کرپشن کا نظریہ
کروڑوں اربوں کسی سوال کے بغیر بیرون ملک منتقل ہو جاتے ہیں
نواز شریف کی مثال سے ایک بات تو واضح ہوگئی کہ غیر معمولی کرپشن ہمارے ہاں نہ صرف گمراہ کُن مقبولیت کی راہ میں رکاوٹ ثابت نہیں ہوتی بلکہ اسے اسمبلی سے قانونی جواز بھی مل جاتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام، غربت، سماجی عدم توازن، بیروزگاری، مؤثر نظام احتساب کی عدم موجودگی، کمزور سیاسی ادارے اور لاقانونیت جیسے عوامل سے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کے عدم اعتماد میں اضافے اور کمزور حکومت جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔
بدعنوانی کے موضوع پر نظر رکھنے والے صف اول کے ایک ماہر جے جی لیمبسڈروف کا کہنا ہے :''ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے اختیارات کا غلط استعمال پاکستان میں عام ہوچکا ہے۔ نظام احتساب کا ڈھانچا اور احتسابی عمل کمزور اور غیر مؤثر ہوجائیں تو کرپشن پھلتی پھولتی ہے، پاکستان کو اسی صورت حال کا سامنا ہے۔ کرپشن اس ماحول میں پنپتی ہے جہاں بدعنوانی کی حوصلہ افزائی اور ذاتی مفادات کے حصول کے مواقع ارزاں ہوں، کرپشن کے لیے اختیارات اور ذرایع تک رسائی بھی حاصل ہو اور اس کے طشت از بام ہونے یا اس پر سزا ملنے کا خوف بھی نہ ہو۔''
پاکستان کو بیوروکریسی کا مرکزی نظام برطانیہ سے ورثے میں ملا، لیکن انگریز دور کی نگرانی اور جوابدہی اس ورثے کا حصہ نہیں بن سکی۔ سیاستدان کرپشن میں اس نظام کے سہولت کار بن گئے اور جب فوج اقتدار میں آئی تب بھی اس نظام نے خود کو بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ کرلیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سرکاری ملازمین کو حاصل آئینی تحفظ ختم کرکے جب میرٹ کی بنیاد پر انتخاب کے بجائے من مانی تقرریوں کے لیے راہیں نکالیں تو سیاسی مداخلت بھی بہ آسانی ممکن ہوگئی۔ سیاستدان ''کاروباری'' نوعیت کے اس تعلق میں کہیں زیادہ بااختیار ہوگئے۔
ان ''سیاسی'' بیورکریٹس کی توانائیاں قومی مفاد کے بجائے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے مختص ہوگئیں اور انھوں نے اپنے سرپرست سیاست دانوں کے ووٹ بڑھانے کی خدمت بھی انجام دینا شروع کی، چاہے عوام میں اس سیاستدان کی مقبولیت کا معیار پست ترین ہی کیوں نہ ہو۔ سیاست سے آلودہ ہوجانے والی ہمارے بیوروکریٹس قواعد و ضوابط سمجھتے ہیں، اس لیے ہر آنے والے حکمران کو ''مسائل'' سے نکالنے کے لیے نئے نئے حربے بھی تجویز کرتے آئے ہیں۔ کرپشن اور اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات کی بنیاد پر 1950ء کی دہائی میں حکومتوں کی تبدیلی ایک مرتبہ پھر 1990ء سے 1999ء کے دوران دہرائی گئی اور اس عرصے میں چار جمہوری حکومتیں برطرف ہوئیں۔کرپشن میں روز بہ روز اضافہ کے باوجود کوئی بھی قانون کی گرفت میں نہیں آیا اور محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے مابین میوزیکل چیئر کا یہ کھیل جاری رہا۔
آف شور کمپنیاں فیشن بنتی گئیں۔ پناما پیپر (اور اب پیراڈائز پیپرز)نے سرکاری حکام، ڈرگ مافیا اور منی لانڈرنگ کرنے والوں کے غیر قانونی اکاؤنٹس کا کچا چٹھا کھول دیا۔ ہمارے بعض معروف وکلا اور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ آف شور کمپنیاں خلاف قانون نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کرپٹ عناصر کو ان کی غیر قانونی دولت چھپانے اور ٹیکس چوری کے لیے یہ راہِ فرار کیوں دی جائے، کیا آف شور کمپنیوں کے جواز پر اصرار کرنے والوں کو صرف اپنی بھاری فیس کی فکر ہے؟ ایسے ''پیشہ ور'' تکنیکی بیان بازی اور قانونی بحثوں کے پردے میں غیر قانونی سرگرمیوں کا دفاع کرتے ہیں اور مالیاتی اداروں کی طرح اپنے کلائنٹ کے ہر جُرم کو چھپانے میں بھرپور کردار بھی ادا کرتے ہیں۔
منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے مؤثر قوانین موجود نہ ہوں تو کرپٹ سیاستدانوں، جرائم پیشہ عناصر اور دیگر افراد بینکنگ کے قانونی نظام میں ایسے سقم تلاش کر لیتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ ان بینکوں تک بہ آسانی پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کا لوٹا ہوا مال محفوظ بنانے کے اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد شناخت چھپانے کے لیے بے نامی آف شور کمپنیاں اور ٹرسٹ بنائے جاتے ہیں۔ عالمی مالیاتی نظام تک پہنچنے کے لیے کی جانے والی اس کارروائی میں کوئی ایک قانونی اصول نہیں توڑا جاتا۔ قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یہ لوٹی ہوئی دولت منتقل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
کروڑوں اربوں کسی سوال کے بغیر بیرون ملک منتقل ہو جاتے ہیں، چاہے ان پر پاکستان میں ٹیکس ادا کیا گیا ہو یا نہیں۔ لندن میں بھاری قیمت والے کئی اپارٹمنٹ معروف وہائٹ کالر جرائم پیشہ افراد کی ملکیت میں ہیں جن میں سابق آمر، بینک ڈیفالٹر، ٹیکس چور اور منی لانڈرنگ کرنے والوں کے نام شامل ہیں۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ الطاف حسین کے بھارت سے تعلقات چھپانے کے لیے منی لانڈرنگ اور جاری کردہ قتل کے واضح احکامات پر جس طرح پردے ڈال رہا ہے،برطانیہ کے نظام قانون کی منافقت واضح کرنے کے لیے یہی مثال کافی ہے۔
شاطر رئیل اسٹیٹ ایجنٹ بدعنوان افراد کو لوٹی ہوئی دولت اندرون و بیرون ملک جائیداد کی خریدوفروخت میں لگانے کے لیے نت نئے راستے دکھاتے ہیں۔ ''ڈیلی بیسٹ'' نے 2015ء میں London, the World's Money Laundering Capital" کے عنوان سے انکشاف انگیز رپورٹ شایع کی، جس کے مطابق:''غیر قانونی طور پرچھپائی گئی دولت سے یہاں جائیداد کی خرید و فروخت کا کاروبار تیزی سے پھل پھول رہا ہے، لندن دنیا میں منی لانڈرنگ کا دارالحکومت بن چکا ہے۔ ایک انڈر کور رپورٹر نے کرپٹ روسی سیاستداں کا روپ دھار کر اس سلسلے میں رابطے شروع کیے۔
اس دوران اس نے لندن کے ٹاپ رئیل اسٹیٹ ایجنٹس کی گفتگو بھی ریکارڈ کی جس میں انھوں نے غیر قانونی دولت کی منتقلی کے لیے پُرکشش پیشکشں کی، جب کہ برطانوی قانون کے مطابق یہ ایجنٹ متعلقہ حکام کو کسی بھی مشکوک سرگرمی کی اطلاع دینے کے پابند ہیں۔ پچیس کروڑ ڈالرمالیت کی جائیداد فروخت کرنے والے ایجنٹوں نے یہاں تک کہا کہ انھیں کسی قسم کی معلومات درکار نہیں، دوسروں کی یہ پیش کش تھی کہ وہ شیل کمپنیوں کے ذریعے رقوم کی منتقلی کے لیے تفصیلی قانونی مشورہ فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔''
اپنی تقرریوں اور اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے کرپٹ حکومتی عہدے داروں کے قریبی حلقے کسی اور ہی انداز میں دنیا کو دیکھتے ہیں۔ سپریم کورٹ سے نااہل قرار پانے والے شخص کے حق میں کی گئی آئینی ترمیم کے لیے ووٹ دینے والے ریاست کے بجائے نواز شریف کے وفادار ہیں کیوں کہ وہ اپنی بقا کے لیے اپنے سرپرست کے مرہون منت ہیں۔ عین ممکن ہے کہ یہ سبھی افراد کرپٹ نہ ہوں لیکن اپنے سرپرستوں کی ہدایات پر عمل کرنے کی وجہ سے وہ کرپشن کی سہولت کاری کے مرتکب ضرور ہوئے ہیں اور اس لیے اپنے ''باسز'' کے جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔ ماضی میں اپنی وابستگیوں کو بڑی سہولت سے بھلا بیٹھنے والے یہ حضرات اپنی اصول پرستی کا ڈھنڈورا تو پیٹتے ہیں لیکن اپنے بڑوں کی غیر قانونی سرگرمیوں پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ نہ جانے حزب اختلاف کو سپریم کورٹ کے فیصلے (اور اس پر نظر ثانی کی اپیل) کو قومی اسمبلی کے ریکارڈ کا حصہ بنانے کی کوشش کرنے سے کس بات نے روک رکھا ہے؟
پیپلز پارٹی کی جانب سے یہ ''خوش فہمی'' پھیلائی جارہی ہے کہ فوج نواز شریف کے مقابلے کے لیے آصف زرداری کو تیار کررہی ہے۔ بات صرف مالی کرپشن کی نہیں، آصف زرداری نے جو کچھ کیا ہے اس کے بعد موازنہ کیا جائے تو زرداری کے مقابلے میں نواز شریف ''صوفی درویش'' نظر آتے ہیں۔ کوئی بھی منطقی ذہن کسی ایسے بندوبست کو قبول ہی نہیں کرسکتا، ہوش و حواس میں کون ''ہاراکاری'' کرسکتا ہے کیونکہ ایسی کسی صورت حال کا مطلب یہی ہوگا کہ عدالت عظمی نے جس حوصلے کا مظاہرہ کیا اور ہم ایک قدم آگے بڑھے، اور اب دس قدم واپس لوٹ جائیں۔
پاکستان میں منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری جیسے جرائم میں معاونت کرنے والوں کے خلاف مؤثر کارروائی کی راہ میں قانونی رکاوٹیں حائل ہیں۔ میاں نواز شریف پر فرد جرم عاید ہونے سے تبدیلی کے امکانات تو ضرور روشن ہوئے ہیں لیکن اس پر کامیابی کا جشن منانا قبل از وقت ہوگا۔ اپنے آپ کو ''نظریہ'' کہنے والے نواز شریف کس نظریے کو فروغ دے رہے ہیں۔ جب آپ کرپشن کی معاونت کریں، اسے برداشت کریں، اسے سلامی دیں تو درحقیقت آپ نہ صرف دوعملی کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ آپ کو سوچا سمجھا آلہ کار تصور کیا جائے گا۔ کرپشن کے خلاف خاموشی اختیار کرنے والے اور اس کی معاونت کرنے والوں کو انجام تک پہنچانا ہوگا ورنہ ''کرپشن سب کے لیے'' نظریۂ پاکستان کی جگہ لے گی۔