لیڈر کون

لیڈر ہم ہی ہیں، کمان اپنے ہاتھوں میں رکھے پاکستانی قوم تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔



لگتا یوں ہے کہ پاکستانی سیاست دانوں کے دن گنے جا چکے ہیں، کیونکہ ایک ''جہاں دیدہ'' کالم نگار اور ٹی وی اینکر کے مطابق نااہل شدہ وزیراعظم کے پائے کا کوئی سیاست دان ملک میں موجود نہیں ہے۔ ہر چوتھا کالم وہ ان کی ان خوبیوں کے بارے میں لکھتے ہیں جن سے وہ خود واقف نہیں ہے اور محترم کالم نگار کے توجہ دلانے کے باوجود اپنی ان خوبیوں سے کام لینے کو تیار نہیں۔ اگر وزیراعظم نااہل شدہ ان کو اپنا مشیر رکھتے تو شاید ملک کا اور وزیراعظم نااہل شدہ کا یہ حال نہ ہوتا۔

ہمارے یہ مہربان صحافی جن کو میں جہاں دیدہ لکھ چکا ہوں کہ یہ حقیقت ہوگی، کیونکہ وہ خود تحریر کرتے ہیں اور اچھا لکھتے ہیں، مستنصر حسین تارڑ کے بعد اب ان کی تحریر میں بھی لطف ہے، مگر لطف یہ ہے کہ لگتا ہے کہ یہ بھی شاید نااہل کو نااہل ماننے کو تیار نہیں۔

مستنصر حسین تارڑ پر یاد آیا کہ 1977 میں لاہور ریڈیو اسٹیشن پر میں پروڈیوسر تعینات تھا اور اس وقت سلیم گیلانی وہاں اسٹیشن ڈائریکٹر تھے۔ ایک شام میں نے دیکھا کہ مستنصر حسین تارڑ اسٹوڈیو جارہے ہیں۔ میں نے کسی کو بھیجا کہ انھیں بلا لاؤ، وہ آئے ڈیوٹی روم میں تو میں نے چائے آفر کی۔ وہ کہنے لگے ریکارڈنگ ہے، میں نے ناولوں کی تعریف کی، سفرناموں کے بارے میں پسند کا اظہار کیا، انھوں نے شکریہ ادا کیا، میں نے کہاکہ طویل عرصہ ہوگیا نیا سفر نامہ نہیں آیا، تو کہنے لگے جعفری صاحب پیسے جمع کررہا ہوں یہاں پروگرام بھی اس لیے کرنے آیا ہوں جمع ہوںگے تو نکلوںگا۔ شاید اس وقت ان کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ تو یہ ہوتے تھے سیاح جو زمین پر چل کر سفر کرکے زمینوں اور ان پر قائم آسمان کا حال لکھتے تھے۔

اب تو بہت آسانیاں ہیں، فاصلے سمٹ گئے، وسائل بڑھ گئے، تحریر کی چاشنی کم ہوگئی، شاید اس میں نیتوں کا بھی دخل ہے۔ یہ بات میں نے سوشل میڈیا پر نہیں کی ہے، یہاں لکھی ہے، منتخب لوگ پڑھیںگے اور سمجھیںگے بھی۔ بے کار کمنٹس سے یا فائدہ کہ بس میرا نام آجائے، ایف بی اور دوسرے اس قبیل کے سارے مقامات اب ریڈیوکا فرمائشی پروگرام ہوچکے ہیں، کم از کم دو ملکوں میں۔

خیر یہ تو سب کچھ قلم کا کمال ہے کہ ذہن سے رابطہ ہوا اور دنیا جہاں کے قصے یاد آگے اور بس قلم رواں، اگر احتیاط سے لکھنا ہے تو پھر وہ کسی کتاب کا پیش لفظ ہوگا کالم نہیں، یہ تو دریا ہے، سونے کے ذرے بھی اور خس و خاشاک بھی سب اس میں بہتا ہے۔ تو ملک میں سیاست دانوں کی کھوٹ ہے۔

یہ سب سیاست دانوں کا قصور نہیں ہے، عوام کا قصور ہے، انھوں نے برداشت کرکے ان لوگوں کو جو سیاست دان ہیں ہی نہیں تاجر اور وڈیرے ہیں، خود پر مسلط کرلیا ہے، ورنہ ایسی قوم نے ایوب خان کو رخصت کردیا کہ جو وہ پاکستان کے لیے کرگیا وہ کوئی اور نہ کرسکا اور میڈیا کو یاد کرنا چاہیے کہ انھیں قدم جمانے کا موقع بھی اس شخص نے دیا تھا جس کو اب وہ آمر کہتے نہیں تھکتے۔ سیاست دان بھی آپ کو آزاد نہ کرتے، اگر میڈیا کو یہ آزادی نہ ملی ہوتی تو NA-120 میں یہ نہ ہوتا۔ یہ تازہ ترین ہے، اگر PTI کے ووٹ بڑھے تو میڈیا کی وجہ سے اور اگر کلثوم نواز ملک میں نہ ہوتے ہوئے ایک بار پھر ہمدردی کے ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں، تو یہ بھی میڈیا کا کمال ہے۔

یہ کمال میڈیا اس سے پہلے بے نظیر کے معاملے میں دکھا چکا ہے، جس کا فائدہ آصف زرداری نے اٹھایا، خود صدر بن بیٹھے ملک کے، ''بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا'' کون کیا ہوگیا اور کیا سے کیا ہوگیا، اب یہ ووٹ دوسری پارٹی نے بھی لے کر حساب برابر کردیا ہے مگر کلثوم نواز کی جان بھی بچ گئی، مسلم لیگ کی سیٹ بھی، عزت نہ رہی تو کیا ہوا، وہ کہتے تھے یہ لوگ مجھے نکالیںگے، ان کے کہنے پر میں استعفیٰ دوںگا، جاؤ جاؤ یہ خواب تمہارا پورا نہیں ہوگا۔

کیا ہوا بے عزت ہوکر جانا پڑا، عزت گئی واپس نہیں آتی، دولت کا کیا ہے وہ بے وفا آج کسی کے پاس کل کسی کے پاس، ملک سے باہر آپ کیا ہیں؟ یہ بھی میڈیا نے دکھادیا، جو آمر کا دیا ہوا تحفہ ہے ملک کو، ملک میں آپ سے زیادہ باعزت کوئی نہیں، وہاں اپنا کوٹ بھی خود اس لیے کندھے پر ڈال کر رکھنا ہوتا ہے۔

ان جماعتوں نے خاندانی سیاست کی تجارت میں پاکستان کے عوام کو پیس کر رکھ دیا ہے، ایک میرا بیٹا یہ کردے گا، دوسرا میری بیٹی یہ کردے گی، کے سلوگن دے کر قوم کا بیڑہ غرق کررہے ہیں۔ قوم سے کسی کو دلچسپی نہیں ہے، اعتزاز احسن، بلاول کو چیئرمین مان رہے ہیں اور پیچھے چل رہے ہیں، یہ ہیں سیاست کی نیرنگیاں اور اس کا بی پارٹی ہے نااہل کی صاحبزادی کی نادیدہ حکمرانی اور سینئر ترین عہدیداروں کا ان کے آگے سر جھکانا۔

مال دنیا بہت عذاب ہے اور یہ آپ کی عزت کو بہا کر لے جاتا ہے، دونوں پارٹیوں کے سینئرز یہ اشنان کرچکے ہیں، اب سر جھکانے کے علاوہ کچھ بچا نہیں ہے، جائیدادیں، پلازہ، اقامے، سوئٹزر لینڈ اکاؤنٹ، دبئی، سعودی عرب، برطانیہ، پاناما، پاکستان کی عزت کا جنازہ نکالنے میں کیا کسر چھوڑی ہے۔ دنیا کہتی ہے قیمت بتاؤ ہم خرید لیںگے۔ گجرات کے مسلمانوں کے قاتل بھارت کے وزیراعظم نے بھارت کو کہاں پہنچادیا اور تم نے پاکستان کو گھٹنوں پر جھکادیا۔ واہگہ بارڈر کی تقریب پاکستانی فوج کے عزم کی نشانی ہے، اب یہی تقریب بچی ہے، اس میں نہ سیاست ہے نہ سیاست دان۔

عوام کو سوچنا چاہیے وہ کب تک سوتے رہیں گے، جب ان کا سارا مستقبل یہ سیاست دان اپنے خاندان کے فروغ کے لیے فروخت کردیں گے؟ فیصلہ کرنا ہوگا، مل کر ملک بچانا ہوگا، یہ باہر بیٹھ کر ملک کی تقدیر کے مالک بنے رہتے ہیں، یہ ملک تمہارے باپ دادا کا ہے، ان کے باپ دادا تو اس وقت بھی مزے میں تھے جب یہ ملک بن رہا تھا، عزتوں اور جانوں کی قربانیاں دی جارہی تھیں، یہ کہیں نہیں تھے، تمہارے باپ دادا تو راستوں پر پیدل پاکستان کا پرچم سنبھالے۔ اب جاگ جاؤ، پہلے غیروں سے لڑ کر پاکستان بنانا تھا، اب غیروں سے بدتر اپنوں سے لڑ کر پاکستان بچانا ہے۔ لیڈر ہم ہی ہیں، کمان اپنے ہاتھوں میں رکھے پاکستانی قوم تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں