دربدر کی ٹھوکریں کھاتے لوگ
روہنگیا مسلمانوں پر نہ تو عالم اسلام نے کوئی توجہ دی ہے اور نہ ہی عالمی برادری نے اپنی ذمے داری پوری کی ہے۔
رواں سال میانمار فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا نیا سلسلہ شروع کرنے کے بعد سے اب تک 6 لاکھ 20 ہزار روہنگیا افراد ہجرت کرکے بنگلا دیش میں دنیا کے سب سے بڑے پناہ گزین کیمپ میں مقیم ہیں۔ اب لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کو واپس ان کے آبائی ملک بھجوانے کے لیے بنگلا دیش اور میانمار (برما) حکومت کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے۔ ان کی واپسی دو ماہ تک متوقع ہے۔
یہ معاہدہ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن کی گزشتہ ہفتے میانمار میں آنگ سان سوچی سے ملاقات کے بعد ہوا۔ ریکس ٹلرسن کا کہنا تھا کہ ''صورت حال صاف ہے کہ راکھائن کی ریاست روہنگیا افراد کے خلاف نسل کشی کر رہی ہے، اس ظلم کی کوئی وضاحت نہیں کی جاسکتی۔''
دنیا کی مظلوم ترین قوم روہنگیا اقلیت ہونے کی وجہ سے ایک اندھی اکثریت کے ہاتھوں موت کے خوف سے اپنا ملک چھوڑ کر بنگلا دیش میں پناہ لیے ہوئے ہیں، مگر بنگلا دیش انھیں ان کے ملک واپس بھیجنا چاہتا ہے، جہاں یقینی موت اور اذیت کی زندگی ان کی منتظر ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بنگلادیش مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کو زیادہ دیر تک اپنے ملک میں پناہ دینے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ روہنگیا مہاجرین کی اصل جگہ ان کا ملک میانمار ہی ہے، ان کو ان کے علاقے واپس ملنے چاہیے اور انھیں وہاں تمام شہری حقوق بھی حاصل ہونے چاہئیں، یہی اس مسئلے کا مستقل حل ہے، لیکن بنگلا دیش اور مسلم ممالک سمیت تمام عالمی برادری کو روہنگیا مہاجرین کو ان کے علاقوں میں واپس بھیجنے سے پہلے میانمار حکومت سے اس بات کی ضمانت ضرور لینی چاہیے کہ وہ ان بے بس و مجبور روہنگیا مہاجرین کو اسی طرح درندگی کا نشانہ نہیں بنائیں گے، جس طرح پہلے ان کے سامنے ان کے ہی عزیز و اقارب کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
میانمار میں برمی حکومت اور فوج نے مل کر روہنگیا مسلمانوں کی بستیوں پر ہیلی کاپٹروں سے گن پاؤڈر چھڑک کر آگ لگائی۔ سیکڑوں بستیاں جلادی گئیں۔ سیکڑوں زندہ افراد بھی جل کر راکھ بن گئے۔ جان بچا کر فرار کی کوشش کرنے والوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی۔ کسی جائے پناہ کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹکتے مجبور و لاچار روہنگیا لوگوں کو پولیس اہلکار بدترین تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔ ہزاروں بے گناہ افراد لقمہ اجل بن گئے۔
چشم فلک نے میانمار میں نہتے لاچار و بے بس انسانوں پر ظلم و بربریت اور بدترین تشدد کے ایسے دلدوز و دلخراش مناظر بھی دیکھے کہ چشم بشر ان کی تاب نظارہ نہیں لاسکتی، مگر روہنگیا مسلمانوں نے وہ تمام مظالم خود پر برداشت کیے اور اب تک برداشت کر رہے ہیں۔
میانمار میں روہنگیا خواتین پر بھی اتنے بھیانک مظالم ہوئے، جس کی تصدیق کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی نمایندہ خصوصی پرامیلا پاٹن کا کہنا تھا کہ روہنگیا خواتین کی بڑی تعداد کو میانمار کی فوج نے 'منظم' انداز میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا اور میانمار کی فوج جنسی تشدد کو نسل کشی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے۔
اقوام متحدہ کی نمائندہ نے میانمار فوج کے ہاتھوں جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی روہنگیا خواتین سے ملاقات کرکے ایسے ایسے بھیانک انکشافات کیے تھے جس سے انسانیت کا سر شرم سے جھک جائے۔ یہ سب کچھ ساری دنیا کے سامنے ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ پاکستان اور دوسرے کئی مسلمان ملکوں کے علاوہ امریکا اور یورپ میں بھی عوامی سطح پر روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے خلاف احتجاجی مظاہرے تو کیے گئے، لیکن ان پر ہونے والے مظالم کو رکوانے کے لیے عملی اقدام شاید کسی نے نہیں کیا۔
روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے خلاف دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج کے بعد اقوام متحدہ کے سب سے مقتدر ادارے سلامتی کونسل نے میانمار کی حکومت سے یہ تو کہا ہے کہ وہ روہنگیا بحران پر فوری قابو پائے، مگر وہ مسلم اقلیت کی نسلی صفائی مہم کو بند کرانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرسکی اور اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) بھی آج تک اس مسئلہ کو مستقل طور پر حل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں بنا سکی۔
یہی وجہ ہے کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ صرف خبریں آنا بند ہوئی ہیں۔ ایسے حالات میں کیا اس بات پر یقین کیا جاسکتا ہے کہ اگر روہنگیا مہاجرین کو دوبارہ میانمار میں بھیج دیا جائے تو وہ درندے نما انسان دوبارہ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ویسا سلوک نہیں کریں گے جیسا پہلے کیا گیا۔ ایسے حالات میں عالمی برادری کی جانب سے میانمار کو اس بات کا پابند کرنا ضروری ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں پر مظالم نہیں کرے گا اور انھیں ان کے شہری حقوق دیے جائیں گے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس معاہدے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کئی گاؤں جلائے جاچکے ہیں، یہ روہنگیا افراد کہاں رہائش اختیار کریں گے اور جس ملک میں اسلام مخالف جذبات موجود ہوں تو وہاں روہنگیا مسلمانوں کی حفاظت کو کیسے یقینی بنایا جائے گا؟ جب کہ اقوام متحدہ نے بھی اس معاہدے کے حوالے سے کہا ہے کہ میانمار ابھی روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش سے واپسی کے لیے محفوظ نہیں۔
اس کی وجہ بہت واضح ہے کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار فوج اور بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے المناک جنسی طور پر ہراساں، قتل اور آتشزنی کے بھیانک اور المناک واقعات سامنے آئے ہیں اور اب بھی مظالم کا سلسلہ نہیں رکا، ورنہ عالمی میڈیا کو متاثرہ علاقوں میں جانے کی اجازت دے دی جاتی۔ ایسے میں زندہ بچ کر بنگلادیش میں پناہ لینے والے ساڑھے چھ لاکھ روہنگیا مہاجرین کو بغیر کسی حفاظتی معاہدے کے ایک بار پھر انسانوں کے روپ میں درندوں کے حوالے کردینا دانشمندی نہیں ہے۔
روہنگیا مسلمانوںکی بے بسی اور لاچاری کو دیکھ کر رونا آتا ہے کہ یہ لوگ اپنی مرضی سے زندگی بھی نہیں گزار سکتے۔ میانمار میں انھیں زندہ رہنے کی اجازت نہیں، بنگلہ دیش انھیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیںہے۔ کوئی اور مسلم ملک ان کو آنے نہیں دیتا۔ یہ بے بس و مجبور لوگ جائیں تو کہاں جائیں؟ ان بے چاروں کو دنیا کے کسی کونے میں بھی سکون میسر نہیں ہے۔ اب بھی بنگلا دیش کے جن کیمپوں میں یہ لاکھوں روہنگیا مہاجرین بے یارو مددگار مجبوراً پناہ لیے ہوئے ہیں، سردی کی آمد سے ان کی مشکلات دن بدن بڑھ رہی ہیں۔
سردی کی وجہ سے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ خصوصاً بچوں کی بیماریوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے، ان کے پاس موسم کی شدت سے خود کو اور اپنے اہل وعیال کو محفوظ رکھنے کا سامان میسر نہیں ہے۔ روہنگیا مہاجرین کے لیے زیادہ تکلیف دہ بات یہ بھی ہے کہ انھیں کچھ اندازہ نہیں کہ وہ کب تک اسی طرح تکلیف میں زندگی گزارتے رہیں گے اور کب تک در در کی ٹھوکریں کھاتے رہیں گے، کیونکہ اگر وہ دوبارہ میانمار میں جاتے ہیں تو بھی وہاں خدا جانے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟
روہنگیا مسلمانوں پر نہ تو عالم اسلام نے کوئی توجہ دی ہے اور نہ ہی عالمی برادری نے اپنی ذمے داری پوری کی ہے۔ سب نے مل کر روہنگیا مظلوموں کو مسلسل نظر انداز کیا ہے۔ اب اگر ان کے لیے کچھ کیا جارہا بھی ہے تو صرف یہ کہ ان کے تحفظ کی ضمانت لیے بغیر ایک بار پھر انھیں موت کے منہ میں دھکیلنے کی تیاری کی جارہی ہے۔