پاکستان کا پہلا پاپ سنگر عالمگیر

عالمگیر نے لیجنڈ فنکار معین اختر کے ساتھ پھر بیرون ممالک میں بھی بڑے کامیاب شوز کیے تھے


یونس ہمدم November 25, 2017
[email protected]

ایک وہ دور تھا جب کراچی میں موسیقی کی محفلوں کا رواج صرف شادی بیاہ کی بڑی بڑی تقریبات میں ہوا کرتا تھا اور فرش نشینی ہوا کرتی تھی۔ زیادہ تر غزلوں کی محفلیں سجائی جاتی تھیں اور سنگر بیٹھ کر ہارمونیم طبلے کی سنگت کے ساتھ گایا کرتے تھے، پھر فنکاروں کے لیے اسٹیج سجائے جانے لگے اورگلوکارکھڑے ہوکر پرفارمنس دینے لگے۔ پھرکراچی کے ایک اسٹیج پر ایک نوجوان گلے میں گٹار لٹکائے نمودار ہوا اور اس نے سب سے ہٹ کر گانا شروع کیا۔ وہ اس کے ابتدائی فنکشنوں میں سے ایک زبردست فنکشن تھا جس میں اس نوجوان سنگر نے احمد رشدی کا ایک مشہور گیت چھیڑا جس کے بول تھے:

میرے خیالوں پر چھائی ہے اک صورت متوالی سی

نازک سی شرمیلی سی معصوم سی بھولی بھالی سی

رہتی ہے وہ دور کہیں اتا پتہ معلوم نہیں

کوکوکو رینا...کوکوکورینا

پھر اس نوجوان نے اسٹینڈ سے مائیک نکالا اور مائیک ہاتھ میں لیے گاتا ہوا تھرکتا ہوا عام پبلک میں آگیا اور اس نے اپنے گیت میں پبلک کو بھی شامل کرلیا تھا۔ گیت کے اختتام پر دیر تک تالیاں بجتی رہی تھیں اور اس نوجوان نے ساری محفل لوٹ لی تھی، وہ نوجوان سنگر عالمگیر تھا۔ پھر اس نے اردو گیتوں کے ساتھ ساتھ مغرب کے لیجنڈ سنگر ایلوس پریسلے کے گیت بھی اسٹیج پر گانے شروع کردیے اور اس طرح گلوکار عالمگیر کی دھاک بیٹھتی چلی گئی اور اس کا نام بھی خوب چمکنے لگا اور اس کا معاوضہ بھی بڑھتا چلا گیا۔ اور عالمگیر کی دیکھا دیکھی پھر دوسرے گلوکار بھی اپنی پرفارمنس کو بہتر سے بہتر کرنے میں مگن ہوگئے تھے۔ عالمگیر نے صحیح معنوں میں پاکستان میں پاپولر سنگنگ کو فروغ دیا تھا اور یہ کراچی کا پہلا پاپ سنگر بن کر ابھرا تھا۔

ابتدا میں اس نے احمد رشدی کے گیتوں کے ساتھ ساتھ ہندوستانی گلوکاروں اور یورپ کے گلوکاروں کے گیت بھی گائے پھر یہ اپنے اوریجنل گیتوں کی طرف بھی آتا چلا گیا۔ میری اس کی پہلی بھرپور ملاقات ڈھاکہ سے آئے ہوئے مشہور کمپوزر کریم شہاب الدین کے ساتھ ہوئی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ عالمگیر کی شہرت کا سفر بھی آگے بڑھتا رہا۔ اس دوران یہ کراچی ٹیلی ویژن کے موسیقی کے پروگراموں میں بھی حصہ لیتا رہا۔ کریم شہاب الدین اور موسیقار سہیل رعنا کے ساتھ بہت سے گیت ریکارڈ کرائے پھر اس نے اپنا ایک میوزک البم بھی ترتیب دیا جس میں کچھ گیتوں کی موسیقی اس نے خود بھی دی تھی۔ اس دور کے اس کے البم کے چند گیتوں کا یہاں تذکرہ ضروری ہے کہ وہ گیت بڑے مقبول ہوئے تھے جیسے کہ یہ چند گیت ہیں:

٭میں ہوں البیلا راہی

٭میں نے تمہاری گاگر سے کبھی پانی پیا تھا...یاد کرو

دیکھ ترا کیا رنگ کردیا ہے

خوشبو کا جھونکا ترے سنگ کردیا ہے

شام سے پہلے آنا دھوپ ساری ڈھل رہی ہو

پھول سارے کھل گئے ہوں موسم سارے لانا

٭یہ شام اور ترا نام' دونوں کتنے ملتے جلتے ہیں

٭خوابوں میں اکیلا نہیں ہوں تو بھی ہے

دیکھا نہ تھا کبھی ہم نے یہ سماں، ایسا نشہ تیرے پیارے نے دیا، سوچا نہ تھا۔

کھو گئے سپنوں میں ہم

اور پھر اس دور کی حکومت نے لفظ ''نشہ'' کی وجہ سے اس گیت کو ریڈیو پر بین کردیا تھا یہ گیت کراچی کی فلم ''بوبی اور جولی'' میں شامل کیا گیا تھا۔ یہ گیت عالمگیر کے ساتھ ایک ایرانی گلوکارہ نازی نے البم کے لیے گایا تھا۔ جب ''بوبی اور جولی'' میں اسے لیا گیا تو پھر سنسر بورڈ نے مذکورہ فلم ''بوبی اور جولی'' کو بھی نمائش کے لیے ناقابل قرار دے دیا تھا۔ اور فلم میں یہ گیت عالمگیر نے ناہید اختر کے ساتھ گایا تھا پھر پابندی سے بچنے کے لیے نشہ کا لفظ ہٹا کر گیت میں ''جادو'' کا لفظ استعمال کیا گیا تھا اور اس طرح اس گیت کو زبردست شہرت حاصل ہوگئی تھی پھر اسی گیت کو گلوکار عاطف اسلم نے گایا تھا دراصل یہ گیت اصل میں ایک ٹرکش سانگ تھا اس کی اوریجنل دھن کے ساتھ پھر اسے اردو میں گیت لکھا گیا تھا۔

عالمگیر نے لیجنڈ فنکار معین اختر کے ساتھ پھر بیرون ممالک میں بھی بڑے کامیاب شوز کیے تھے امریکا اور یوکے میں اس کے شوز کو بڑی پذیرائی ملی تھی اس نے شہرت کے ساتھ ساتھ دولت بھی خوب سمیٹی پھر اس نے لاہور کی فلم انڈسٹری کا رخ بھی کیا تھا۔ یہ بنگال خاندان کا نوجوان تھا۔ لاہور میں گروپ بندی ان دنوں بہت تھی۔ اداکار ندیم نے اسے بڑا سہارا دینے کی کوشش کی پھر ہدایت کار نذرالاسلام نے بھی اسے پروموٹ کرنے کی بڑی کوشش کی تھی اس نے لاہور میں نثار بزمی کی موسیقی میں ابتدا میں ایک گیت گایا جو فلم ''جاگیر'' میں ندیم پر فلمایا گیا تھا۔ گیت کے بول تھے ہم چلے تو ہمارے سنگ سنگ نظارے چلے یہ گیت شاعر کلیم عثمانی نے لکھا تھا اس گیت کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اسی دوران عالمگیر نے ہدایت کار نذرالاسلام کی فلم ''آئینہ'' میں گلوکارہ مہ ناز کے ساتھ ایک ڈوئیٹ گایا فلم کے موسیقار روبن گھوش تھے اور تسلیم فاضلی کے لکھے ہوئے گیت کے بول تھے:

وعدہ کرو ساجنا' بچھڑیں نہ ہم تم کبھی

اس گیت میں مہ ناز کی آواز نمایاں تھی عالمگیر نے بیچ بیچ میں کہیں کہیں اس کا ساتھ دیا تھا اور زیادہ تر ہمنگ کی تھی، لیکن فلم ''آئینہ'' ہی کے ایک اور ڈوئیٹ سانگ میں مہ ناز کے ساتھ عالمگیر کے گائے ہوئے ایک گیت کو بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی گیت کے بول تھے:

مجھے دل سے نہ بھلانا' چاہے روکے یہ زمانہ

تیرے بن میرا جیون کچھ نہیں' کچھ نہیں

شبنم ندیم پر فلمائے گئے اس گیت کو پسندیدگی کی سند حاصل ہوئی تھی دو تین فلموں میں سپرہٹ گیت گانے کے بعد بھی عالمگیر کو وہ بیک اپ نہیں مل سکا جو اس گلوکار کا حق تھا ۔ لاہور میں نثار بزمی اور روبن گھوش کے علاوہ اور کسی موسیقار نے عالمگیر کی طرف کوئی توجہ نہیں دی تھی اور اس طرح عالمگیر لاہور کی فلم انڈسٹری سے مایوس ہونے کے بعد واپس کراچی آگیا تھا۔ اور دوبارہ سے کراچی ٹیلی ویژن اور کراچی کے فنکشنوں کی طرف متوجہ ہوگیا تھا۔ کراچی ٹیلی ویژن سے ''سنڈے کے سنڈے'' کے عنوان سے کافی عرصے تک یہ پوپ میوزیکل پروگرام پیش کرتا رہا۔ اسی دوران عالمگیر نے ہندوستان کے نامور گلوکار محمد رفیع مرحوم کو ٹریبیوٹ پیش کیا تھا۔ ایک بہت ہی خوبصورت پروگرام جس کا ٹائٹل تھا ''آج پرانی راہوں سے کوئی مجھے آواز نہ دے'' یہ دراصل محمد رفیع ہی کے ایک مشہور گیت کا مکھڑا تھا۔ اسی دوران عالمگیر نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے کئی خوبصورت قومی گیت بھی گائے جن میں موسیقار نثار بزمی کی موسیقی میں ایک گیت نے بڑی مقبولیت حاصل کی تھی جس کے بول تھے:

نئے دنوں کی مسافتوں کو اجالنا ہے

وفا سے آسودہ ساعتوں کو سنبھالنا ہے

امید صبح جمال رکھنا' خیال رکھنا' خیال رکھنا

ٹی وی پر اس کا ایک گیت اور مشہور ہوا تھا۔ جس کے بول تھے ''ماؤں کی دعا پوری ہوئی'' پھر بدقسمتی سے عالمگیر کڈنی(گردوں) کے مرض میں مبتلا ہوگیا۔ وہ امریکا میں علاج کی غرض سے بھی کافی عرصہ رہا اور یہاں کی پاکستان کمیونٹی نے اس کے ساتھ بڑا تعاون کیا اور پھر خدا کے فضل و کرم سے یہ کڈنی کی کامیاب سرجری کے بعد پھر سے گانے کے قابل ہوگیا تھا۔ میری امریکا آنے سے کافی دنوں پہلے کراچی میں فلم ''خوش نصیب'' کے گیتوں کی ریکارڈنگ کے دوران ہدایتکار اے۔ ایچ صدیقی کے ساتھ ایسٹرن اسٹوڈیو میں ملاقات ہوئی تھی۔

اس دوران اس نے میرے لکھے ہوئے کئی سولو اور گلوکارہ حمیرا چنا کے ساتھ ڈوئیٹ گیت گائے تھے۔ اس وقت وہ بالکل صحت مند تھا ، فلم ''آئینہ'' میں اس کو بہترین گائیکی پر نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ اور 2013 میں اسے حکومت پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا تھا عالمگیر نے بحیثیت پاپ سنگر ایک بلند مقام حاصل کیا تھا اور اسے کراچی کے پہلے پاپ سنگر کی حیثیت سے موسیقی کی دنیا میں ایک نمایاں حیثیت رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔

میں جب سے امریکا میں ہوں عالمگیر کے بارے میں پتا چلا وہ واپس پاکستان چلا گیا ہے میری دعا ہے۔ عالمگیر جہاں رہے صحت کے ساتھ اپنے سروں میں مگن رہے۔ اور اپنی خوبصورت گائیکی کا جادو جگاتا رہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں