پاک ٹی ہائوس کی واپسی

مگر ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ اب جب ٹی ہائوس دوبارہ کھلا ہے تو زمانہ کتنا بدل چکا ہے


Intezar Hussain March 10, 2013
[email protected]

تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آ گیا۔ لیجیے وہ باب پھر کھل گیا جس کا نام پاک ٹی ہائوس ہے۔ اس کا بند ہو جانا بھی ایک واقعہ تھا۔ کتنے سالوں تک بند رہنے کے بعد اب اس کا کھلنا بھی ایک واقعہ ہے۔ اس کے بند ہونے کی خبر اس رنگ سے پھیلی اور دور دور تک گئی جیسے لاہور شہر کے ساتھ کوئی بڑا حادثہ گزر گیا ہے۔ حادثہ تو وہ تھا۔

مگر سیاسی حادثے جو اب تک اس شہر اور اس ملک کے ساتھ گزرتے رہے، یہ اس سے بالکل مختلف قسم کا حادثہ تھا۔ اسے کلچرل حادثہ کہیے۔ جب یہ خبر بی بی سی سے بھی نشر ہو گئی تو یہ بین الاقوامی نوعیت کی بڑی خبر بن گئی اور شہر کے وہ حلقے بھی جو اس چھوٹے سے چائے خانے کو غائبانہ بھی کم کم ہی جانتے تھے یا شاید کافی ہائوس کے بند ہو جانے کے بعد یہ کوچہ ہی ان کے لیے اپنے معنی کھو چکا تھا، فکر مند نظر آنے لگے کہ یہ واقعہ کیونکر رونما ہوا۔

مگر کچھ ادیب مستقل اس تگ و دو میں تھے کہ کسی صورت یہ چائے خانہ پھر آباد ہو جائے۔ عدالتوں کے پھیرے لگاتے لگاتے شہر کے حکام تک بھی رسائی ہو گئی اور پھر یوں ہوا کہ صوبائی وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو خیال آیا کہ شہر کے تندور اپنی جگہ اور سستی روٹی کا خیال اپنی جگہ اور میٹرو بس کا منصوبہ اپنی جگہ مگر کیا مضائقہ ہے کہ وہ جو شہر کا ایک چائے خانہ جس کا بند ہو جانا ادیبوں کے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے، اس کے بھی دوبارہ کھلنے کا بندوبست ہو جائے۔

تو کب سے سن رہے تھے بلکہ آرٹس کونسل میں بیٹھ کر عطاء الحق قاسمی بار بار مژدہ سنا رہے تھے کہ ٹی ہائوس اب کھلا اور کھلا۔ اور ایک دن وہ واقعی کھل گیا۔ اس طرح کھلا کہ باقاعدہ افتتاحی تقریب ہوئی۔ کتنے ادیب یہاں جمع تھے، کتنے اخباری نمایندے، کتنی شہر کی نمایندہ شخصیتیں، کتنی میڈیا کی توپیں آتی گئیں اور ٹی ہائوس بھرتا گیا اور پھر میاں نواز شریف آئے اور انھوں نے مختصر کلمات کے ساتھ ٹی ہائوس پر خوشی کا اظہار کیا۔ ان کے حساب سے میٹرو بس کے بعد یہ موجودہ صوبائی حکومت کا دوسرا بڑا کارنامہ یہ تھا۔

یہ ساری خوشی اپنی جگہ اور اس کارنامے پر فخر اپنی جگہ۔ مگر ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ اب جب ٹی ہائوس دوبارہ کھلا ہے تو زمانہ کتنا بدل چکا ہے اور اس کوچے کی شکل کیا سے کیا بن چکی ہے۔ ہم نے لاہور میں اس کوچے میں قدم رکھا تھا اور اس چائے خانے میں جو اس وقت انڈیا ٹی ہائوس تھا چائے پی تھی۔ مگر جلد ہی ہم نے دیکھا کہ انڈیا ٹی ہائوس کا بورڈ اتر چکا ہے۔ اب وہ انڈیا ٹی ہائوس کے جنم کو تیاگ کر پاک ٹی ہائوس بن چکا ہے ا ور حلقۂ ارباب ذوق کی ٹولی قیوم نظر کی قیادت میں اتوار کی اتوار حلقہ کے جلسے سے نبٹ کر وائی ایم سی اے سے نکلتی ہے۔

یہاں چائے کی میز پر اکٹھی ہوتی ہے تو کیا حلقہ والوں کو ٹی ہائوس کے پہلے آباد کار سمجھا جائے۔ مگر ادھر چار قدم کے فاصلہ پر انڈیا کافی ہائوس بہت شاد آباد تھا اور اس کے برابر چینیز ریستوران۔ مگر جلد ہی ٹی ہائوس بھی اتنا ہی شاد آباد نظر آنے لگا جتنا کافی ہائوس تھا۔ اگر ادھر کافی ہائوس وکیلوں، صحافیوں اور نوخیز مصوروں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا تو ادھر ادیب جمع ہوتے چلے جا رہے تھے۔

جب ترقی پسند تحریک سرکاری عتاب میں آئی اور انجمن ترقی پسند مصنفین جس کے جلسے دیال سنگھ لائبریری میں ہوا کرتے تھے، تتر بتر ہو گئی تو وہاں کے اجڑے ہوئوں نے ادھر کا رخ کیا۔ سب سے پہلے صفدر میر ادھر آئے اور اس شان سے آئے کہ جلد ہی حلقۂ ارباب ذوق کے جوائنٹ سیکریٹری بن گئے اور ٹی ہائوس میں شاد آباد نظر آنے لگے۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزوں نے رنگ پکڑا۔ پھر عارف عبدالمتین نمودار ہوئے۔ پھر ظہیر کاشمیری دندناتے ہوئے آئے اور ٹی ہائوس میں بیٹھ کر گرجنے برسنے لگے اور احمد راہی اس طرح آئے کہ جیسے بس اب یہیں شب و روز بسر کرنے ہیں۔

اور لیجیے ادھر کافی ہائوس ایک انقلاب سے دوچار ہو گیا۔ انڈیا کافی ہائوس ختم۔

اب وہ زیلن کافی ہائوس بن گیا۔ خیر زیلن کافی ہائوس میں بھی رونق رہی۔ مگر اب صورت یہ تھی کہ کتنے نوخیز آرٹسٹوں کا طور یہ تھا کہ ایک قدم کافی ہائوس میں دوسرا قدم ٹی ہائوس میں۔ جیسے انور جلال شمزا کہ اب وہ آدھے ادب میں تھے آدھے نئی مصوری میں اور ابھی کافی ہائوس میں تھے اور ابھی ٹی ہائوس میں۔ سب سے بڑھ کر شاکر علی جو اب کافی ہائوس میں کم اور ٹی ہائوس میں یاران ادب کے بیچ زیادہ نظر آنے لگے تھے۔

آس پاس تعلیمی ا دارے خوب پھل پھول رہے تھے۔ گورنمنٹ کالج، اورینٹل کالج، نیشنل کالج آف آرٹس، گورنمنٹ کالج میں دو استاد قیوم نظر اور صفدر میر کا طور یہ تھا کہ وہ آتے تو انگلی پکڑ کر ان کے چہیتے شاگرد بھی ٹی ہائوس میں آن براجتے۔ ادھر اورینٹل کالج سے عبادت بریلوی ٹی ہائوس کی طرف آتے تو ان کے پیچھے پیچھے ان کا اِکا دُکا شاگرد بھی یہاں آن موجود ہوتا۔ یوں ادب اور دانشوری کے نام پر رنگ رنگ کے دانے یہاں جمع ہوتے چلے گئے اور ہاں جب پیپلزپارٹی کا ظہور ہوا تو ادب و دانشوری کے نام پر اس کے گل بوٹے ٹی ہائوس میں بھی نظر آنے لگے۔ تو لیجیے اب ٹی ہائوس میں ادب کے پردے میں سیاسی نعرے بھی سنائی دینے لگے۔ تو صورت آخر کے تئیں یہ ٹھہری کہ؎

آباد ایک گھر ہے جہانِ خراب میں

ویسے تو اس رنگ کے ساتھ یہ گھر ضیاء الحق کے زمانے میں آباد رہا۔ لیکن گھر کتنا ہی شاد آباد ہو سدا آباد تو نہیں رہتا۔ اسباب ویرانی کسی نہ کسی صورت پیدا ہو جاتے ہیں۔ سو یہاں بھی پیدا ہوئے۔ شاید پورا شہر ہی بدل رہا تھا۔ یہاں کمرشلائزیشن کے وفور میں اس کا کلچرل رنگ پھیکا پڑتا چلا جا رہا تھا۔ مال روڈ اب وہ مال روڈ نہیں رہی تھی اور ریستوران جہاں دانشوروں، صحافیوں، ادیبوں کی ٹولیاں گرما گرمی سے بحثیں کرتی نظر آتی تھیں۔ زیلن کافی ہائوس، چینیز ریستوران، ڈینز، شیزان، اسٹینڈرڈ، لارڈز باری باری سب ہی بند ہو گئے۔ ٹی ہائوس کا چراغ بھی آخر کب تک ٹمٹماتا رہتا۔ جب اس کے مالک کے دماغ میں سمائی کہ چائے خانے سے بڑھ کر ٹائروں کے کاروبار میں زیادہ منافع ہے تو بس ٹی ہائوس کی بربادی کا وقت آن پہنچا؎

آخر اجاڑ دینا اس کا قرار پایا

تو اب ٹی ہائوس پھر سے کھل تو گیا ہے مگر زمانہ اب اور ہے۔ شہر کا رنگ اور اس کے کوچے کا ڈھنگ بدل چکا ہے۔ تو وہ پرانے عشاق تو چلے گئے؎

اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

انھیں ڈھونڈنا بے سود ہے۔ پرانے عشاق تو گئے۔ نئے عشاق ڈھونڈ کر نکالیے۔ اور نئے چہروں کا انتظار کیجیے۔ وہ ٹی ہائوس اپنی روایات کے ساتھ رخصت ہو گیا۔ اب یہ نیا پاک ٹی ہائوس ہے، مگر؎

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

پاک ٹی ہائوس کے نام کی اپنی ایک کشش ہے پھر وہ تشنگان ادب بھی تو ہیں جو ٹھکانا نہ ہونے کے باعث شہر میں بھٹکتے پھرتے ہیں، پھر اردگرد تعلیمی ادارے تو اب بھی موجود ہیں اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں وہاں نئے نئے مضامین کا بیشک چرچا ہو مگر دل و دماغ تخلیقی کنمناہٹ سے تو باز نہیں رہ سکتے۔ ؎

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں