تماشا کل جو دیکھا تھا
فیض آباد دھرنے کے خلاف آپریشن سے پیدا ہونے والی صورتحال نے وفاقی حکومت کو مفلوج کردیا ہے۔
تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام (س) کے امیر مولانا سمیع الحق نے خیبر پختون خواہ میں اپنے امیدواروں کی فہرست جاری کردی۔ مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق متحدہ مجلس عمل کی بحالی پر متفق ہوگئے۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے میاں نواز شریف کی ملاقات کی تجویز مسترد کردی۔ ڈاکٹرعاصم کے ڈاکٹر فاروق ستار سے مذاکرات ہوئے مگر کیا انتخابات مقرر وقت پر ہوںگے؟
آئین میں کی جانے والی 24ویں ترمیم کی سینیٹ میں منظوری سے ہی انتخابات کی راہ میں رکاوٹ دو ر ہوگی۔ مگر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اس ترمیم کو سینیٹ میں نا منظور کراکے اپنے مقاصد حاصل کرسکتی ہیں۔گزشتہ سال ہونے والی مردم شماری کے ابتدائی نتائج جاری ہوگئے۔ سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں نے ان نتائج کو مسترد کردیا مگر مردم شماری کے نتائج کے مطابق نئی حلقہ بندیاں لازمی ہوگئی ہیں۔
آئین میں 24 ویں ترمیم شامل کر نے میں ہی نئی حلقہ بندیوں کے تحت عام انتخابات ممکن ہیں، دوسری صورت میں جمہوری نظام مفلوج ہوجائے گا۔ حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی نے اس ترمیم کو کثرت رائے سے منظور کیا مگر سینیٹ کا اجلاس سینیٹروں کی نامعلوم وجوہات کی بناء پر اجلاس میں عدم شرکت سے جمہوری نظام مفلوج ہوجائے گا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر قومی اسمبلی اور سینیٹ اس مجوزہ ترمیم کو منظور کرتی ہے تو پھر یہ ترمیم اس کا حصہ ہوگی اور اگلے سال انتخابات کے انعقاد میں سب سے بڑی قانونی پابندی ختم ہوجائے گا۔ پھر مئی یا اس کے قریب کے مہینوں میں انتخابات منعقد ہوںگے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اب مسلم لیگ کے سربراہ سے بہت دور ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن نے اقتدار میں آنے کے بعد میثاق جمہوریت کی پاسداری نہیں کی۔
وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے پیپلز پارٹی کو سیاسی میدان میں بھی تنہا کرنے کی کوشش کی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کہتی ہے کہ میاں نواز شریف نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کی سزا پر مسرت کا اظہار کیا۔ اس طرح میاں نواز شریف سیاہ کوٹ پہن کر پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ چلے گئے۔
میاں صاحب نے میمو اسکینڈل میں گیلانی حکومت کے خلاف سخت مؤقف اختیار کر کے آصف زرداری کو ایوان صدر سے دور کرنے کی سازش کی اور پیپلز پارٹی کو 2013ء میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے انتخابات میں باہر کرنے کی مستقل کوشش کی گئی مگر پیپلز پارٹی نے ہمیشہ میثاق جمہوریت کی پاسداری کی۔ پیپلز پارٹی والوں کو میاں نواز شریف سے براہِ راست شکوہ ہے۔ جب مقتدرہ نے سندھ میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا تو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان مقتدرہ کے ترجمان بن گئے اور زرداری جب ملاقات کے لیے اسلام آباد گئے تو میاں نواز شریف نے زرداری سے ملاقات سے انکار کردیا۔
اس صورتحال میں آصف زرداری کے لیے راستے محدود ہوگئے۔ دوسری طرف یہ پروپیگنڈہ عام ہوا کہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ کی فرینڈلی اپوزیشن ہے اور زرداری مسلم لیگ کے خلاف سخت اقدام کرنے کو تیار نہیں ۔ عمران خان نے اس پروپیگنڈہ کو تقویت دی تھی۔ پنجاب اور پختون خواہ میں پیپلز پارٹی کی ساکھ ختم ہونے کے پس پشت یہ بھی ایک عنصر بتایا جاتا ہے۔ جب میاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ پاناما اسکینڈل میں پھنس گئے اور انھیں اپنی نجات کے لیے کوئی اور راستہ نظر نہیں آیا تو وہ اب پیپلز پارٹی کی قیادت سے تعاون کے طلب گار ہیں مگر گزشتہ 4 برسوں کے واقعات کچھ اور حقائق کا اظہار کرتے ہیں۔
میاں نواز شریف بھارت سے دوستی کی بنیاد پر برسراقتدار آئے تو انھوں نے بھارت کے علاوہ افغانستان اور ایران سے تعلقات کو بہتر بنانے کی پالیسی اختیار کی۔ میاں نواز شریف نے چین کے ساتھ تعلقات کو نئی شکل دی، یوں کاشغر سے گوادر تک سی پی کے عظیم منصوبہ کا آغاز ہوا مگر نواز شریف کی 2013ء کے انتخابات میں آنے والی اکثریت میں کچھ سوراخ بھی تھے۔ مقتدرہ نے عمران خان کو ان سوراخوں کا راستہ دکھا دیا۔ عمران خان نے کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگایا اور اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ مسلم لیگ کی حکومت مفلوج کرلی گئی۔
وزیر اعظم نواز شریف نے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خا ن کے ذریعے مقتدرہ سے معاملات طے کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جس کے نتیجے میں عمران خان تو ناکام واپس لاہور چلے گئے مگر سول حکومت کی راہیں محدود ہوگئیں۔ رینجرز نے سندھ میں سابق صدر آصف زرداری کے ساتھیوں کو گرفتار کیا تو میاں صاحب چوہدری نثار علی خان کے اسیر تھے۔ وہ زرداری سے نہیں ملے، یوں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی میں فاصلے بڑھ گئے۔ نواز شریف کی خارجہ پالیسی وزیر اعظم کی فائلوں میں دب گئی، صرف میاں نواز شریف کی راہیں ہی محدود نہیں ہوئیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کے راستے مختصر ہوگئے۔
میاں نواز شریف پاناما لیکس کے معاملے میں نااہل ہوئے مگر ان کی حکومت بچ گئی۔ مگر دیگر مسائل پر ملک میں احتجاج بڑھ گیا۔ فیض آباد کے دھرنے نے مسلم لیگی حکومت کی عمر کو ختم کرنے کی کوشش کی ، نامعلوم قوتوں نے مسلم لیگی اراکین اسمبلی کو ٹیلی فون پر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں نہ جانے کا مشورہ دیا مگر پولیٹیکل پارٹی ایکٹ پر نااہل فرد کو پارٹی کا سربراہ بنانے کی شق کے خاتمے کی کوشش مسلم لیگی اراکین کی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے ناکام ہوگئی۔
اس طرح شاہد خاقان عباسی حکومت کی میعاد تو بڑھ گئی مگر نئی مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندیوں کو آئینی تحفظ دینے کے لیے آئین میں کی جانے والے 24ویں ترمیم کو سینیٹ میں پذیرائی نہ مل سکی، یوں 2018ء میں عام انتخابات کے انعقاد کا معاملہ مشکوک ہوگیا۔
سینیٹ کے چیئرمین اور پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے اپنی جماعت کو متنبہ کیا کہ اس ترمیم کی حمایت نہ کرنے کی صورت میں مقتدرہ قوتوں کے لیے اسلام آباد آنے کا راستہ کھل جائے گا۔ دانشور سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حلقہ بندی بل کے معاملے میں کوئی جمہوریت مخالف ہاتھ ہے جو نظر نہیں آرہا۔ ان کا کہنا تھا کہ عجیب سی پراسراریت ہے، ہر طرف کنفیوژن ہے اور کوئی حلقہ بندیوں کے بل کی بات تک نہیں کررہا۔
فرحت اللہ بابر نے اس امید کا اظہار کیا کہ اگلے چار پانچ دن میں یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس اہم مسئلے پر جمہوری نظام کے استحکام کے تناظر میں غور کرنا چاہیے۔ عمران خان فوری انتخابات کے انعقاد پر زور دے رہے ہیں، اس صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ حلقہ بندیوں کا بل فوراً منظور کیا جائے۔ فیض آباد دھرنے کے خلاف آپریشن سے پیدا ہونے والی صورتحال نے وفاقی حکومت کو مفلوج کردیا ہے۔
پیپلز پارٹی نے مبہم انداز میں جمہوریت سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے مگر مقتدرہ قوتوں کے رویے سے محسوس ہوتا ہے کہ جمہوری نظام کی بساط بکھیرنے کے انتظامات مکمل ہوگئے ہیں۔ اس پر پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کا کردار اہم ہوگیا ہے اگر تمام جماعتیں متحد نہ ہوئیں تو پھر وہی ہوگا جو اکتوبر 1958، جولائی 1977 اور اکتوبر 1999 میں ہوا تھا۔