سرکاری محکموں میں امتیاز کیوں
صوبائی خود مختاری کے نام پر متعدد وفاقی محکمے وفاق سے ختم کرکے صوبوں کو دے دیے گئے
پاکستان میں پہلے وفاق اور صوبوں میں ایک جیسے ہی محکمے ہوا کرتے تھے مگر آئین میں 18 ویں ترمیم کے بعد متعدد وفاقی محکمے ختم کردیے گئے اور بعض صوبوں کو دے دیے گئے اور صوبائی خود مختاری کے نام پر متعدد وفاقی محکمے وفاق سے ختم کرکے صوبوں کو دے دیے گئے، جن میں اہم محکمے، محکمہ بلدیات، تعلیم، صحت جیسے اہم محکمے شامل ہیں۔
ملک میں وفاق اور صوبوں کے بعد مقامی کونسلیں ہر دور میں موجود رہی ہیں، جنھیں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے ادارے قرار دیا جاتا ہے، جن کے لیے منتخب نمایندوں کو پہلے بی ڈی ممبر پھر کونسلروں کا نام دیا گیا، جن کی مدد سے میونسپل کارپوریشن، ضلع کونسلیں، میونسپل ٹاؤن، یونین کونسلوں اور یونین کمیٹیوں کے نام دیے جاتے ہیں، ان بلدیاتی اداروں کو لوکل کونسلیں کہا جاتا ہے جو صوبائی محکمہ بلدیات یا کمشنری نظام کے ماتحت ہوتی ہیں اور نچلی سطح پر منتخب ان اداروں کے اختیارات محدود رکھے جاتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان کو وی آئی پی کی حیثیت اور سرکاری مراعات حاصل ہیں۔
ان ارکان اسمبلی کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں قائم ہوتی ہیں۔ یہ ارکان اسمبلی آئین اور قوانین بنانے کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ مگر یہ دلچسپی بلدیاتی معاملات میں لیتے ہیں کیونکہ انھیں اپنے حلقہ انتخاب میں عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے نام پر ترقیاتی فنڈ فراہم کیے جاتے ہیں، جو ان کی مرضی کے مطابق خرچ ہوتے ہیں، جو اصل میں سیاسی رشوت ہوتی ہے، جس سے ارکان اسمبلی اپنے لوگوں کو نوازتے ہیں اور انھیں گھر بیٹھے معقول کمیشن باآسانی مل جاتا ہے۔
پہلے وفاق میں بھی محکمہ بلدیات ہوتا تھا اور بلدیات کی طرح وفاقی وزیر صحت اور تعلیم ہوتے تھے، اب مرکز میں صرف داخلہ کی وزارت ہے جس کے ماتحت ایف آئی اے، نادرا، نارا جیسے اہم ادارے ہیں۔ ان چاروں اداروں داخلہ، صحت، تعلیم اور بلدیات سے ہی عوام کا زیادہ واسطہ پڑتا ہے۔
وفاق سے بلدیات، تعلیم اور صحت کے محکمے صوبوں کو دیے جاچکے ہیں جس کی وجہ سے یہ تینوں شعبے تباہی کا شکار اور صوبائی حکومتوں کی کمائی کا اہم ذریعہ بنے ہوئے ہیں اور صوبوں میں آنے کے بعد یہ تینوں محکمے عوام کے مسائل حل کرانے کے بجائے مسائل بڑھا رہے ہیں اور سہولتوں کی فراہمی برائے نام اور معیار تباہ ہوچکا ہے۔ عوام کو ملک بھر میں سرکاری اسپتالوں اور اسکولوں سے کوئی خاص سہولت نہیں ملتی، یہ عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں اور عوام سرکاری اسکولوں کے بجائے اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھانے اور سرکاری اسپتالوں کے بجائے پرائیویٹ اسپتالوں اور نجی کلینکس سے علاج کرانے پر مجبور ہیں۔
بلدیات کے محکمے کا کام عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی ہے، مگر بڑے شہروں میں لوگوں کو اپنے علاقوں میں صفائی اور کچرا اٹھانے کا کام ماہانہ رقم دے کر نجی لوگوں سے لینا پڑ رہا ہے، کیونکہ بلدیاتی ادارے صرف اہم شاہراہوں کی صفائی اور کچرا اٹھانے پر توجہ دیتے ہیں۔ گٹر اور نالیاں بھی پیسے دے کر صاف کرائی جاتی ہیں۔ کچرادان کم ہونے سے لوگوں نے اپنی بچت کے لیے کچرا سڑکوں اور نالوں میں ڈالنا معمول بنا رکھا ہے۔ وفاق صوبوں سے بلدیاتی، تعلیمی اور صحت کے معاملات پر باز پرس کا اختیار نہیں رکھتا، جب کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔
امن و امان، قیمتوں پر کنٹرول، مہنگائی روکنے کی ذمے داری اب صرف صوبائی حکومتوں کی ہے اور وفاق اب ان تمام معاملات سے بری الذمہ ہوچکا ہے، جس سے عوام بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ محکمہ تعلیم، صحت اور بلدیات میں گھوسٹ ملازمین کی بھرمار ہے، ملازمتیں فروخت ہونے سے ان صوبائی اداروں میں کرپشن عروج پر ہے، محکمہ داخلہ کی طرح یہ تینوں محکمے ماضی کی طرح وفاقی میں بھی ہوتے تو صورتحال اتنی ابتر نہ ہوتی، جتنی اب ہے اور عوام بنیادی سہولتوں سے محروم کردیے گئے ہیں۔
وفاقی محکموں میں عوام کا زیادہ واسطہ شناختی کارڈ یا پاسپورٹ بنوانے کے لیے پڑتا ہے جہاں کارڈ اور پاسپورٹ جلدی نہیں بنتے بلکہ لائنوں میں گھنٹوں کھڑے رہنا پڑتا ہے، عوام صرف ریلوے کے سفر میں ذلت اور خواری سے محفوظ ہیں، دیگر وفاقی اور صوبائی محکموں سے عوام کا واسطہ کم پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہاں رش نہیں ہوتا اور جائز کام رشوت کے بغیر بھی ہوجاتے ہیں۔ سرکاری محکموں کا کام عوام کو سہولیات کی فراہمی ہے مگر یہاں یہ حال ہے کہ عوام کو رشوت کے بغیر کوئی سہولت نہیں ملتی۔ رشوت نہ ملنے پر عوام کو خوامخواہ پریشان کرنا سرکاری اصول بن چکا ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں وزارتیں توڑ کر نئے محکمے بنائے گئے ہیں، اس سے عوام کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھے ہیں، البتہ رشوت ضرور بڑھی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی بڑھتی ہے جب کہ قیمتوں پر کنٹرول صوبوں کی ذمے داری ہے جو اپنی ذمے داری پوری نہیں کرتے اور مہنگائی بڑھنے پر گالیاں وفاقی حکومت کو پڑتی ہیں اور صوبائی حکومتیں خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں۔
پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر میاں رضا ربانی نے 18 ویں ترمیم کے ذریعے وفاق سے اختیارات صوبوں کو منتقل کرائے تھے، اس سے صوبے مطلق العنان بن چکے ہیں اور وفاق صوبوں میں اپنی مرضی سے چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس تک تعینات نہیں کرسکتا۔ صوبے اس قابل نہیں تھے جنھیں اس قدر خودمختاری دے دی گئی ہے، جس کے نتیجے میں صوبوں میں آکر محکمہ داخلہ، تعلیم، بلدیات اور صحت مکمل طور پر سیاسی ہوچکے ہیں۔
18 ویں ترمیم سے قبل صوبوں کے مذکورہ محکموں میں اتنی کرپشن اور سیاسی مداخلت نہیں تھی جتنی اب ہے اور اگر صوبوں میں مداخلت کرے تو وفاق پر آئین کی خلاف ورزی کا الزام لگادیا جاتا ہے۔ شاید یہی محسوس کرکے سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ نے کہا تھا کہ رضا ربانی نے ملکی آئین کو تباہ کرادیا ہے۔ پنجاب حکومت نے پنجاب پولیس کی وردی تبدیل کرکے پنجاب پولیس کو باقی تین صوبوں سے منفرد بنانے کی کوشش کی ہے۔ چاروں صوبوں میں پولیس وردی ایک جیسی اور پولیس وفاق کی علامت تھی، صرف بیلٹ اور بیجز سے پولیس میں صوبوں کی پہچان ہوجاتی تھی۔
لاہور کے ایک پولیس افسر نے نئی وردی پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے راقم کو بتایاکہ متعدد سیکیورٹی کمپنیوں کے گارڈز کی وردی پنجاب پولیس کی نئی وردی جیسی ہے اور پولیس میں نئی وردی کو پسند نہیں کیا گیا، مگر مجبوری میں پہن رہے ہیں۔ اس تبدیلی سے پنجاب پولیس کی دھاک ضرور تباہ کردی گئی اور انھیں گارڈوں جیسا حلیہ دے دیا گیا ہے۔