گائے کی دستک اور پراٹھا خور بطخے ’’Ducklings‘‘

اس قند مکرر کا مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ یہ کائنات فقط ایک لفظ ’محبت‘ پر مبنی ہے


سہیل احمد صدیقی November 26, 2017
حسن فطرت کے نظارے فقط انسان، چرندپرند اور کو ہ ودَمَن تک محدود نہیں۔ فوٹو : فائل

اگر کبھی آپ کی آنکھ صبح سویرے کسی دستک کی آواز سے کھُلے اور باہر کوئی گائے کھڑی نظر آئے تو آپ کیا محسوس کریں گے؟ ہوسکتا ہے، آپ سوچیں کہ کسی گوالے کی شرارت ہے۔ خود دروازہ کھٹکھٹاکر چھُپ گیا ہوگا اور گائے کو آگے کردیا ہوگا۔ ذرا سوچیں، کیا ایسا ممکن نہیں ہوسکتا کہ یہ دستک خود گائے نے دی ہو؟ آپ یقین کریں میرے ساتھ ایسا ہوچکا ہے اور خاصے عرصے تک ہوتا رہا ہے۔

میرے نئے گھر میں٭پہلا حیرت انگیز تجربہ ایک صحت مند، توانا، ہلالی شکل کے مضبوط سینگوں والی (مگربوڑھی) گائے کی روزانہ آمد اور دستک کے ذریعے روٹی مانگنا تھا۔ سُرمئی رنگت کی یہ گائے عموماً صبح ساڑھے چھَے بجے سے آٹھ بجے کے درمیان اور پھر شام ، عصر اور مغرب کے درمیان، کبھی اکیلی اور کبھی دوسری گایوں کے ساتھ آیا کرتی تھی۔ پہلے پہل مَیں نے اُس کے کھٹکھٹانے کا سُنا تو مجھے یقین نہ آیا اور مَیں نے یہی کہا کہ یہ کام اُس کا رکھوالا کرتا ہوگا.....پھر یہ دیکھنے میں آیا کہ وہ پہلی دستک کے بعد، کچھ دیر انتظار کرتی کہ شاید کوئی دروازہ کھولے ، اگر کسی وجہ سے دروازہ نہ کھُلتا تو دوبارہ، پھر، سہ بارہ، دستک دیتی ......دروازہ کھُلتا اور ہمیں اُس کے سینگ نظر آتے....ہم گھر والو ں میں سے کوئی روٹی یا ڈبل روٹی کے ٹکڑے ڈال دیتا، وہ کھالیتی ، پیٹ بھرجاتا تو چلی جاتی ،ورنہ آدھا آدھا گھنٹہ سینگ دروازے کی کُنڈی سے اَڑائے کھڑی رہتی ، کبھی کھٹکھٹاتی اور کبھی آواز نکالتی تھی۔ کچھ عرصے تک نگرانی اور تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ صبح کے وقت ، عموماً یہ گائے اور اُس کی ساتھی گائیں، رکھوالے کے ہمراہ نہیں ہوتیں، باڑہ قریب ہے، اس لیے عموماً وہ خود ہی چل پڑتی ہیں اور کبھی وہ شخص ساتھ بھی تب بھی دستک دینے کا کام اپنے سینگ سے کرتی ہے۔

ہماری حیرت کی انتہاء نہ رہی جب اُس گائے نے دروازہ کھُلنے میں تاخیر یا روٹی نہ ملنے اور دُھتکارے جانے کی صورت میں، کُنڈی باہر سے لگانی شروع کردی، اس معاملے میں بھی تحقیق کی گئی اور انسانی ہاتھ بے قصور نظر آئے۔ وہ گائے اپنی سج دھج کے اعتبار سے دیگر مویشیوں کی قائد نظر آتی تھی۔ دوسری گائیں اُس کی دیکھا دیکھی، روٹیوں پر جھپٹتی تھیں، پھر رفتہ رفتہ، ''ہماری'' گائے کمزور ہونے لگی تو اس چھینا جھپٹی میں پیچھے رہ گئی۔ ہمارے برابر کے گھر میں بھی اُس کا یہی معمول (ہماری منتقلی سے قبل) تھا، پھر اُن کے مار بھگانے کے بعد، اُس نے ہمارا گھر چُنا۔ وہ ہمارے گھر کے علاوہ شاذونادرہی کسی گھر سے کچھ مانگتی، البتہ دو گلی آگے، ایک دو گھر سے ضرور کھاتی تھی۔

جب ہمارے یہاں سے سختی ہوئی، چھوٹے بہن بھائیوں نے اُس کے معمول سے تنگ آکر، یا کبھی اُس کے اُلٹی (قے) کرنے پر یا مرضی کے خلاف کھانے کی چیز کو مُنھ نہ لگانے کی حرکت پر اُس کو بھگانے کی کوشش کی (پانی پھینک کر یا کوئی چیز مارکر) تو اُس نے ہمارے یہاں آنا کم کردیا، اُسی گلی میں دو تین گھر اور دیکھ لیے....مگر وہاں وہ دستک کم ہی دیا کرتی تھی، بس جاکر (اُن کا) راستہ بند کردیتی تھی، پھر اُس نے آنا چھوڑدیا۔ دوسری گایوں نے اس کی جگہ لینے کی کوشش کی، مگر معمول نہیں بنایا۔ ایک دن اُس کے رکھوالے نے بتایا کہ وہ انوکھی گائے، چھَے بچھڑوں کو سوگوار چھوڑکر مرگئی.........ہم سب کو بہت صدمہ ہوا۔ مَیں کبھی کبھی سوچا کرتا تھا کہ شاید یہ گائے دراصل کوئی جنّ ہو جس نے کسی خاص مقصد کے لیے بہروپ بھرا ہو۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ حقیقت کیا تھی۔ ایک اور بات...اگر یہ گائے یورپ یا امریکا میں ہوتی تو اس کی بڑی شہرت ہوتی اور Guinness Book of World Recordsمیں نام بھی شامل ہوتا۔ خیر......اس بات پر محض سُن کر یا پڑھ کر کیسے کوئی یقین کرے گا۔ پیارے بچو! کہیں آپ بھی تو اس واقعے کو مَن گھڑت کہانی نہیں سمجھ رہے ؟؟ نہیں نہیں یقین کیجے، یہ صد فی صد سچا واقعہ ہے۔٭٭
٭میں اس گھر میں دو مارچ سن انیس سو اٹھاسی سے چھے ستمبر انیس سو پچانوے تک مقیم رہا۔

٭٭اس واقعے کو مدیر ماہنامہ آنکھ مچولی، ڈاکٹر طاہر مسعود نے بھی میرے لاکھ یقین دلانے کے باوجود، من گھڑت سمجھا اور اس میں کچھ سطور تبدیل کردیں، جن سے اِس کا حسن متأثر ہوا....کئی سال بعد جب میَں نے برسبیل تذکرہ انھیں بتایا کہ واقعی ایسی ایک گائے تھی تو وہ بہت حیران ہوئے۔ (خاکسار کی یہ تحریر بہت سال پہلے بچوں کے رسالے ماہنامہ آنکھ مچولی میں شایع ہوئی اور پھر راقم نے سارک[SAARC] کے تمام ممالک کے بچوں کی کہانیاں، جمع، ترجمہ، ترتیب و تدوین کیں تو اس سمیت اپنی چند طبع زاد تحریریں بھی شامل کرلیں۔ یہ تحریر بڑے بچوں کے لیے مخصوص تھی۔ یہ کتاب بعنوان 'سارک کہانی' سن دو ہزار آٹھ میں شایع ہوئی اور اس میں عمر اور تعلیمی مدارج کے لحاظ سے چھوٹے بچوں یعنی ابتدائی جماعتوں کے طلبہ اور بڑے بچوں یعنی ثانوی جماعتوں کے طلبہ کے لیے کہانیاں شامل ہیں)۔

اس قند مکرر کا مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ یہ کائنات فقط ایک لفظ 'محبت' پر مبنی ہے اور اس کے تمام عجائب پر غور کرتے چلے جائیں تو اُس ذات ِ اقدس سے محبت فزوں ہوتی جاتی ہے جس کی مخلوق بھی پیار، الفت، محبت اور عشق کی سرتاپا مظہر ہے، بالکل اُسی کی طرح۔ جو شخص فطرت سے لگائو نہیں رکھتا، اُس کی مثال راستے کے اُس پتھر کی سی ہے جو کسی سبب سے اپنی جگہ پر ہمیشہ کے لیے گڑ گیا ہو اور اُسے انقلابات یا امتدادِ زمانہ سے بھی کوئی فرق نہ پڑتا ہو....ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ پتھروں کی ہیئت ہی تبدیل نہیں ہوتی، ان میں احساسات بھی منقلب ہواکرتے ہیں۔ اس بابت یہ ہیچ مدآں بہت پہلے ہی لکھ چکا ہے۔ فی الحال اتنا اشارہ کافی ہے کہ ہمارے رسول ، رسول ِکائنات (ﷺ) نے ایک موقع پر جبل ِ اُحُد کے متعلق اپنی محبت اور خود پہاڑ کی سرکاردوعالم (ﷺ) سے الفت کا ذکرفرمایا تو دوسرے موقع پر جبل سلع کے متعلق دوطرفہ نفرت کا بیان بھی فرمادیا تھا، نیز سنگ مرمر کے بارے میں یہ تحقیق پرانی ہے کہ اس پر انسانوں کی طرح موسمی تغیرات اثر کرتے ہیں۔

حسن فطرت کے نظارے فقط انسان، چرندپرند اور کو ہ ودَمَن تک محدود نہیں، زمین کی تہہ درتہہ، سمندر کی گہرائی اور آسمان کی وسعت، حتیٰ کہ خلاء میں بھی اہل نظر کو اُس ہستی کی قدرت اور اپنی مخلوق سے براہ راست تعلق کے جلوے نظر آتے ہیں، شرط یہ ہے کہ دیکھنے والی آنکھ اور محسوس کرنے والا دل ہو۔ اسی کتاب میں شامل {نیز مطبوعہ ماہنامہ آنکھ مچولی بابت دسمبر سن انیس سو پچانوے}، چھوٹے بچوں کے لیے راقم کی یہ تحریر بعنوان ''کالو، چھوٹو اور امّاں جی'' (بطخے=بطخ کے بچے) دیکھئے اور اس کی صداقت پر ایمان لاتے ہوئے سوچئے کہ اگر کسی سے ایک بار بھی محبت کا اظہار کیا جائے تو جواب میں محبت کیسے ملا کرتی ہے۔ مجھے آج کالو، چھوٹو اور اماں جی بہت یاد آرہے ہیں (اور اُن کے چوتھے ساتھی کو آپ گم نام سمجھیں)....نجانے اس وقت کہاں ہوں گے....کالو تو اَب بہت بڑا ہوگیا ہوگا اور چھوٹو کی شرارتیں بھی بڑھ گئی ہوں گی اور اماں جی؟ اماں جی تو کھاکھاکر گول گپا پہلے ہی ہوچکی تھیں، اب تو اُن سے چلا بھی نہ جاتا ہوگا۔ مجھے یاد جب مَیں چھوٹو کو اپنی چائے یا دودھ (وہ بھی شہد ملے) کی پیالی سے تھوڑا سا حصہ دینے کے لیے چھت پر جاتا تو وہ پیالی دیکھ کر ایسے دوڑتا کہ بے اختیار ہنسی آجاتی....یہی حال کالو، اماں جی اور اُن کے چوتھے ساتھی کا بھی ہوتا...ہا ں ایک اہم بات ! شروع شروع میں جب یہ لوگ ہمارے گھر آئے تو اِن کی بھاگ دوڑ میں اماں جی سب سے آگے ہوتی تھیں۔

یعنی اُن کی لیڈر بن جاتی تھیں، پھر کبھی کالو یہ فرض انجام دیتا، مگر جُوں جُوں چھوٹو نے پَر پُرزے نکالے وہی سب سے آگے رہنے لگا، گویا اُن کا لیڈر بن گیا....تو کیا ہوا؟ بھئی آخر آپ کے نانانانی کی جگہ آپ کی امی نے، دادادادی کی جگہ ابو نے لی اور آپ بڑے ہوکر اِن سب کی جگہ لیں گے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر یہ چھوٹو، کالو اور اماں جی کون تھے؟ تو ننھے دوستو! پریشان نہ ہوں....ابھی کچھ دیر میں معلوم ہوجائے گا۔ وہ پہلے چار تھے، پھر دو (۲) رہ گئے ....اب حال یہ تھا کہ سب گھر والے اِن کی صبح و شام خدمت میں لگے رہتے تھے...چھوٹا ہونے کی وجہ سے چھوٹو تو سب کی آنکھ کا تارا تھا........ویسے بھی بہت ہوشیار تھا....سب اشارے سمجھتا تھا۔ اُسے کھانے کے اوقات بھی یاد تھے، مگر اُس سمیت ان سب کی عاد ت اِس معاملے میں خراب تھی........کبھی تو گھنٹوں بھوکے پیاسے رہتے، مگر اکثر وقت کا لحاظ کئے بغیر (کبھی تو رات کے بارہ /ایک بجے) کھانے پینے کے لیے شور مچاتے تھے، پھر پسند کے معاملے میں بھی بہت منفرد تھے، جو چیز پسند نہ آئے، اُسے چکھ کر چھوڑدیتے اور مُنھ کو ایسے جھٹکے دیتے جیسے کوئی زہر کھلارہا ہو....پھر چُپ چاپ اپنے ''گھر'' کی طرف چل دیتے یا کبھی چیخ چیخ کر آسمان سَر پر اٹھالیتے کہ ''بھئی یہ کیا کھِلا رہے ہو؟''........اچھا ایک بات اور ........کبھی اُن کو کوئی چیز زیادہ پسند آجاتی تو ہماری شامت آجاتی ........اب ہم دئے جارہے ہیں اور وہ کھائے جارہے ہیں........لَڑلَڑکر کھارہے ہیں اور گراتے بھی جارہے ہیں۔

اُنھیں پراٹھا، گوشت اور آلو بہت پسند تھے۔ یہ چاروں نہانے کے لیے پوز[Pose]تو بہت دیتے مگر جب ٹَب میں لِٹا کر نہلائو تو بہت گھبراتے ، دوڑتے بھاگتے جیسے پانی میں دَم گُھٹتا ہو۔ جب کبھی یہ سب مل کر دوڑتے تو اکثر اُن کا توازن خراب ہوجاتا اور کوئی نہ کوئی لڑھک کر اُلٹا ہوجاتا........اگر کوئی انھیں شرارت میں دبوچ کر اُلٹا کردیتا تو انھیں دوبارہ سیدھے ہونے میں وقت لگتا........آسمان پر کوئی پرندہ دیکھ لیتے تو ایک لمحے کو گردن موڑکر اُوپر دیکھتے، پھر، چکراکر دوڑ لگاتے اپنے ٹھکانے کی طرف........کالی تھیلی یا ایسی کوئی چیز دیکھ لیتے تو بھی یہی حال ہوتا۔ اب کسی کی تفریح ہوتی اور اُن کا خون خشک ہوجاتا........یوں لگتا کہ اَب اُن کا ہارٹ فیل [Heart fail]ہوجائے گا، ایسے میں اُنھیں اُن کے گھر سے نکالنا بہت مشکل ہوتا........وہ کبھی کسی بات پر تنگ ہوتے تو کاٹنے کی کوشش بھی کرتے اور کسی سے تھپڑکھاتے تو اُداس شکل بنا کر گھر کی طرف دوڑ جاتے تھے۔ ہاں تو ساتھیو! اَب تو بُوجھ لیا ہوگا آپ نے؟ نہیں؟؟ اچھا بھئی آپ کو ایک اشارہ دیتا ہوں........قیں قیں قیں........کیا سمجھے؟؟ بطخے یعنی بطخ کے بچے[Ducklings]۔ بھئی مَیں اپنے پالتو بطخوں کی بات کررہا تھا جو اَب ہمارے گھر میں نہیں رہتے ........بہت پیارے بھولے بھالے تھے، بس گندگی زیادہ کرتے تھے، اس لیے انھیں نکال دیا گھر سے (بازار میں بیچ دیا)۔ اب اس پر آپ کچھ بھی کہیں، بات یہ ہے کہ حسن فطرت کے یہ مظاہر اور عجائب، فقط عالَم حیوانات کی حد تک ہی دیکھیں تو جابجا آپ کی عقل دنگ کرنے والے واقعات دیکھنے اور سننے کو مل جاتے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہمارے بزرگ صحافی عبداللہ طارق سہیل نے خاکسار کو Twitterکا یہ ربط [Link]بھیجا جسے دیکھ کر کافی حیرت ہوئی۔ ایک ہشت پا[Octopus]کو کسی گھرانے نے ایک جگہ پھنسا ہوا دیکھ کر رہا کیا اور اُس کی سمندر میں واپسی کی راہ ہموار کی اور اگلے دن وہ پلٹ کر اُن کا شکریہ ادا کرنے، ساحل پر آیا:

https://animalchannel.co/octopus-thanks-family
-saved/?utm_source=poems&utm_medium=
facebook&utm_campaign=animals
اس طرح کے عقل کو ششدر کردینے والے واقعات دیکھ کر بھی کوئی ، خدا کی خدائی کا مُنکِر ہو، یہ سمجھتا اور کہتا ہو کہ یہ کائنات ازخود ، معرض وجود میں آئی اور سب کچھ کسی خود کار[Automatic] سائنسی نظام کے تحت چل رہا ہے تو اُس کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں