بند راستے

ہمارے عمل سے کہاں کہاں راستے بند ہوتے ہیں یا گزرنے والوں کو پریشانی ہوتی ہے۔


Dr Naveed Iqbal Ansari November 24, 2017
[email protected]

ہر انسان کو اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے مختلف راستوں سے گزرنا پڑتا ہے، راستہ اگر بند ہو تو منزل پر پہنچنا بھی ممکن نہیں رہتا۔ بھارت کے ایک مضافاتی علاقے میں ایک شخص کی شریک حیات سخت بیمار ہوئی اور زندگی بچانے کے لیے شوہر کو اسپتال تک پہنچنے کے لیے ایک طویل راستہ اختیار کرنا پڑا، کیونکہ گھر سے اسپتال کے راستے میں ایک پہاڑی حائل تھی اور ایک طویل چکر کاٹ کر اسپتال تک پہنچنا پڑتا تھا لہٰذا اس شخص کی بیوی اسپتال پہنچنے سے قبل ہی ہلاک ہوگئی۔

یہ شخص اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا تھا، اس کے انتقال پر اس نے سوچا کہ اگر راستے میں حائل پہاڑی کے درمیان سے کوئی راستہ بنادیا جائے تو گاؤں کے لوگوں کو بروقت اسپتال تک پہنچنا ممکن ہوسکے گا اور کئی قیمتی جانیں بچائی جاسکیں گی۔ یہ خیال آتے ہی اس شخص نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک ہتھوڑی اور چھینی لے کر پہاڑی کا رخ کیا اور روزانہ تھوڑا تھوڑا کرکے پہاڑی کو کاٹنا شروع کردیا اور ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب پہاڑی کے درمیان سے پورا راستہ نکل چکا تھا اور یوں گاؤں والوں کو اسپتال تک پہنچنے کے لیے ایک مختصر راستہ مل گیا۔

بات یہ ہے کہ عقلمند لوگ اپنی منزل کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو اسی طرح دور کرتے ہیں، انسانی ایجادات مثلاً گاڑیاں، ریل اور ہوائی جہاز وغیرہ کا مقصد منزل تک کم سے کم وقت میں پہنچنا ہی تھا۔ یہ بات سیدھی سی ہے اور اسی میں ترقی کا راز بھی پوشیدہ ہے، مگر افسوس کہ ہم میں سے اکثر لوگ اس حقیقت سے آشنا ہونے کے باوجود الٹا عمل کرتے ہیں اور اپنے راستے میں خود ہی رکاوٹیں ڈال لیتے ہیں۔ یوں کوئی دفتر، اسکول وقت پر پہنچ نہیں پاتا، کوئی ریلوے اسٹیشن اور ائیرپورٹ نہیں پہنچ پاتا اور حد تو یہ ہے کہ کوئی ایمرجنسی میں اسپتال بھی پہنچ نہیں پاتا۔

غور کریں تو راستوں میں یہ رکاوٹیں کئی قسم کی ہیں اور ان رکاوٹوں کے ذمے دار بھی کئی اقسام کے ہیں، جن میں ایک عام ان پڑھ شخص سے لے کر ہمارے پڑھے لکھے رہنما تک شامل ہیں۔ بڑی بڑی شاہراہیں ہوں یا محلے کے بازار، ہر جگہ کوئی اپنی دکان آگے بڑھا کر، کوئی تخت یا کیبن یا ٹھیلہ لگا کر آدھی سڑک بند کردیتا ہے، تو کوئی اپنی گاڑی غلط کھڑی کرکے راستے بند کردیتا ہے، جس سے آنے جانے والوں کو سخت پریشانی ہوتی ہے اور اکثر ٹریفک بھی جام ہوجاتا ہے۔

ایسے لوگوں کی تربیت کے لیے ضروری تھا کہ انھیں اس غلط عمل سے روکنے کے لیے کوئی رہنما اپنا کردار ادا کرتا مگر افسوس عموماً ہمارے رہنما بھی خود اس جرم کا ارتکاب کرتے نظر آتے ہیں۔ جلسے جلوس ہوں یا کوئی احتجاج وغیرہ، زیادہ تر جماعتوں کا طریقہ کار یہی ہے کہ وہ شہر کی مصروف ترین شاہراہوں پر اس طرح جلوہ گر ہوتے ہیں کہ شہر کا تمام ہی ٹریفک درہم برہم ہوجاتا ہے۔

عموماً جان بوجھ کر شاہراہیں بند کردی جاتی ہیں اور جو چھوٹے موٹے متبادل راستے بچتے ہیں انھیں انتظامیہ سیکیورٹی کے نام پر بند کردیتی ہے۔ یوں مسافروں اور مریضوں کو اس عمل سے سب سے زیادہ پریشانی ہوتی ہے، مریض ایمبولینس میں انتقال بھی کرجاتے ہیں مگر افسوس، کسی کو افسوس بھی نہیں ہوتا۔ ہمارے ایک عزیز کی ٹرین چھوٹ گئی اور پھر انھیں بذریعہ بس پنڈی سے لاہور جانا پڑا، محض اس وجہ سے کہ اسٹیشن تک کا بیس منٹ کا راستہ ایک گھنٹے میں طے ہوا۔

بات یہ ہے کہ ہم آخر راستے کیوں بند کرتے ہیں؟ کیا ہم سڑک کی حدود چھوڑ کر ٹھیلہ وغیرہ لگا کر اپنا کاروبار نہیں کرسکتے؟ آخر بیچ سڑک ہی کیوں ٹھیلہ لگاتے ہیں، گاڑی پارک کرتے ہیں، آخر کیوں ہمارے رہنما پوری سڑک پر ہی قبضہ کرکے جلسے جلوس کرتے ہیں، دھرنے کے لیے مصروف چوراہے ہی کو کیوں منتخب کرتے ہیں؟ کیا ہمارے رہنما اپنے جلسے جلوس اور دھرنے وغیرہ شہر کی مصروف شاہراہوں کو چھوڑ کر کہیں اور نہیں کرسکتے؟

ہم نے اپنے ماضی کے ایک کالم میں اس موضوع پر لکھتے ہوئے یہ تجویز دی تھی کہ اگر کسی جماعت نے مظاہرہ بھی کرنا ہے اور عین مصروف شاہراہ اور مرکز شہر میں ہی کرنا ان کی کوئی مجبوری ہے تو پھر انھیں چاہیے کہ صرف ایک قطار بنا کر چلیں تاکہ باقی سڑک کی دو تین رو پر ٹریفک بھی چلتا رہے اور راستے بھی بند نہ ہوں۔ مگر شاید کسی تک ہماری تجویز نہیں پہنچی، یا پھر ان کا ذہن عوام کو پریشانی سے بچانے کے لیے غور و فکر نہیں کرتا، ورنہ اب تک ان دھرنوں، جلسے جلوسوں سے عوام کو پہنچنے والی تکلیف سے نجات کے لیے یہ جماعتیں کچھ نہ کچھ ضرور کرتیں۔

حال ہی میں راولپنڈی کے شہر میں ایک مصروف شاہراہ پر پھر دھرنا دیا گیا اور اس کے بعد ان سے یکجہتی کے لیے کراچی کی ایک مصروف ترین چورنگی پر بھی دھرنا دے دیا گیا۔ دھرنا دین اسلام سے محبت کے نام پر دیا گیا، ہمیں بھی اسلام سے بہت محبت ہے اور ہم ان دھرنا دینے والوں سے بھی بہت محبت کرتے ہیں مگر ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں ہم اور ہمارے جیسے ہزاروں شہری اس دھرنے سے پریشان ہوئے کہ ہمارے راستے ہی بند ہوگئے اور منٹوں کا سفر گھنٹوں میں بدل گیا۔

ہمیں کسی سیاسی مذہبی جماعت سے نفرت نہیں، مگر ہمارا سوال ان تمام جماعتوں سے ہے (جو کسی بھی مسئلے پر سڑکوں پر آکر راستے بند کردیتے ہیں) کہ ہم عوام کا کیا قصور ہے؟ ہم تو آپ ہی کو ووٹ دیتے ہیں، پھر آپ ہمیں ہی کیوں پریشان کرتے ہیں؟

دھرنوں کے اس کلچر سے قبل ایک کلچر ہڑتالوں کا تھا، کراچی شہر میں تو آئے دن ہی ہڑتال ہوا کرتی تھی۔ ہڑتال میں بھی راستے بند کردیے جاتے تھے اور حد تو یہ ہے کہ پٹرول پمپ اور میڈیکل اسٹور تک بند ہوتے تھے۔ یوں کسی کو ایمرجنسی میں اسپتال وغیرہ جانا ہو یا کسی کو دواؤں کی ضرورت ہو، سب کے سب ہڑتال ختم ہونے تک اپنے اپنے گھروں میں قیدی بن جاتے تھے۔ یوں جن شہریوں کے حقوق کے نام پر ہڑتال ہوتی تھی وہی سب سے زیادہ پریشانی کا شکار ہوتے تھے۔

دیکھا جائے تو اب احتجاج اور جلسے جلوسوں کے نام پر راستے بند کرنا اور انتظامیہ کی جانب سے سیکیورٹی کے نام پر مزید راستے بند کرنا، آج ایک عام سی بات بن گئی ہے، سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذہبی جماعتوں اور گروہوں کی جانب سے بھی یہ سلسلہ جاری ہے، بہت سے لوگ مذہبی جماعتوں کی جانب سے اس قسم کے عمل پر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا ہمارا دین شہریوں کو اس طرح سے پریشان کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ کیا احتجاج کے لیے متبادل جگہ یا ذرایع استعمال نہیں کیے جاسکتے؟ یہ سوال بڑا اہم ہے اور اس پر غور کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ اس سے مذہبی جماعتوں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔

یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس پر تمام جماعتوں خصوصاً مذہبی جماعتوں کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔ راقم نے مندرجہ بالا گزارشات نہایت نیک نیتی سے پیش کی ہیں، اس امید کے ساتھ کہ ہم سب اس پر غور کریں گے کہ ہمارے عمل سے کہاں کہاں راستے بند ہوتے ہیں یا گزرنے والوں کو پریشانی ہوتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔