انتخابی اصلاحاتچند تجاویز
پاکستان میں آج تک کسی بھی پارلیمان نے انتخابی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے پر توجہ نہیں دی
24 ویں آئینی ترمیم جس پر پارلیمان کے اراکین کی اکثریت نے اتفاق کیا، جو سیاسی جماعتوں میں تیزی سے پروان چڑھتی سیاسی بلوغت کی علامت ہے، اس آئینی ترمیم کے بموجب مردم شماری کے عبوری نتائج کی بنیاد پر انتخابی حلقوں کی نئی حد بندیاں ممکن ہوسکیں گی جس کے نتیجے میں عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے بارے ممکنہ تمام خدشات دم توڑ گئے ہیں۔
یہ بات بھی خوش آیند ہے کہ سیاسی جماعتیں اقتدار کی جمہوری طریقے سے منتقلی پر متفق ہیں، گو کہ تحریک انصاف اسمبلیوں کی قبل از وقت تحلیل اور نئے انتخابات وقت مقررہ سے پہلے کرانے کے لیے مصر ہے، لیکن مشترکہ مفادات کی کونسل میں خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ نے انتخابات کے وقت مقررہ پر انعقاد کے اصولی موقف سے اتفاق کیا ہے۔
طویل بحث وتمحیص کے بعد قومی اسمبلی نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ آیندہ انتخابات کے لیے قومی اسمبلی کی براہ راست انتخابات والی نشستوں کی کل تعداد حسب سابق 272 ہی رہے گی۔ البتہ پنجاب کی9 نشستیں کم کرکے خیبر پختونخوا (5) ، بلوچستان (3) اور اسلام آباد (1) کے لیے نشستوں میں اضافہ کردیا جائے گا۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہو رہا ہے کہ قومی اسمبلی کی نشستوں کا فیصلہ تو کرلیا گیا، لیکن صوبائی اسمبلیوں کے حوالے سے کوئی پالیسی سامنے نہیں آئی ہے۔ کیونکہ پنجاب سے قومی اسمبلی کی 9 نشستیں کم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ صوبائی اسمبلی کی18 یا 19نشستیں کم ہوجائیں گی۔ اسی طرح جن صوبوں میں قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ ہوا ہے، وہاں صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوگا ، مگر اس بارے میں ابھی تک کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے۔
گزشتہ ماہ اپنے اظہاریے میں اس موضوع پر گفتگو کی تھی کہ قومی اسمبلی کے لیے272 نشستیں1998 کی مردم شماری کے نتیجے میں متعین کی گئی تھیں۔ جب ملک کی آبادی ساڑھے 13 کروڑ تھی۔ اس وقت بھی یہ سوال اٹھا تھا کہ قومی اور صوبائی حلقوں کی جسامت (Size) عالمی معیار سے زیادہ ہے۔ اب جب کہ آبادی 20 کروڑ سے تجاوز کر رہی ہے، حلقوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہونے کا مطلب انتخابی حلقوں کے حجم میں مزید اضافہ ہے، جوکہ عوام کے حق نمایندگی کے ساتھ زیادتی ہے۔ ہم نے پچھلے اظہاریے میں مختلف حلقوں میں ووٹروں کی تعداد میں عدم توازن پر بھی گفتگو کی تھی ۔کیونکہ کئی حلقوں کے درمیان دوگنے اور تگنے کا فرق دیکھنے میں آیا تھا۔ جس کی وجہ سے ووٹ کی برابری(Equality of vote)کا تصور مجروح ہو رہا ہے ، مگراس پہلو کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
اس وقت حلقہ بندیوں کے معاملے پر تفصیلی گفتگو کرنے کے بجائے پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کی پیش کردہ سفارشات پر گفتگو ضروری ہے، جنھیں پارلیمان منظور کرچکی ہے کیونکہ اس مسودے میں کئی کلیدی نوعیت کے اسقام اور خامیاں پائی جاتی ہیں ، مگر ان سے صرف نظرکرتے ہوئے چند مذہبی جماعتوں نے دانستہ یا سہواً اراکین پارلیمان کے حلف نامہ میں ہو جانے والی بعض غلطیوں کو بنیاد بناکر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ پہلے بھی یہ ہوتا رہا ہے کہ نان ایشیوز کو جذباتی انداز میں پیش کرکے اصل ایشوز سے لوگوں کی توجہ ہٹا دی جاتی ہے۔
اس سے پہلے بھی کئی بار لکھا ہے کہ پاکستان میں انتخابی نظام انتہائی ناقص اور فرسودہ ہے۔ جس کی وجہ سے 1977سے2013تک ہر انتخابات متنازع رہے ہیں، مگر کسی بھی پارلیمان نے انتخابی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے اصلاحات لانے پر کبھی کوئی توجہ نہیں دی۔ایسی اصلاحات جو انتخابی عمل کو ہموار یعنی Smooth بنانے کے ساتھ عوام کے تمام طبقات کے لیے قابل قبول ہوں ۔
ہر متوشش شہری یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ اچھی حکمرانی جمہوری عمل کے تسلسل سے مشروط ہوتی ہے، جب کہ جمہوری عمل کے تسلسل کا انحصار شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابی عمل پر ہوتا ہے۔ انتخابی عمل میں نقائص اورخامیوں کی نشاندہی مختلف اوقات میں مختلف حلقے کرتے رہے ہیں، لیکن 2013 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں پر سپریم کورٹ میں پٹیشن دائرکی گئی ۔ جس کا فیصلہ تین رکنی بنچ (چیف جسٹس ناصرالملک ، جسٹس امیر مسلم ہانی اور جسٹس اعجاز افضل خان پر مشتمل) نے دیا۔ اس فیصلے میں فاضل بنچ نے انتخابی نظام میںانہی خامیوں اور نقائص کی نشاندہی کی، جو سول سوسائٹی تسلسل کے ساتھ کرتی چلی آرہی تھی۔
فیصلہ میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام رہا۔ انتخابی میکنزم کی تیاری پیشہ ورانہ مہارت سے نہیں کی گئی۔ پولنگ اسٹیشنوں کی پہلے سے کوئی مستقل فہرست نہ ہونے کی وجہ سے ان کے فوری قیام کی ذمے داری ریٹرننگ افسران کے کاندھوں پر آگئی۔ اختیاری قوانین کا غیر واضح ہونا بھی ہموار انتخابی عمل میں رکاوٹ بنا، لیکن سب سے اہم مسئلہ نتائج جمع کرنے کے نظام (Result Managment System)کاغیر واضح اور مبہم ہونا ہے، جس کی وجہ سے نتائج شکوک وشبہات کا شکارہوتے ہیں، مگر اس پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔
اقوام متحدہ کا ترقیاتی ادارہUNDPاور مختلف سماجی تنظیمیں انتخابی عمل میں پائے جانے والے نقائص کی مسلسل نشاندہی کرتے ہوئے ان میں بہتری کی تجاویز پیش کرتی رہی ہیں ۔ عوامی خواہشات کے مطابق شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے دو مدارج ضروری ہوتے ہیں ۔ اول، ایک باصلاحیت، غیر جانبداراور با اختیار الیکشن کمیشن، جسے آئین کی پشت پناہی حاصل ہو ۔ دوئم، ووٹ کی برابری (Equality of Vote)کی بنیاد پر کی گئی انتخابی حلقہ بندیاں اور اسمبلیوں میں نشستوں کی مناسب تعداد ۔
یہاں اس ابہام کو ختم کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ الیکشن کمیشن اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ ججوںپر مشتمل ہو، کیونکہ انتخابات کا عمل خالصتاً ایک انتظامی ذمے داری ہے، جو باصلاحیت منتظم یا منتظمین کی ٹیم ہی سرانجام دے سکتی ہے ۔ بھارت سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں الیکشن کمیشن اچھی شہرت کے حامل بیوروکریٹس پر مشتمل ہوتا ہے، جو زیادہ احسن طریقے سے اس سرگرمی کو سرانجام دیتے ہیں ۔ بھارت میں تقسیم ہند سے آج تک معمولی نوعیت کی شکایات کے سوا کوئی بڑی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ اس لیے الیکشن کمیشن کی تشکیل کے لیے سینئر بیوروکریٹس اور ججوں پر مشتمل کمیشن ترتیب دیا جاسکتا ہے۔
اس سلسلے میںUNDPکی تجاویز پر غور کرنا ضروری ہے۔ ان میں سب سے اہم تجویز یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو خوف سے آزاد قیادت کے ذریعے بااختیار بنایا جائے۔ان لوگوں کو شمار کیا جائے، جو ووٹ دیتے ہیں۔ نادرا کوپابندکیا جائے کہ 18برس کی عمر تک پہنچنے والوں کے کوائف ہر سال الیکشن کمیشن کو مہیا کرتا رہے، تاکہ الیکشن کمیشن انتخابات سے قبل ان افراد کو انتخابی فہرست میں شامل کرنے کا سلسلہ بنا سکے ۔ پولنگ اسکیم مستقل بنیادوں پر تیار کی جائے۔ ہر علاقے میں پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کی فہرست الیکشن کمیشن کے پاس ہونی چاہیے، جب کہ ہر حلقے میں تعمیر ہونے والے نئے اسکولوں کے بارے میں معلومات بھی مہیا کی جانی چاہئیں۔ نتائج کو انھیں پولنگ اسٹیشنوں سے جاری کرنے کا واضح میکنزم تیار کرنے کی ضرورت ہے، جو مکمل شفافیت پر مبنی ہونا چاہیے۔
دوسرے مرحلے میں پارلیمان کی ذمے داری ہے کہ وہ آئینی ترمیم کے ذریعے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کی جسامت کو کم کرے ۔ ووٹ کی برابری کے اصول کی خاطر ہردو حلقوں کے درمیان 10سے15 ہزار سے زیادہ فرق نہیں ہونا چاہیے۔آبادی کے لحاظ سے قومی اسمبلی کو کم از کم 800 اراکین پر مشتمل ہونا چاہیے ۔ ان میں 400 اراکین براہ راست انتخابات کے ذریعے منتخب کیے جائیں، جب کہ بقیہ چار سو پارٹی لسٹ کے مطابق متناسب نمایندگی کی بنیاد پر منتخب ہوں۔ یہ نشستیں خواتین، محنت کشوں، پروفیشنلزاور کاروباری حلقوں کے لیے مختص کی جائیں۔اس طرح قومی اسمبلی کا براہ راست انتخاب والا ایک حلقہ لگ بھگ5 لاکھ آبادی پر مشتمل ہوگا، جب کہ صوبائی اسمبلی کا ایک حلقہ 2 لاکھ50ہزار آبادی پر مشتمل ہوگا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت پارلیمان نے جو فیصلہ کیا ہے، وہ معروضی حالات میں درست ہے، کیونکہ بعض غیر سیاسی قوتیں سیاسی عمل کے تسلسل کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں ڈال رہی ہیں ۔ جس کی وجہ سے جمہوری عمل کو خطرات لاحق ہیں، لیکن درج بالا تجاویز پر پیش رفت بھی اہمیت کی حامل اور جمہوری عمل کے تسلسل کے لیے ضروری ہے ۔اس لیے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اگر 2018کے عام انتخابات میں ان تجاویز پر مکمل طور پر عمل نہیں ہوسکتا، تو کم از کم کچھ نکات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی کوشش ضرور کی جائے، تاکہ جمہوریت اور جمہوری عمل کے استحکام کی جانب سیڑھی بہ سیڑھی بڑھا جاسکے۔