بلوچستان کا بحران

2008ء میں سردار اسلم رئیسانی کی حکومت نے اپنی نااہلی کی بناء پر حالات کو مزید خراب کیا


Dr Tauseef Ahmed Khan November 25, 2017
[email protected]

صدی کا سترہواں سال اگلے ماہ اختتام پذیر ہوجائے گا، مگر رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ بلوچستان کا بحران مسلسل برقرار ہے۔ ایرانی سرحد سے متصل علاقوں میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 20 افراد کی ہلاکت، کوئٹہ میں صرف نومبر کے مہینے میں دو پولیس افسروں کی شہادت اوربلوچستان میں اخبارات پر عائد پابندیوں سے بحران کے مسلسل جاری ہونے کا اظہار ہوتا ہے۔ بلوچستان ایک طرف طالبان اور مذہبی انتہاپسندوں کی دہشتگردی کی زد میں ہے تو دوسری طرف طالب علم رہنما ڈاکٹر اﷲ نذر اور ان کے ساتھی گوریلا جنگ کے ذریعے بلوچستان کو آزاد کرا کے بلوچوں کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے دور میں میجر جنرل (ر) نصیر اﷲ بابر نے طالبان کو منظم کرنے کا خیال پیش کیا تو ملا عمر طالبان کے سربراہ مقرر ہوئے۔ ملا عمرکا تعلق بلوچستان سے متصل افغانستان کے صوبے قندھار سے تھا۔ ان کے قبیلے کے لوگ پاکستان اور افغانستان میں آباد ہیں، یوں طالبان نے افغانستان کے پشتون علاقے میں جڑیں پکڑیں۔ امریکا اور اتحادی افواج نے فوجی کارروائی میں کابل میں طالبان حکومت کا خاتمہ کیا تو طالبان مزاحمتی تحریک کوئٹہ اور اس سے متصل پشتون علاقوں میں منتقل ہوگئی۔ ان مذہبی انتہاپسندوں نے کوئٹہ میں آباد ہزارہ برادری کو نشانہ بنانا شروع کیا، کوئٹہ خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کا مرکز بن گیا۔ جب نواب اکبر بگٹی کو ایک غار میں نشانہ بنایا گیا تو پورے بلوچستان میں شدید ردعمل سامنے آیا۔ نواب اکبر بگٹی پاکستان کے حامی تھی اور وہ بلوچستان کے حقوق کے لیے جدوجہدکر رہے تھے مگر اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد بلوچ قبائل کا عظیم جرگہ ہوا۔

اس جرگہ کو خان آف قلات نے طلب کیا۔ یہ جرگہ 100 سال بعد منعقد ہوا اورتمام قبائلی سرداروں نے اس میں شرکت کی۔اس جرگے میں بلوچستان کی خودمختاری کا مطالبہ کیا گیا۔ پرویز مشرف حکومت نے اس جرگے کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا اور ان رہنماؤں سے کسی بھی نوعیت کے مذاکرات نہیں کیے۔ اس دوران بعض نوجوانوں نے بندوقیں اٹھالیں اور دیگر صوبوں سے آکر آباد ہونے والے اساتذہ، ڈاکٹروں، صحافیوں، وکلا اور خواتین کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوگئی اور سیاسی کارکنوں کے اغواء اور ان کی مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

2008ء میں سردار اسلم رئیسانی کی حکومت نے اپنی نااہلی کی بناء پر حالات کو مزید خراب کیا۔ سابق صدر آصف زرداری نے بلوچستان پیکیج کا اجراء کیا۔ قومی اسمبلی نے بلوچستان کی زیادتیوں پر معذرت کی قرارداد منظور کی۔ مری قبیلے کے کچھ لاپتہ افراد اپنے گھروں کو پہنچے مگر مجموعی طور پر صورتحال خراب ہوتی چلی گئی۔ کہا جانے لگا کہ ریاستی حکومت کی رٹ کوئٹہ تک محدود ہے۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کی نسل کشی، اغواء برائے تاوان کی وارداتوں اور بلوچ سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشوں نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا۔ 2013ء میں انتخابات ہوئے۔ بلوچ جنگجو گروپوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور منتخب اراکین بہت کم ووٹوں سے منتخب ہوئے۔ نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر مالک وزیر اعلیٰ بنے۔

ڈاکٹر مالک کا تعلق تربت کے درمیانے طبقے کے خاندان سے ہے۔ ڈاکٹر مالک نے اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کے تدارک، مذہبی انتہاپسند گروہوں کے خلاف کارروائی اور جلاوطن بلوچ رہنماؤں کو ملک میںبلانے کے لیے مذاکرات کی حکمت عملی اپنائی۔ خضدار کے علاقے میں سرگرم شفیق مینگل کے گروہ کی سرگرمیوں کی معطلی کی خبریں بھی شایع ہوئیں مگر ڈاکٹر مالک کی بلوچ منحرف رہنماؤں سے مذاکرات کی کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ ڈاکٹر مالک نے لندن میں خان آف قلات سے مذاکرات کیے۔ وہ کراچی پریس کلب آئے اور بی ایس او کے سربراہ کی بازیابی کے لیے ایک بلوچ نوجوان کو تادم مرگ بھوک ہڑتال ختم کرنے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی مگر ان کے پاس خالی وعدے کے علاوہ کچھ نہ تھا، یوں وہ ناکام واپس گئے۔

مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت نے سی پیک منصوبوں کا آغاز کیا۔ اخبارات میں یہ خبریں بھی شایع ہوئیں کہ گوادر پورٹ اور دیگر تعمیراتی منصوبوں میں بلوچوں کو ملازمتیں نہیں مل رہیں۔ نئے وزیر اعلیٰ ثناء اﷲ زہری کو جلاوطن بلوچ رہنماؤں اور جنگجو نوجوانوں سے مذاکرات کی اجازت نہیں ملی، بلوچستان میں حالات خراب ہوتے چلے گئے۔ وفاقی حکومت کا مؤقف ہے کہ سی پیک منصوبے کو سبوتاژکرنے کے لیے بھارت کی خفیہ ایجنسی را اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ افغانستان کی خفیہ ایجنسی اور امریکی سی آئی اے بھی اس مسئلے پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں مگر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن بلوچوں کے اقلیت میں تبدیل ہونے، بلوچستان کے وسائل کا استحصال اور منحرف کارکنوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک برتنے کی شکایات کرتے ہیں۔

یہ شکایات کرنے والوں میں وہ سیاسی کارکن اور دانشور بھی شامل ہیں جو بندوق کے ذریعے آزادی کو اس مسئلے کا حل سمجھتے ہیں اور وہ سیاسی کارکن اور دانشور بھی جو اب بھی سمجھتے ہیں کہ 1973ء کے آئین کے تحت پرامن جدوجہد کرکے ہی بلوچوںکے حقوق حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ صورتحال اتنی خراب ہے کہ حکومت نے کالعدم تنظیموں کی خبروں کی اشاعت پر پابندی لگا دی ہے۔ قومی ٹی وی چینلز بلوچستان کی صورتحال کو سنجیدگی سے کور نہیں کرتے۔ ان تنظیموں نے اپنے الٹی میٹم کی میعاد پوری ہونے پر اخبارات کی سرکولیشن کو روک دیا ہے۔

صحافیوں کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے بیانات بی بی سی اور وائس آف امریکا سے نشر ہوتے ہیں، سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل ہو جاتے ہیں مگر حکومت نے پریس ایڈوائس کے ذریعے خبروں کو کنٹرول کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اب بعض اخبارات کے اشتہارات بھی بند کر دیے گئے ہیں اور کچھ اخبارات کے ایڈیٹروں کو دھمکی دی گئی ہے کہ ان کے ڈیکلریشن منسوخ کردیے جائیں گے۔ بلوچستان کے حالات کا تجزیہ کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ بلوچ قوم پرستوں سے مذاکرات کر کے ہی اس مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ اس مؤقف کی زبردست حمایت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ منحرف گروہوں کو ہتھیار پھینک کر مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے مگر بدقسمتی سے مقتدرہ اور متحارب گروہ مذاکرات کے لیے تیار نہیں۔ بلوچستان کے حقوق کی جدوجہد کی تاریخ 70 سال سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ اس جدوجہد میں ہتھیاروں کے ذریعے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد بھی شامل ہے اور معروف رہنما غوث بخش بزنجو کے فلسفے کے تحت پرامن سیاسی جدوجہد بھی شامل ہے۔

تاریخ سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ بڑی طاقتیں اس وقت ہتھیار فراہم کرتی ہیں جب تک ان کے مقاصد پورے نہیں ہوتے، مقاصد حاصل کرنے کے بعد جدوجہد کرنے والوںکو تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ میر غوث بخش بزنجو کے فلسفے پر عمل کر کے ہی بلوچوں کے حقوق کا تحفظ ہو سکتا ہے۔ بھات کے آئین میں کشمیر کے بارے میں شق 370 کی طرح، پاکستان کے آئین میں بھی ایک ترمیم کے ذریعے بلوچستان کی خودمختاری کے تصور کو حقیقی شکل دی جا سکتی ہے مگر اس مقصد کے لیے بلوچستان کے لوگوںکے ہمراہ سندھ، پنجاب اور خیبر پختون خوا کے باشعور افراد کو ملکر جدوجہد کرنا ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں