میرا وطن اور میں
وطن پر قربان ہونے کی داستان طویل ہے لیکن میری یہ داستان کبھی نہ ختم ہونے والی داستان ہے
ہاں میں قربانی دوں گا کیونکہ میرا تو حکومت اور حکومتی معاملات سے کوئی تعلق نہیں نہ ہی میرا کوئی سیاسی مشن ہے اور نہ ہی میں نے سیاست میں حصہ لینا ہے اور نہ ہی میں نے اس ملک کی دولت پر قبضہ کرنا ہے میرا تو کام صرف اور صرف سرحدوں اور اس ملک کے عوام کی حفاظت کا ہے اس لیے میں قربانی کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہوں۔ میرے سیکڑوں ساتھی قربانی دے چکے ہیں اور دینے کو ہر دم تیار بھی ہیں۔ ملک کے اندر امن و امان کی صورتحال کا معاملہ ہو یا سرحدوں پر بیرونی جارحیت ہو اس شورش کو دبانا اور کنٹرول کرنا میرا مشن ہے اور میرا یہ مشن جاری ہے اور جاری رہے گا اس کے لیے میں اور میرے ساتھی اپنی جانوں کے نذرانے دینے کو تیار ہیں۔ میں اپنے مشن میں کامیاب ہوں، کامیاب اس لیے کہ میں نے ملک میں فسادیوں کی شورش کو دفن کر دیا ہے۔
ہاں کبھی کبھار کہیں نہ کہیں سے کوئی چنگاری بھڑکتی ہے جہاں پر برسوں آگ لگی رہی ہو اس کو مکمل طور پر بجھانے میں کچھ وقت تو لگتا ہے راکھ میں دبی چنگاریوں کو جب کہیں سے ہوا ملتی ہے تو وہ بھڑک کر شعلہ بننے کی کوشش کرتی ہیں لیکن میرے جیسے کئی سرفروش ان چنگاریوں کو بھڑکانے والوں کے سروں پر موت بن کر لپکتے ہیں اور ان شعلہ بنتی چنگاریوں کو اپنے خون سے بجھا دیتے ہیں۔ اور میرے خون کا ہر قطرہ ان دبی ہوئی چنگاریوں کو دائمی بھسم کرنے کے لیے کافی ہے اسے میں اپنی کامیابی سمجھتا ہوں اور اس پر فخر بھی کرتا ہوں، سر شار رہتا ہوں اور مست بھی رہتا ہوں کہ میری قربانیاں میرے ہم وطنوں کے کام آرہی ہیں۔ میری یہ مستی میری تربیت کا حصہ ہے میری تربیت میں وطن پر قربان ہونا ہی سکھایا گیا ہے۔
میں دشمن کی گولی سینے پر کھاتا ہوں پیٹھ پر نہیں کہ مادر وطن کی حفاظت کے لیے سینوں پر سجے گولیوں کے تمغوں سے میری تاریخ بھری پڑی ہے یہ ایک طویل داستان ہے جو کہ میرے جیسے کئی سرفروشوں نے اپنے خون سے لکھی ہے۔ یہ داستان ابھی جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گی کہ میرے وطن کو ابھی خون کی ضرورت ہے میرے جیسے کئی نوجوانوں کے والدین اپنے نوجوان بیٹوں کے بارے میں اپنے خواب دل میں سجائے رہے اور ان کے بہادر اور نڈر بیٹے مادر وطن پر اپنی جان قربان کر کے ان کے خوابوں کو امر کر گئے۔ میری اور میرے ساتھیوں کی قربانیوں کا یہ سفر جس کا آغاز نہ جانے کب ہوا تھا اس سفر کو ابھی جاری رہنا ہے۔ یہ سفر اپنی منزل اور مقصد کی جانب جاری رہنے کے لیے مزید قربانیاں مانگتا ہے اور ان قربانیوں کے لیے ہم نے کفن پہن رکھے ہیں۔ مادر وطن پہ قربان ہونا ہمارے رگ و روپ میں رچ بس چکا ہے۔
اس منزل کی جانب سفر کے لیے سینوں کی جانب سفر کرتی گولیوں کو ہمارے چوڑے چکلے سینے خوش آمدید کہنے کو ہر دم تیار رہتے ہیں۔ وطن کی خاطر یہ گولیاں ہمیں پھول کی ماند لگتی ہیں اور ہماری خواہشوں کو پورا کردیتی ہیں کہ شہید کی موت میں ہی قوم کی حیات پنہاں ہے اور یہ شہادت ہمیں ایک نئے سفر کی جانب لے جاتی ہے وہ سفر جو کہ ازل سے ابد تک کا ہے اس طرح میرا سفر تو جاری رہتا ہے جس کا آغاز اس وقت ہی ہو گیا تھا جب میں نے اپنی ماں کی آغوش سے نکل کر فرش پر اپنے ہاتھوں اور پاؤں سے چوپاؤں کی طرح چلنا شروع کیا تھا اور اس وقت میں نے اپنے وطن کی مٹی کو لاعلمی میں چوما تھا جس کی خوشبو آج بھی مجھے مست کر دیتی ہے۔
اس وقت میری ماں کو کیا معلوم تھا کہ اس کا یہ ننھا منھا سا معصوم بیٹا ایک دن اپنے وطن کی خاطر اپنے سینے پر گولیوں کے تمغے سجائے اس کی آغوش میں آنکھوں میں اپنی فتح کی داستان لیے مسکرا رہا ہوگا اور ماں جس کے لیے وہ ہمیشہ ایک معصوم بیٹا ہی رہا جس کی سلامتی کے لیے اس کے ہاتھ اللہ کی بارگاہ میں دعائیں مانگتے نہیں تھکتے تھے۔
آج وہ ماں اپنے اسی معصوم بیٹے کو آخری بار اپنی آغوش میں لے کر پیار کر رہی ہے کہ اسے ابدی سفر پر جانے کی جلدی ہے اسے اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے اس کی معصوم بیٹی ان سب باتوں سے بے خبر اپنے اردگرد کے سوگوار ماحول دیکھ کر حیران ہے کہ اس کے بابا سو کیوں رہے ہیں یہ کب اُٹھیں گے کہ میں نے ان کے ساتھ کھیلنا ہے یہ اتنے دنوں کے بعد گھر آئے ہیں اس معصوم کو کیا معلوم کہ اس کا بہادر بابا اس کے کل کے لیے اپنے آج کو قربان کر کے اپنی معصوم بیٹی اور جواں سال بیوی کو اللہ کے سہارے چھوڑ گیا ہے۔ بیٹی جس کے ابھی کھیلنے کے دن ہیں جو اپنے باباکو گھوڑا بنا کر اس کے اوپر سواری کرتی تھی اس کی ماں اس کو یہ بھی نہیں بتا سکتی کہ اس کے سر کا تاج وطن پر جان قربان کر کے اسے اکیلا چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ اس کی گم سم آنکھیں ان کہی کہانیاں سنا رہی ہیں جن کی کوئی زبان نہیں ہاں زندگی بھر ایک شہید کی بیٹی اور بیوی کا تمغہ ان کے ماتھے کا جھومر رہے گا۔
وطن پر قربان ہونے کی داستان طویل ہے لیکن میری یہ داستان کبھی نہ ختم ہونے والی داستان ہے جس میں کردار بدلتے رہتے ہیں لیکن داستان جاری رہتی ہے۔ کیا کبھی کسی نے ایک لمحے کے لیے بھی یہ سوچا ماں باپ اپنے بچوں کے ناز و نخرے اُٹھا کر ان کو جوان کرتے ہیں اور پھر وطن کی حفاظت کے لیے بھیج دیتے ہیں کیا ان والدین کے سینے میں دل نہیں ہوتا جب مادروطن پر قربان ہونے کے بعد سبز ہلالی پرچم میں لپٹے ان کے پیارے بچوں کے جسد خاکی ان کے ناتواں کندھوں پر ابدی سفر پر روانہ ہوتے ہیں وہی کندھے جن پر وہ بچپن میں چڑھ کر کھیلا کرتے تھے اور انھی ناتواں بوڑھے کندھوں کا وہ سہارا تھے آج وہ شہادت کے رتبے پر فائز ہو کر امر ہو گئے ان کے والدین شہادت کی مبارکبادیں وصول کرتے ہیں کہ شہید مرتا نہیں زندہ ہوتا ہے لیکن اللہ تبار ک و تعالیٰ اولاد کا دکھ کسی بھی صورت میں والدین کو نہ دے۔
بہرحال میرا سفر جاری ہے میری داستان گو طویل ہے لیکن چونکہ میں اس کا ایک کردار ہوں اس لیے اپنے حصے کا قصہ مجھ کو ہی سنانا ہے مجھے ہی قربانی دینی ہے کہ میں نے اپنے ملک کی حفاظت کی اور دشمنوں سے بچانے کی قسم کھائی ہے یہ میرا مشن ہے اور میں اس کا ایک ادنیٰ سا کردار ہوں میری یہ قسمیں میرے ملک کے لیے ہیں میں اپنے ملک کے ان حکمرانوں کا کیا کروں اور کس سے سوال کروں جو کہ حلف تو ملک کی وفاداری اور پاسداری کا لیتے ہیں لیکن اس ملک کو لوٹ کر کھا گئے اور مجھے کہتے ہیں کہ میں ان کے خلاف سازش کرتا ہوں۔ ہاں میں وطن کے دفاع کی خاطر سازش بھی کرتا ہوں تا کہ اپنی سازش سے ان سازشوں کا قلع قمع کر سکوں جو ملک کو خطرات میں ڈال رہی ہیں۔ میں اپنی قربانیوں کا کوئی صلہ بھی نہیں مانگتا۔ میری تو قسمیں اور وعدے سچے ہیں اور مجھے اپنے قسموں اور وعدوں کو پورا کرنا ہے کہ میں نامعلوم نہیں ہوں۔