سزا وار عوام کیوں
ملک بھر میں دھرنوں، جلسوں جلوسوں، احتجاجوں اور ریلیوں کے انعقاد کی سزا سالوں سے صرف اور صرف عوام کو ملتی آرہی ہے
مسلم لیگ ن کی حکومت میں اسلام آباد میں کیے جانے والے تین سیاسی دھرنوں کے بعد ایک مذہبی جماعت کا مذہبی بنیاد پر 22 روز جاری رہنے والا دھرنا حکومت کی پسپائی کے بعد آخر انجام کو پہنچا۔ اس دھرنے سے دھرنے والوں کوکامیابی ملی اور وہ ڈاکٹر طاہر القادری اور دو بار سیاسی میوزیکل دھرنا دینے والے عمران خان کی طرح سیاسی طور پر ناکام نہیں لوٹے بلکہ مقصد حاصل کرنے میں انتہائی کامیاب رہے جب کہ طاہر القادری اور عمران خان سیاسی نقصان اٹھاکر اپنے دھرنے ختم کرنے پر مجبور ہوئے تھے اور دھرنے دینے والے خالی ہاتھ ناکام و نامراد لوٹے تھے۔
مذہبی جماعت والے وزیر قانون کو آخر مستعفی کرا کر ہی نہیں واپس لوٹے بلکہ پنجاب اور وفاق کی حکومتوں کو کروڑوں روپے کا نقصان بھی پہنچاکر گئے جب کہ دھرنے والوں کو مختلف مددگاروں کی طرف سے بہترین خوراک، مٹھائیاں، پھل اور خشک میوے اور سردی میں پینے کے لیے چائے اور منرل واٹر فراہم ہوتے رہے جن کی فراہمی میں اسلام آباد اور راولپنڈی کی انتظامیہ نے بھرپور تعاون کرکے اپنی مہمان نوازی کا ثبوت دیا جس کی وجہ سے شیخ رشید احمد کو کہنا پڑا کہ نواز شریف نے یہ دھرنا خود کرایا ہے۔
نواز شریف کی برطرفی کے بعد چار ماہ سے ملک میں معاشی نقصانات کا واویلا بھی ہوتا رہا اورحکومت کے غلط فیصلوں سے دھرنے والوں کو فائدہ اور حکومت کو روزانہ کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ وزیر داخلہ کی دھرنا ختم کی وارننگ کامیاب نہ ہوئیں اور وزارت داخلہ ملک بھر میں تنقید کا نشانہ بنی، دھرنے والوں کا رویہ بھی وزیر داخلہ کے خلاف سخت نہیں تھا حالانکہ دھرنے والوں پر شیلنگ اور لاٹھی چارج ہوا جس سے دھرنے والوں اور شہریوں کا جانی نقصان بھی ہوا جب کہ اس سرد موسم میں وزیر داخلہ نے دھرنے والوں پر واٹر کینن تک استعمال نہیں ہونے دیا اور انھیں ٹھنڈے پانی میں بھیگنے سے بچایا۔
وزیر داخلہ کو معاہدے کے وقت شکر گزار ہونا چاہیے تھا جس سے دھرنے والے بیمار نہیں ہوئے مگر بیمار اور زخمی افراد کو اسپتالوں تک پہنچنے کا راستہنہ ملنے سے دو افراد کی جانیں ضرور دھرنے کے باعث ضایع ہوئیں۔ پولیس اور شہریوں کی گاڑیاں دھرنے کے دوران جلائی گئیں اور انھیں نقصان ہوا اور پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے بلکہ سردی میں پولیس اہلکاروں کوکھلے آسمان تلے آپریشن کے نام پر 22 روز بھوکا پیاسا پریشان کیا گیا۔
25 نومبر کی صبح پولیس سے دھرنے والوں کے خلاف ناکام اور بے مقصد جو آپریشن کرایا گیا وہ بھی کراکر دھرنا ملک بھر میں پھیلادیا گیا جس سے ملک بھر میں کروڑوں بے گناہ عوام متاثر ہوئے اور انھوں نے دھرنے میں شامل نہ ہونے کے باوجود تین روز تک مفت میں حکومتی نااہلی اور دھرنوں کی سزا بھگتی۔ 22 روز تک راولپنڈی و اسلام آباد کے 8 لاکھ سے زیادہ شہریوں اور ملک بھر میں تین روز تک ہزاروں دکانیں بند، کاروبار مفلوج، پنڈی، اسلام آباد میٹروبسیں اور ہزاروں گاڑیوں والے عذاب میں مبتلا رہے جن کا کاروباری و جانی نقصان انھوں نے خود برداشت کیا جب کہ حکومت کا جو کروڑوں روپے کا مالی نقصان ہوا اور دھرنے والے اور حکومت اپنی جیب سے نہیں بھریںگے بلکہ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے ادا کیے گئے ٹیکسوں سے بمع سود وصول کرلیا جائے گا۔
یہ منفرد مذہبی دھرنا تھا جس نے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے اور دھرنے والوں کے تمام مطالبات ماننے پر مجبور کردیا حکومت کو دھرنوں سے مالی و سیاسی نقصان ہوا۔ ن لیگیوں کو حملوں اور نقصان کا منہ بھی دیکھنا پڑا اور ن لیگی مستعفی بھی ہوئے مگر حکومت دھرنے والوں کو دھمکیوں سے نہ بھگا سکی بلکہ خود جھک گئی۔
یہ واحد دھرنا تھا جس کے لیے عدالت دھرنا ختم کرانے کے احکامات دیے جو دھرنے والوں نے ہوا میں اڑا دیے اور عوام نے حیرانی سے دیکھا کہ عدالتی حکم پر حکومتیں تو ختم ہوئیں مگر دھرنا ختم نہیں کیا گیا۔دھرنے والوں کامقصد خواہ کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہواس میں عوام کی تکالیف اور مشکلات کا بھی خیال رکھنا چاہیے اور طرز تکلم میں شائستگی اور تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
ہمارا مذہب بدتہذیبی اور بدزبانی کی اجازت نہیں دیتا۔کوئی بھی عظیم مقصد دھرنا والوں کواس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ توڑ پھوڑ کریں اور شہریوں کی املاک کو نقصان پہنچائیں۔توڑ پھوڑ کیئے بغیر بھی دھرنا کے مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیںبس تھوڑا سا تحمل اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔
دھرنے والے خود ہی اسلام آباد ہائی کورٹ گئے مگردھرنا ختم کرنے کے عدالتی حکم کو دھرنے والوں نے تسلیم نہیں کیا اور دھرنے ہی کے سلسلے میں جسٹس صدیقی 27 نومبر کو اپنے ریمارکس اور فیصلے سے ملکی تاریخ میں وہ منفرد ریکارڈ بنا گئے جو کہنے کی جرأت کسی قومی رہنما اور مذہبی شخصیت کو نہیں ہوئی تھی۔ دھرنے والوں کے آگے حکومت کیا عدلیہ کی بھی نہیں چلی اور کسی مذہبی رہنما کو توہین عدالت کا نوٹس نہیں ملا جس کے ملنے پر وزیراعظم گھر گئے ہیں۔
قانون کا احترام سب پر لازم ہے ۔ جہاں لوگ قانون کا احترام کرنا چھوڑ دیں وہاں لاقانونیت جنم لیتی ہے۔ سب سے پہلے لازم ہے کہ حکمران خود قانون کااحترام کر کے دوسروں کے لیے اس کی مثال قائم کریں۔ دھرنے والے سردی میں جمے بیٹھے رہے ملک بھر میں دھرنوں، جلسوں جلوسوں، احتجاجوں اور ریلیوں کے انعقاد کی سزا سالوں سے صرف اور صرف عوام کو ملتی آرہی ہے جو سیاسی، مذہبی اور احتجاج کرنے والوں کا سب سے آسان ٹارگٹ بنے ہوئے ہیں۔
ایسے موقعوں پر عوام پرپریشانی مسلط کرکے فائدے اٹھانے والوں کی حمایت میں ان کے حامی آواز بلند کرتے ہیں مگر عوام کے حق میں میڈیا، تاجر اور سول سوسائٹی کے علاوہ کوئی آواز بلند نہیں کرتا۔ کسی نے ضرور کہا کہ دھرنوں اور جلسوں کے لیے حکومت ملک بھر میں جگہیں مختص کردے جس کی حمایت کسی مذہبی و سیاسی جماعت نے نہیں کی کیونکہ عوام پر یہ پریشانی مسلط کرنے میں سب برابر کے شریک ہیں۔
دھرنا ختم ہونے کے بعد حکومت پر تنقید ہورہی ہے تو دھرنے کے رہنما برہم ہیں کہ میڈیا نے ان کی پریس کانفرنس کی لائیو کوریج نہیں کی ۔ حکومت پر اپوزیشن بھی برہم ہے جس کا دھرنے سے کوئی نقصان نہیں ہوا اور جن کا سب سے زیادہ نقصان ہوا وہ عوام ہیں جنھیں برہم ہونے کا سب سے زیادہ حق ہے مگر ان سے تو کسی کو بھی اظہار ہمدردی کی توفیق بھی نہیں ہوئی سب کو پتا ہے کہ جب تک دھرنے اور احتجاج شاہراہوں پر نہیں ہوںگے حکومت پر اثر نہیں پڑتا اور عوام کا تو کسی کو بھی خیال نہیں اور عوام ہی احتجاجوں کی سزا بھگتتے ہیں۔