خوب صورت لڑکیاں رکھ لی جاتی ہیں۔ سادہ لوح افراد سے پہلے فیس کے نام پر بھاری رقوم وصول کی جاتی ہیں، اس بہانے اس کے سماجی مقام، مال و دولت، کاروبار، جائیداد کی تفصیل معلوم کی جاتی ہے اور اکثر یہ معلومات فروخت کردی جاتی ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شادی دفتر کی ملازم لڑکی کا رشتہ طے کرادیا جاتا اور جائیداد، رقوم وغیرہ کی سرکاری دستاویزات بھی بنائی جاتی ہیں، کچھ عرصے کے بعد وہ لڑکی نہ رہنے کا بہانہ بناکر علیحدگی اختیار کرلیتی ہے۔ اس طرح کے درجنوں واقعات اخبارات کی زینت بن چکے ہیں۔

ہر مافیا کا باپ، بھتا مافیا:بھتا مافیا کی بات کرنا تو اب وقت کا ضیاع ہے۔ سب ہی جانتے ہیں کہ اس شہر میں بھتا مافیا نے کتنے مضبوط پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ شہری اور خاص کر تاجر حضرات سراپا احتجاج ہیں، حال ہی میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی تو نیا انکشاف ہوا کہ اب اس طرح کے کاروباری حضرات کی یونین اپنے ممبران سے خود بھتا وصول کرکے ان گروہوں تک پہنچاتی ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں جہاں تاجروں کے گودام ہیں ان پر بھی بھتا مافیا کے کارندے قابض ہیں، آپ جتنی مرتبہ بھی گودام سے سامان نکالیں، اتنا ہی بھتا دینا پڑتا ہے۔ اب تو بڑے رہائشی علاقوں میں خاص کر فلیٹوں میں یہ لوگ اپنی یونین بناکر بھتا وصول کر رہے ہیں۔ اس طرح کے دو خطوط بی بی سی نے حال ہی میں شائع بھی کیے ہیں، جن میں اس طرح کے مُنظّم جرائم پیشہ گروہ جو فلیٹوں میں یونین بناکر بھتا وصول کر رہے ہیں۔

میوزک اور آرٹ اکیڈمیز:میوزک اکیڈمی اور کلچرل سینٹر کی آڑ میں بھی جرائم پیشہ افراد قابض ہیں، جہاں لڑکیوں کو ماڈل بناکر مستقبل کے سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں اور پھر ان لڑکیوں کی نازیبا فلمیں اور فوٹو بناکر اپنے مذموم مقاصد میں استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ کسی خوب صورت اور پڑھی لکھی لڑکی کو کسی دفتر میں آفس سیکریٹری، کسی ذمے دار عہدے پر تعینات کرواکر کمپنی کے مالک سے راہ و رسم بڑھانے کا کام سونپ دیتے ہیں، پھر وہ لڑکی ان صاحب سے قربت پیدا کرکے تصاویر و دیگر ذرائع سے فلمیں بناکر مستقل بلیک میل کرنے لگتی ہے۔

مختلف روپ دھارے یہ جرائم پیشہ عناصر لوگوں کے مال اور عزت وآبرو کو ہدف بنائے ہوئے ہیں،زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں رہا جو جرائم پیشہ افراد کی دسترس سے محفوظ ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں