فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں

تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے گھر والے بھیس بدل بدل کرگھر سے باہر نکلتے تھے


Aftab Ahmed Khanzada November 25, 2017

دنیا میں سب سے کم اعتبار کی چیز دل ہے، لیکن کیا کیا جائے اسی پر دنیا میں سب سے زیادہ لوگوں نے اعتبار کیا، اسی اعتبار نے انھیں دنیا میں بھی ذلیل و خوار کروایا اور آخرت کی ذلت ابھی باقی ہے۔ دنیا کے سارے مسائل نے اسی اعتبار کی کوکھ سے جنم لیا، اسی نے ہی سب سے زیادہ دھوکے دیے، اسی نے ہی سب سے زیادہ وہ سہانے سپنے دکھائے جن کی تعبیر کبھی نہ ہوسکی۔

انسان کو جتنا نقصان شیطان نے نہیں پہنچایا، جتنا دل نے پہنچایا ہے۔ اسی دل کے ہاتھوں سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا ، برونو کو آگ میں جلنا پڑا، سرو تیس کو اپنی کتابوں کے ساتھ آگ میں جلایا گیا ، تھامس مورکی گردن کلہاڑے سے اسی کی وجہ سے الگ کی گئی۔ مادام رولاں اسی کی وجہ سے تختہ دار پر لہرائی، اسی دل پر اعتبار کرکے سکندر اعظم ساری عمر مارا مارا پھر تا رہا۔ اسی پراعتبار کرکے ہٹلر اور مسولینی نے لاکھوں زندگیاں برباد کر کے رکھ دیں اور آج دوزخ میں پڑے سارا وقت دل کو برا بھلا کہنے میں مصروف ہیں۔

اسی دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کی حکومت کا تختہ الٹا اسی کے ہاتھوں جسٹس منیر نے ملک غلام محمد کے حق میں فیصلہ دیا اوراسی کے ہی ہاتھوں سکندر مرزا نے ملک غلام محمد سے استعفیٰ لیا۔ اسی نے ہی صدر ایوب خان کے ہاتھوں سکندر مرزا کو ذلیل وخوار کروایا۔ صدر یحییٰ خان کے دور اقتدار کے پیچھے یہ ہی کھڑا مسکراتا رہا۔ اسی دل پر اعتبار کر کے لیلیٰ مجنوں ، شیریں فرہاد، رومیوجولیٹ نے پوری زندگی بے کاری میں گذار دی، پوری زندگی لیلیٰ، شیریں اورجو لیٹ اپنی ماں اور بہنوں کی پھٹکار سہتی رہیں اور مجنوں ، فرہاد اور رومیو زندگی بھر بے روزگاری کے طعنے اور کوسنے سہتے رہے اور اپنے والدین کے ہاتھوں پٹتے رہے جو بدنامی اور رسوائی انھوں نے مل کر اپنے گھر والوں کو پہنچائی اس کی مثال تاریخ میں ڈھونڈے سے بھی نہیں مل پاتی ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے گھر والے بھیس بدل بدل کرگھر سے باہر نکلتے تھے تاکہ لوگوں کی لعنت ملامت سے محفوظ رہ سکیں، انھوں نے نجانے کتنی لڑکیوں اور لڑکوں کی زندگیاں اپنے ساتھ ساتھ خراب کیں اور آج بھی اپنی کہانیوں کی بنا پر ہزاروں نوجوانوں کی زندگیاں خراب کرنے میں مصروف ہیں۔ اسی لیے انھیں آج بھی خوب طعنے اورکوسنے سننے کو مل رہے ہیں۔ ہزاروں نوجوانوں کے گھر والے دن رات انھیں برا بھلا کہنے میں مصروف ہیں ۔ بدنامی آج بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی ہے اور تاریخ میں پڑے خوب لعنت ملامت سن رہے ہیں۔

اور تو اور ہمارے سابق حکمرانوں کی ہی مثال لے لو کتنے کام کے آدمی تھے قسمت کی دیوی ان پر خوب مہربان تھی اقتدار، طاقت، اختیار کو وہ باربار دھکے دے کر ذلیل وخوارکرکے اپنے گھر سے نکالتے رہے لیکن وہ اتنی بے شرم ثابت ہوئیں کہ پھر بھی ان کے گھر کی دہلیز پار نہیں کرتی تھیں ۔ ان کی زندگی بڑے آرام وچین کے ساتھ گذر رہی تھی لیکن آخر وہ ہی ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا وہ بھی اسی دل کے بہکاوے میں آہی گئے اور وہ وہ کارنامے کرنے شروع کردیے جن سے پرہیزکرنا اپنے اقتدار اور صحت کے لیے سب سے زیادہ ضروری تھا لیکن وہ بھی اس دل کے چنگل میں آہی گئے۔ اب بار بار ایک ہی سوال پہ سوال پوچھے جارہے ہیں ۔ اپنے دل کے علاوہ سب کو برا بھلا کہنے میں مصروف ہیں ۔ ناراضگی کا یہ عالم ہے کہ مسکرانا ہی چھوڑ دیا ہے ان کے ساتھ ساتھ ان کے مشیروں اور ساتھیوں نے بھی مسکرانا ترک کردیا ہے، اگر یہ سلسلہ کچھ دیراسی طرح سے چلتا رہا تو وہ ملک بھر میں ہر کسی کے مسکرانے پر پابندی عائد کردیں گے۔

آئیں! اب بات کرتے ہیں ان بیس کروڑ انسانوں کی وہ بھی اپنے دلوں کے ہاتھوں مجبور اور بے بس ہیں لیکن ان کا معاملہ ذرا مختلف ہے وہ سب یہ چاہتے ہیں کہ ان کا ملک ایک ایسے ملک میں بدل جائے جہاں انھیں سکون ہو، خوشحالی ہو، سکھ ہو خوشیاں ہوں، جن کے لیے وہ سالوں سے جدوجہد کررہے ہیں۔ اب حالات بتا رہے ہیں کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہونے والا ہے، ہمارے ملک کے آج کے حالات اور 1789 کے پیرس کے حالات میں کتنی مماثلت ہے، فیصلہ آپ پر چھوڑتے دیتے ہیں۔ پیرس 14 جولائی 1789 دو نوجوان ایک ہوٹل میں داخل ہوتے ہیں۔ ''بیٹھوکانتے'' ''ہاں ہاں مورلو '' آواز، چائے لاؤ مورلو۔'' کانتے تمہیں کچھ شہر کی خبر ہے ؟کامتے ۔ہاں سب کچھ دیکھ رہاہوں ۔ پیرس نے ایک بہت بڑے خیمے کی صورت اختیار کررکھی ہے ۔ ایک ایسا خیمہ جس کے ایک دروازے پر انقلاب اور دوسرے پر آزادی کے پر دے لٹک رہے ہیں۔

ٹھیک ہے مورلو ۔ ۔ کل بادشاہ نے مجلس ملی کے مطالبات کو ٹھکرا دیا، آج پیرس میں پولیس ہے نہ فوج ۔ آخرکیوں ؟ اس لیے کہ انقلاب ہونے والا ہے؟کانتے۔ ''کہیں لوگوں کو انقلاب کے لیے یوں آزاد بھی چھوڑ دیا جاتاہے'' مورلو۔ ''تم نہیں سمجھتے کانتے حکومت کا خیال ہے کہ پیرس والے پولیس اور فوج کے بغیرایک دن بھی زندہ نہیں رہ سکتے''۔کانتے ۔''یہ تو ٹھیک ہے ''آواز میز پر چائے کی پیالیاں رکھنے کی ۔مورلو ۔''کیوں ؟'' کانتے ۔ لوگ آپس میں لوٹ مار شروع کردیں گے ۔ مورلو ۔ بالکل غلط کانتے ! تم اس وقت پیرس کے معروف ترین بازار میں ہو ۔ ذرا باہر نکل کر دیکھو کہ جوان لڑکے اور لڑکیاں ٹولیاں بنا کر قومی گیت گارہی ہیں ۔ کانتے ۔ گیتوں اور نعروں سے انقلاب پیدا نہیں ہوتے ۔ مورلو۔ تم تو پاگل ہوکانتے ! کانتے ۔ میں پاگل نہیں بلکہ شاہ پسندہوں میں تمہاری طرح انقلاب پسند نہیں ہوں۔

میں اس امر کا سخت مخالف ہوں کہ محض نظام حکومت بدلنے کے لیے لوگوں کی جانیں فنا کی جائیں ۔ مادام صوفیہ : ''انسانی جانوں کی کچھ پروا نہیں ، مداخلت کی معافی چاہتی ہوں (پاس بیٹھی ہوئی ایک لڑکی کی آواز ) ۔ کانتے ۔ تم بھی جمہوریت پسند ہوکیا مادام ؟مورلو۔ ''ہاں مانشور میں نے اپنے سینے پر آزادی کا نشان لگا رکھا ہے دیکھو '' ۔ کانتے ۔ گیتوں اور نشانوں سے انقلاب پیدا کرنے والے پاگل ہیں'' ۔ مورلو۔ پاگل نہیں بلکہ جمہوریت پسند ۔کانتے ۔ نہ صرف پاگل بلکہ انسانیت و اشراف کے دشمن ، تہذیب و تمد ن سے عاری ! ۔مورلو ۔ '' اتنے تیزکیوں ہوتے ہو ؟ ہم دونوں ایک دوسرے کے خیالات سے خوب واقف ہیں ۔ تم ایک امیرگھرانے میں پل کر جوان ہوئے ہو تمہیں کیا خبرکہ عوام کو روٹی تک نہیں ملتی ۔کسانوں کے پاس کپڑا تک نہیں ۔ فرانس کے غریب بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ عوام حکومت سے اپنا حق مانگتے ہیں لیکن انھیں قیدکردیاجاتا ہے ۔ کہو ، ان حالات میں اگر کوئی شخص انقلاب پسند نہ ہوتوکیا کرے ؟''

امید ہے فیصلہ آپ کرچکے ہوںگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں