آجاؤ افریقا
وقت زمبابوے کو مغربی ملکوں اور ہمسایہ افریقی ملکوں سے مالی امداد کی اور ہنر مند افراد کی ضرورت ہے
ایک زمانہ تھا جب ' براعظم افریقہ ' سیاہ براعظم کہلاتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب رہوڈیشیا نسلی منافرت کی بدترین مثال تھا۔ ان دنوں فیضؔ صاحب کی یہ نظم نوجوانوں میں بہت مقبول ہوئی تھی جس میں انھوں نے براعظم افریقا کے تمام قیدی اور بدحال لوگوں سے کہا تھا۔
آجاؤ' میں نے سن لی ترے ڈھول کی ترنگ
آجاؤ' مست ہوگئی میرے لہو کی تال۔۔۔
'آجاؤ افریقا'
آجاؤ' میں نے دھول سے ماتھا اٹھا لیا
آجاؤ' میں نے چھیل دی آنکھوں سے غم کی چھال
آجاؤ' میں نے درد سے بازو چھڑا لیا
آجاؤ' میں نے نوچ دیا بے کسی کا جال
'آجاؤ افریقا'
پنجے میں ہتھکڑی کی کڑی بن گئی ہے گرز
گردن کا طوق توڑکے ڈھالی ہے میں نے ڈھال
''آجاؤ افریقا''
چلتے ہیں ہرکچھار میں بھالوں کے مرگ نین
دشمن لہو سے رات کی کالک ہوئی ہے لال
''آجاؤ افریقا''
دھرتی دھڑک رہی ہے مرے ساتھ افریقا
دریا تھرک رہا ہے، تو بَن دے رہا ہے تال
میں افریقا ہوں، دھار لیا میں نے تیرا روپ
میں تو ہوں، میری چال ہے تیری ببر کی چال
''آجاؤ افریقا''
آؤ ببر کی چال
''آجاؤ افریقہ''
فیضؔ صاحب نے اپنی یہ مشہور نظم جنوری 1955 میں منٹگمری جبل کی سلاخوں کے پیچھے سے لکھی تھی۔ ''آجاؤ افریقا'' افریقی حریت پسندوں کا نعرہ تھا۔ یہ نظم انھوں نے کسی ایک ملک کی آزادی پسند نوجوانوں کے لیے نہیں، افریقا کے تمام لڑاکوں اور جمہوریت کے متوالوں کے لیے لکھی تھی ۔ 55ء وہ مانہ تھا جب پاکستان میں کچھ لوگوں کو ملکی آزادی خطرے میں پڑتی محسوس ہورہی تھی اور وہ فوجی بوٹوں کی دھمک بہت دور سے آتی ہوئی سن رہے تھے اور یہی وہ دن تھے جب افریقی قوم پرست اپنی آزادی کی جدوجہد میں جٹے ہوئے تھے۔
رفتہ رفتہ وہ دن تمام ہوئے اور رہوڈیشیا، زمبابوے بنا اور اس کے قومی رہنما موگابے ایک خونیں انتخابی مہم جیت کر پہلے وزیراعظم بنے اورکئی برس بعد وہ زمبابوے کے صدرکے عہدے پر فائز ہوئے۔ ان کی پہلی شریک حیات نے زمبابوے کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا لیکن ان کی موت کے بعد موگابے نے دوسری شادی کرلی۔ یہ شادی اس لحاظ سے ان مل بے جوڑ تھی کہ ان کی دوسری بیوی ان سے عمر میں بہت کم تھیں اور اسی حسابوں ان کے شوق بھی دیگر تھے۔
زمبابوے کے لوگوں کے دلوں میں ایک ایسی عورت کا احترام تھا جو ان کے لیے 'ماں' کی حیثیت رکھتی تھی اور ان کے ہر دکھ سکھ میں ان کا ساتھ دیتی تھی، جبکہ ان کی نئی 'ماں' کو اعلیٰ لباس، مہنگے زیوروں اور عمدہ خوشبوؤں کا شوق تھا۔ عمرکے تفاوت نے انھیں صدر موگابے کی آنکھوں کا تارا بنادیا تھا اور وہ ان کی کہی ہوئی ہر بات پر آمنا و صدقنا کہتے تھے۔
1980 میں صدر موگابے جب فاتحانہ انداز میں زمبابوے کے دارالحکومت میں داخل ہوئے تھے تو ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ سیاہ فام آبادی نے دیوانہ وار ان کا استقبال کیا تھا۔ ایک سفید فام صحافی جو اس روز وہاں موجود تھا، اس کا کہنا ہے کہ اس روزکے جوش و خروش میں اور اب جب لوگ صدر موگابے کے خلاف نعرے لگا رہے تھے، کوئی بنیادی فرق نہیں تھا، سوائے اس کہ 1980 میں زمبابوے کے دارالحکومت کا نام سالبسری تھا جو اب تبدیل ہوکر ہرارے ہوچکا ہے۔
یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ وہ رہنما جو لوگوں کی محبت اور جوش و ولولے کے شانوں پر سوار آتے ہیں، آخرکار وہ بھی اقتدارکی بھول بھلیوں میں اس طرح گم ہوجاتے ہیں کہ آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتے ہیں تو خود کو پہچان نہیں پاتے۔ یہی کچھ صدر موگابے کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ عوام کی بھاری تعداد ان پر جاں نثار کرتی تھی لیکن صدر موگابے کو بھی اقتدارکی ہوس چین سے نہیں بیٹھنے دیتی تھی۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے کسی بھی مد مقابل کو جیتا نہیں چھوڑا، وہ یا کسی حادثے میں مارا جاتا تھا یا آسمان کا رخ کرنے کے لیے اس کے بارے میں کوئی نئی ترکیب نکالی جاتی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انھیں ''مگرمچھ'' کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہوکہ مگر مچھ اپنے شکار کو ایک ہی نوالے میں ہڑپ کر جاتا ہے اور شاید یہ بھی ہوکہ وہ اپنے شکارکی میت پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوں۔ ان ہی وجوہ کی بناء پر ان کے مدمقابل منانگا گوا ملک سے فرار ہوگئے اور انھوں نے قریبی ملک میں پناہ لے لی۔
منانگا گوا اب واپس آچکے ہیں اور صدر موگابے کی جگہ اقتدار سنبھال چکے ہیں۔ ان کی پارٹی کی اکثریت ان کے ساتھ ہے لیکن ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو کہیں دور سے مارشل لا کے قدموں کی دھمک سن رہے ہیں۔ بالکل وہی منظر نامہ ہے جو 1958 میں اقتدار کے بھوکے اور ہمارے ملک کے پہلے صدر اسکندر مرزا کے جانے اور راج سنگھاسن پر جنرل ایوب خان کے بیٹھنے کا ہوا تھا۔
ہم نے وقفے وقفے سے آمریت کے شکنجے کا ذائقہ چکھا ہے جبکہ زمبابوے والوں پر یہ افتاد مسلسل رہی۔ ایک مغربی اخبار نے اسی صورت حال کو یوں بیان کیا کہ صدر موگابے کا چہرہ ہر دفتر، ہر بینک، ہر شاہراہ اور ہر عمارت کی دیواروں سے جھانکتا ہوا نظر آتا تھا۔ زمبابوے وسائل اورافرادی قوت کے حوالے سے ایک ایسا ملک تھا جو اپنے اندر لاتعداد امکانات اور شاندار مستقبل رکھتا تھا۔
صدر موگابے رخصت ہوچکے ہیں لیکن زمبابوے کے عوام جانتے ہیں کہ وہ اپنے پیچھے جو ظالمانہ اور سفاکانہ نظام چھوڑ گئے ہیں، اس کا خاتمہ نہیں ہوا ہے۔ گلیوں اور بازاروں میں سرمستی کے عالم میں رقص کرتے ہوئے نوجوان اس حقیقت سے واقف ہیں اور اسی لیے وہ آنے والے دنوں کے بارے میں فکرمند بھی ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ تمام مسائل کے باوجود اس وقت بھی ان کا ملک، افریقا کے کئی دوسرے ملکوں کی نسبت زیادہ تعلیم یافتہ اور زیادہ ہنر مند ہے۔ اس وقت زمبابوے کو مغربی ملکوں اور ہمسایہ افریقی ملکوں سے مالی امداد کی اور ہنر مند افراد کی ضرورت ہے جو بہت آسانی سے زمبابوے کو ایک بار پھر سے قوموں کی برادری میں اہم مقام دلا سکتے ہیں۔
یہاں یہ دلچسپ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ سابق صدر موگابے کی بیوی گریس منظر سے غائب ہیں۔ وہ کہاں گئیں، زمبابوے میں ہیں یا کسی قریبی ملک میں پناہ لے چکی ہیں، اس بارے میں کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ ایمرسن منانگاگوا جو اب سے پہلے نائب صدر تھے اب زمبابوے کے صدر کا عہدہ سنبھالیں گے لیکن سابق صدر موگابے اپنے حریفوں سے یہ وعدہ لے چکے ہیں کہ وہ جلاوطن کے طور پر زندہ رہنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے اور زندگی کی آخری سانسیں زمبابوے کی سرزمین پر ہی لینا چاہتے ہیں۔ انھوں نے متعلقہ اہم اور بااثر افراد سے یہ ضمانت لی ہے کہ ان کی زندگی میں اور ان کی موت کے بعد ان کی چہیتی بیگم گریس کو کچھ نہیں کہا جائے گا اور ان کے تمام اہل خانہ بہ حفاظت زمبابوے میں زندگی کرسکیں گے۔
کرتے ہم بھی یہی ہیں لیکن کسی کو بھی ایسی ضمانتیں نہیں دیتے۔ ہاں اسکندر مرزا اور ناہید مرزا کے ساتھ ایسا نہیں ہوا تھا۔ شاید میر جعفر کے جرائم اسکندر مرزا کا تعاقب کررہے تھے جو ان کے پڑ پوتے تھے اور جن کی آخری عمر لندن میں نہایت افلاس کے ساتھ گزری۔