فرشتے ہمارے منتظر رہتے ہیں
یاد رکھو یہ اقتدار، اختیار، طاقت اور عیش و عشرت ایک نہ ایک دن ختم ہوجانی ہے۔
چارلس نہم شاہ فرانس کی موت کا منظر بڑا وحشت ناک تھا۔ یہ وہ بادشاہ تھا جس نے سینٹ بارتھو لومو کی رات کو ایک بے قصور اصلاح پسند فرقے ہیوگناٹوں کے قتل عام کی اجازت دے دی تھی۔ مرتے وقت وہ بڑے کرب میں مبتلا تھا اور بار بار اپنے طبیب سے یہ ہی کہتا تھا ''میرے جسم اور دماغ دونوں میں تلاطم برپا ہے، سوتے جاگتے میری نظر کے سامنے مقتولوں کی خون آلود لاشیں پھرتی ہیں، کاش کہ میں بے گناہ ہیوگناٹوں کے قتل عام کی اجازت نہ دیتا''۔
جب کہ دوسری طرف سر میری نے، جسے لندن کے ٹاوریل پر شاہی حکم سے قتل کیا گیا، مرتے وقت نہایت اطمینان سے یہ الفاظ کہے ''خدا کا شکر ہے کہ اس نے مرتے دم تک مجھے حق و صداقت کی راہ میں ثابت قدم رکھا''۔ جس طرح مصنف اپنی قبروں میں بولتے رہتے اور دنیا کو نیکوکاری یا بدکاری کا سبق دیتے رہتے ہیں اور ان کے خیالات زمین کے چپے چپے پر گھومتے رہتے ہیں، ان کی ہڈیاں گل کر خاک میں مل جاتی ہیں، مقبرے ڈھے کر ہموار ہوجاتے ہیں لیکن ان کے خیالات فنا نہیں ہوتے۔
سقراط، افلاطون، برونو، ہومر، ہوریس، اسکائی لیس، ولیم شیکپسئر، کولرج، بائرن، شیلے، جان کیٹس، ورجل، چارلس ڈکنز، برنارڈ شا، وکٹر ہیوگو، ایملی زولا، ستاں دال، موپساں، سارتر، گوگول، ٹالسٹائی، گورکی، چیخوف، گوئٹے، دوستوفسکی کا وجود کبھی کا مٹ گیا ہے لیکن ان کے خیالات آج بھی بدستور دلوں پر حکومت کررہے ہیں۔
بالکل اسی طرح سے اچھی حکمرانی یا بری حکمرانی کے اثرات بھی نسل در نسل چلتے رہتے ہیں۔ دعائیں یا بددعائیں حکمرانوں کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑتی ہیں، یا تو وہ چین سے اپنی قبروں میں سورہے ہوتے ہیں یا کروٹ کروٹ اذیتوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ آپ اپنے کیے سے کسی بھی صورت اور کبھی بھی پیچھا نہیں چھڑا سکتے ہیں۔ آپ اپنے کیے کا ہمیشہ جواب دیتے رہتے ہیں۔ فرعون، یزید، ہٹلر، مسولینی، آج بھی اپنے کیے کی آگ میں جل رہے ہیں۔
روس میں ایک کہانی مشہور ہے جس کا نام ''مصنف اور قذاق '' ہے۔ اس کا خلاصہ مضمون یہ ہے کہ ایک بداخلاق مصنف اور ایک قذاق مرنے کے بعد بارگاہ خداوندی میں پیش ہوئے۔ قذاق کی عمر سڑکوں پر رہزنی کرنے اور بے گناہوں کے گلے کاٹنے میں بسر ہوئی تھی۔ بالآخر وہ گرفتار ہوا اور پھانسی پر چڑھ کر مرا۔ مصنف تمام عمر کتابیں لکھ کر ان سے بے دینی و بداخلاقی کی تعلیم دیتا رہا تھا، جس کا زہر اس کی موت کے بعد بھی ساری قوم کی روح میں پھیلا ہوا تھا۔ دونوں گناہگاروں کو دو بڑی دیگوں میں بٹھا دیا گیا۔
قذاق کی دیگ کے نیچے لکڑیوں کا انبار رکھ کر آگ لگائی گئی۔ مصنف کی سزا کچھ ایسی زیادہ سخت معلوم نہ ہوتی تھی، اس کی دیگ کے نیچے آگ کا معمولی سا شعلہ روشن نظر آیا، لیکن رفتہ رفتہ یہ شعلہ بھڑکا اور بھڑکتا چلا گیا، صدیاں گزر گئیں۔ قذاق آناً فاناً آگ میں جل کر ختم ہوگیا تھا، اس کے نیچے جو آگ روشن تھی وہ بھی اس کے جلنے کے بعد ٹھنڈی ہوگئی، لیکن سیاہ کار مصنف کے نیچے سرخ شعلے برابر اٹھ رہے تھے، اس دائمی عذاب سے تنگ آکر ایک دن وہ چیخ اٹھا 'اے خدا شاید تیرے دربار میں انصاف نہیں ہے، میں اس قذاق سے زیادہ گناہگار نہ تھا، لیکن اس کی سزا کب کی ختم ہوگئی اور میری مصیبت برابر جاری ہے، میں نے مانا کہ میرے قلم سے بداخلاقی و الحاد کے کچھ کلمات نکلے ہیں، لیکن میں ان کی کافی سے زیادہ سزا پا چکا ہوں'۔
ابھی یہ الفاظ ختم نہ ہونے پائے تھے کہ دوزخ کا ایک فرشتہ غیظ و غضب کے عالم میں اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا، وہ اپنے ہاتھوں میں عذاب کے گرز گھما گھما کر یوں چلایا 'منحوس شیطان، پروردگار پر جھوٹے الزام نہ لگا، تیرا اور قذاق کا کچھ مقابلہ نہیں۔ اس کا ظلم، رہزنی سب اس کی زندگی تک محدود تھے، مرنے کے بعد ختم ہوگئے، لیکن تونے اپنے ناپاک قلم سے جو زہر اگلا تھا وہ تیرے مرنے کے بعد اور بھی زیادہ پھیل رہا ہے، ذرا اپنے گناہوں پر نظر ڈال اور دیکھ کہ تیرے قلم نے دنیا میں کتنی تباہی پھیلائی ہے، لہٰذا انصاف کا تقاضا ہے کہ تو ہمیشہ ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہے۔ یہ کہہ کر فرشتے نے دیگ پر سرپوش رکھ دیا اور مصنف کو آہ و فریاد کرتا چھوڑ کر چلاگیا''۔
اسی لیے تو کہتے ہیں کہ اعمال اور دعائیں یا بددعائیں حکمرانوں کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑتیں اور چھوڑ بھی کیسے سکتی ہیں، اس لیے کہ آپ کے کردار، اعمال، اقدام اور نیت کے متاثرین کی تعداد ایک یا دو نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں پر مشتمل ہوتی ہے، یا تو آپ کے دور حکمرانی میں لوگ چین، سکون، سکھ سے جی رہے ہوتے ہیں اور آپ کو دعائیں دے رہے ہوتے ہیں یا پھر لوگ اذیتوں میں اپنے دن رات گزار رہے ہوتے ہیں، فاقوں سے مجبور ہوکر خودکشیاں کررہے ہوتے ہیں، بھوکے سورہے ہوتے ہیں، فاقے کررہے ہوتے ہیں اور دن رات آپ کو بددعائیں دے رہے ہوتے ہیں، آہ و بکا کررہے ہوتے ہیں اور ماتم برپا کررہے ہوتے ہیں۔
اس لیے آپ اپنے کردار، اعمال پر جزا پہ جزا پا رہے ہوتے ہیں یا پھر دائمی عذاب اور سزا بھگ رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمارے حکمرانو! تمہیں ایک بار نہیں بلکہ بار بار سوچنے کی ضرورت ہے کہ تم اپنے لیے جزا کا انتخاب کررہے ہو یا سزا کا۔ یاد رکھو یہ اقتدار، اختیار، طاقت اور عیش و عشرت ایک نہ ایک دن ختم ہوجانی ہے، یہ دولت کے انبار، یہ زمینیں، یہ محلات، یہ ملیں، یہ ہیرے جواہرات کے ڈھیر سب یہیں رہ جانے ہیں، سکندر اعظم، قارون، فرعون سب کے سب خالی ہاتھ ہی دنیا سے گئے ہیں، صرف اپنے اعمال اپنے ساتھ لے گئے ہیں، اس لیے تمہیں ایک بار نہیں بلکہ بار بار سوچنے کی ضرورت ہے، تمہارے پاس اب وقت کم رہ گیا ہے، اقتدار کی گھڑی کبھی بھی رک سکتی ہے، فرشتے ہم سب کے ہمیشہ منتظر رہتے ہیں جزا کے لیے یا سزا کے لیے۔