پیرس 2017 آخری حصہ
اس بار اتفاق سے میں وہ جگہ ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگیا۔
اگلے دن صبح سمن شاہ اور ان کے احباب کے ساتھ برنچ کا پروگرام تھا لیکن ایک تو فاصلے اور ٹریفک کی وجہ سے آنے میں ایک گھنٹہ لیٹ ہوگئیں اور دوسرے برنچ کا وینیو بھی خاصے فاصلے پر تھا جس پر مستزاد ان کا جی پی ایس اور اس کی رہنمائی تھی اور اگر میاں طیب اپنے موبائل پر گوگل کی مدد سے شریک سفر نہ ہوتے تو شاید اس لنچ کا وقت بھی گزر جاتا جو برنچ کا مخصوص دورانیہ ختم ہو جانے کے باعث ایک قریبی ریستوران میں کیا گیا۔
اس سارے عرصے میں خالد مسعود حسب عادت محفل گرمانے کے لیے ہلکی پھلکی، شرارتی اور طنز و مزاح سے بھر پور باتیں کرتا رہا جن میں سے کچھ پر سمن شاہ نے بعد میں ایک پیغام کے ذریعے ناگواری کا اظہار کیا جس سے اندازہ ہوا کہ پروگرام کی کامیابی کے باوجود ان کی بدگمانیاں ابھی تک ختم نہیں ہوئیں۔ سو دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ کرے کہ ہمارے دوست اور ترقی یافتہ قوموں کی طرح مل جل کر اور خوشدلی کے ساتھ ایک دوسرے کو برداشت اور تسلیم کرتے ہوئے زندگی گزارنے کا ڈھب سیکھ سکیں کہ اسی میں ہم سب کا بھلا ہے۔
پاکستان کا سفارت خانہ پیرس کی مشہور عام سڑک شانزے لیزے کے بالکل پہلو میں واقع ہے اور اس کا وہ ہال ہماری آمد سے قبل ہی تقریباً بھر چکا تھالیکن جب ہم سفیر محترم معین الحق کے ساتھ کچھ دیربیٹھنے اور کچھ مشترکہ رشتوں، رابطوں اور ملاقاتوں کی یاد تازہ کرنے کے بعد اس میں داخل ہوئے تو وہاں سچ مچ دیار غیر میں گھر کاسا ماحول بن چکا تھا۔
تین دن بعد آنے والے علامہ اقبال کے یوم پیدائش کے حوالے سے پیرس کونسلر قمر بشیر اور ان کے ساتھیوں نے موقع کی رعائت سے اس تقریب کو یوم اقبال کا ایک اضافی رنگ بھی دے رکھا تھا۔ چنانچہ ابتدائی ایک گھنٹے میں سفارتی عملے کی رکن عزیزہ اقراء نے اقبال کے کام اور کلام کے حوالے سے ہم دونوں یعنی خالد مسعود اور مجھ سے کچھ سوالات کیے۔
بیچ بیچ میں بہانے سے ہمارا تعارف کرانے کے ساتھ ساتھ ہمارا کلام بھی سنا جب کہ سفیر محترم نے بڑے ادبی انداز میں استقبالیہ اور تہنیتی کلمات کہے۔ آخر میں کچھ مقامی شعرا سے ان کا کلام بھی سناگیا اور یوں یہ پر لطف محفل اپنے اختتام کو پہنچی۔ تمام سامعین کے لیے ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا۔
ہم نے یہ وقت احباب اور مداحین کے ساتھ تصویریں اور سیلفیاں وغیرہ بنوانے میں گزارا کہ ڈنر کے لیے ہم ممتاز ملک صاحب سے وعدہ کر چکے تھے جس کا انتظام انھوں نے ایک ایسے لبنانی ریستوران میں کررکھا تھا جنہوں نے اپنے مینیو میں شامل ہر ڈش ہمیں کھلانے کی قسم کھا رکھی تھی۔ ایاز اورعاکف غنی کی خوشی دیدنی تھی کہ ان کے بقول یہ پاکستانی سفارت خانے میں منعقد ہونے والا پہلامشاعرہ تھا اور یہ ان کی ادبی انجمن یعنی بزم سخن کے تعاون سے ممکن ہو سکا۔
میری لاہور واپسی کی فلائٹ رات آٹھ بجے کی تھی جب کہ عامر جعفری اور خالد مسعود کو وہاں سے اگلے دن بذریعہ ٹرین لندن جانا تھا۔ سو ملینئم ہوٹل سے چیک آؤٹ کرنے کے بعد ان کا سامان ممتاز ملک صاحب کے ہوٹل میں جو عین شہر کے وسط میں واقع ہے چھوڑا گیا اور ہم لوگ پیرس کے اس تاریخی گرجے نوترڈیم اور اس سے ملحقہ علاقے کی سیر کو نکلے جو ایفل ٹاور، محراب فتح، شانزے لیزے اور لوور کے عظیم میوزیم کی طرح اس بے مثال تاریخی اور تہذیبی شہر کا ایک اہم سیاحتی مرکز ہے۔
گرجے کے داخلی دروازے کے بائیں جانب وہ راستہ ہے جو مختلف ریستورانوں اور سووینئر شاپس سے گھرے ہوئے اس کھلے احاطے کی طرف کھلتا ہے جہاں فرانس سمیت قدم قدم پر مختلف رنگوں نسلوں اور قومیتوں سے تعلق رکھنے مصور اپنی دکانیں، گیلریاں اور اوپن اسٹوڈیو سجائے بیٹھے ہیں۔ جن میں کچھ ایسے بھی ہیں جو دس ڈالر اور دس منٹ میں کھڑے کھڑے آپ کا ایسا باکمال سکیچ بنا دیتے ہیں جو عمدہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس وجہ سے اور زیادہ قیمتی ہو جاتا ہے کہ یہ موماخت کے علاقے میں بنایا گیا تھا۔
1984ء کے چند گھنٹوں کے قیام کے بعد میں چوتھی بار اس علاقے میں آیا تھالیکن کسی نہ کسی وجہ سے اس کافی ہاؤس کو تلاش کرنے میں ناکام رہا تھا جہاں اس پہلے سفر کے دونوں مرحوم ساتھیوں جمیل الدین عالیؔ اور پروین شاکر کے ساتھ کافی کا وہ تاریخی کپ پیا گیا تھا جس کا تذکرہ میرے سفرنامے ''شہر در شہر'' میں تفصیل سے درج ہے۔ اس بار اتفاق سے میں وہ جگہ ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگیا۔
اگرچہ پرانے فرنیچر کی ترتیب بدلی ہوئی تھی مگر میں نے اندازے سے وہ جگہ پہچان لی جہاں ہم لوگ بیٹھے تھے تو کچھ وہاں بیٹھ کر آنکھیں بند کر لیں اور اس گزرے ہوئے وقت کو کسی حد تک پھر سے گزارنے کی خوشگوار حیرت سے لطف اندوز ہوا۔ رب کریم ہمارے سب پیاروں کی روحوں کو اپنی پناہ اور دامان رحمت میں رکھے۔