اداکار اورکہانی کار جلیل افغانی کی یادیں
جلیل افغانی کا گھر سوک سینٹر سے تھوڑا آگے گلشن اقبال کی طرف تھا اور اب ان کا گھر میری بھی بیٹھک بن چکا تھا۔
لاہور کے ایورنیو اسٹوڈیوکے وسط میں فوارہ چوک کے چبوترے پر مشہور مکالمہ نگار بشیر نیاز نے ڈھاکہ سے آئے ہوئے مشہور کریکٹر ایکٹر اور کہانی کار جلیل افغانی سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا افغانی بھائی! یہ ہے ہمارا نوجوان شاعر اور صحافی یونس ہمدم۔ بشیر نیاز یہ کہہ کر جیسے ہی چپ ہوئے میں نے جلیل افغانی سے ہاتھ ملانے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا مگر وہ مجھ سے ہاتھ ملانے کی بجائے مجھے یک ٹک غور سے دیکھنے کے بعد بولے''کیا تم وہی یونس ہمدم ہو جس کا لکھا ہوا ایک گیت کراچی کی کسی فلم میں مہدی حسن نے گایا تھا۔ جس کے بول تھے۔
لے کے چلی ہو، مورا پیار گوری
اور وہ گیت میں نے ڈھاکہ ریڈیو اسٹیشن سے سنا تھا۔ جو دن میں کئی کئی بار بجا کرتا تھا اور مہدی حسن نے وہ بڑے ہی درد بھرے انداز میں گایا تھا۔مجھے یقین نہیں آرہا ہے کہ تمہارے جیسے نوجوان بلکہ نو عمر شاعر نے وہ گیت لکھا ہے۔ یہ تھی میری جلیل افغانی سے پہلی اور دلچسپ ملاقات ۔
اس سے پہلے کہ میں لاہور میں ان کی فلمی مصروفیات کا تذکرہ کروں میں ان کی ڈھاکہ کی فلمی زندگی کے بارے میں کچھ بیان کروں گا۔ جلیل افغانی کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا اور انھیں بچپن سے فلمیں دیکھنے کا شوق تھا ان کو بھی فلمیں دیکھنے کی گھر کی طرف سے پابندی تھی مگر یہ پھر بھی چپکے چپکے فلمیں دیکھنے جایا کرتے تھے۔
ان کا پسندیدہ اداکار پرتھوی راج کپور تھا پھر بعد میں اشوک کمار اور دلیپ کمار بھی پسند آنے لگے تھے جب یہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ حیدرآباد دکن سے ڈھاکہ آئے تو انھیں اردو بولنے اور لکھنے کی وجہ سے ڈھاکہ کی فلم انڈسٹری میں تھوڑی بہت جگہ مل گئی تھی اور بحیثیت اداکار پہلے چند بنگالی فلموں میں کردار نگاری کی پھر جب ڈھاکہ میں اردو فلموں کا آغاز ہوا تو جلیل افغانی کی چاندی ہوگئی تھی یہ اپنے لحیم شحیم ڈیل ڈول کی وجہ سے پہلے تو اردو فلموں میں کیریکٹر ایکٹر کی حیثیت سے آئے پھر چند فلموں میں سائیڈ کرداروں کے ساتھ ساتھ مزاحیہ اداکاری بھی کی۔
ان کی 1963ء میں اردو فلم ''تلاش'' میں انھیں کافی شہرت دی جب کہ ان کی پہلی اردو فلم فلمساز و ہدایت کار احتشام کی فلم ''چندا'' تھی پھر 1965ء سے لے کر 1969ء تک کا عرصہ جلیل افغانی کی مصروفیت کا دور تھا اس دوران انھوں نے بہت سی فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں بھیا، اُجالا، کاجل، نین تارا، ساگر، پریت نہ جانے ریت، کارواں، آخری اسٹیشن اور اداکار ندیم کی پہلی فلم ''چکوری'' کے نام شامل ہیں۔ یہ وہ دور تھا کہ لاہور کے آرٹسٹ ڈھاکہ جاتے تھے اور ڈھاکہ کے آرٹسٹ لاہور اور کراچی آتے رہتے تھے۔
ندیم ''چکوری'' کی بے مثال کامیابی کے بعد ڈھاکہ سے فلمساز و ہدایت کار اور مصنف شہاب کیرانوی کی فلم ''سنگدل'' کی شوٹنگ کے لیے سیدھا لاہور آیا اور پھر لاہور کی انڈسٹری میں چھاتا چلا گیا تھا بلکہ سپر اسٹار بھی کہلایا جانے لگا تھا۔ اسی طرح ڈھاکہ سے اداکارہ شبنم پہلے کراچی آئی، یہاں دو تین فلموں میں ہیروئن کا کردار کرکے لاہور کی فلم انڈسٹری سے کچھ اس طرح جڑ گئی کہ لاہور کی تمام ہیروئنوں کو شبنم نے پیچھے چھوڑ دیا تھا۔
شبنم، ندیم کے بعد ڈھاکہ سے ہدایت کار و فلم ایڈیٹر نذرالاسلام اور اداکار جلیل افغانی بھی لاہور آگئے لاہور میں انھوں نے کئی فلموں میں کام کیا اور پھر وہ اداکار سے زیادہ کہانی کار بن گئے۔ وہ دور ایسا تھا کہ لاہور کی فلم انڈسٹری کو اردو فلموں کے لیے اچھی کہانیوں کی بڑی ضرورت تھی اور جلیل افغانی کو ہندی کہانیوں، بنگالی اور مراٹھی ادب کا بھی بڑا تجربہ تھا۔
انھوں نے ابتدا میں چند کہانیاں لکھیں اور ان کی کہانیوں پر مبنی فلموں نے بڑا بزنس کیا اور وہ بے مثال کامیابی سے دو چار ہوئیں جیسے کہ فلم پرکھ، آئینہ، بندش، انمول، پہچان، ننھا فرشتہ، جینے کی سزا، پھول میرے گلشن کا اور پھر کہانی سنانے کا فن بھی جلیل افغانی کے پاس ایسا تھا کہ جس فلمساز و ہدایت کار کو وہ اپنی کوئی بھی کہانی سناتے تھے وہ پہلی نشست ہی میں منتخب کر لی جاتی تھی پھر جلیل افغانی کی بحیثیت اداکار مصروفیت میں کمی آتی گئی اور بحیثیت کہانی کار یہ لاہور فلم انڈسٹری کے اس دور میں مصروف ترین کہانی نویس بن گئے تھے، بعض اوقات تو فلمسازوں کو اپنی نئی فلموں کی کہانیوں کے لیے جلیل افغانی سے ہیرو اور ہیروئن کی طرح تاریخیں لینی پڑتی تھیں، لاہور میں اس زمانے میں میگاکاسٹ کی فلمیں بنانے والے ہدایت کاروں میں نذرالاسلام، پرویز ملک اور اقبال اختر کے ساتھ اقبال یوسف بھی جلیل افغانی کی کہانیوں کے شیدائی تھے بلکہ فلمساز و اداکارہ شمیم آرا، کیمرہ مین و ہدایت کار جان محمد کی اکثر فلموں کی کہانیاں بھی جلیل افغانی کی صلاحیتوں کا نچوڑ تھیں، جیسے کہ یہ چند ہٹ فلمیں تھیں۔
ہانگ کانگ کے شعلے، دیکھا جائے گا، امبر، حسینہ مان جائے گی، بینکاک کے چور، مس بینکاک، منیلا کی بجلیاں، خطرناک حسینہ، ٹینا، دو رنگیلے اور فلم ''شرمیلی'' بھی شامل تھی جس کے مکالمے اور گانے میرے لکھے ہوئے تھے، یہاں میں ایک بات اور واضح کرتا چلوں کہ جس فلم کی کہانی جلیل افغانی کی ہوتی تھی اس فلم کے مکالمے اکثر بشیر نیاز لکھتے تھے۔ بشیر نے کبھی کسی فلم کی کہانی نہیں لکھی اور جلیل افغانی نے کسی فلم کے کبھی مکالمے نہیں لکھے۔ جب کہ اس دور میں جلیل افغانی اور بشیر نیاز کی جوڑی مشہور تھی اور یہ دونوں جس فلم کے رائٹر ہوتے تھے وہ فلم سپرہٹ ہوجاتی تھی اسے بعض فلمساز ایک ''ٹوٹکا'' بھی کہتے تھے۔
جنرل ضیا الحق کے دور میں جب فلم انڈسٹری پر ایک دم سے زوال آیا تھا۔ تو جلیل افغانی بھی لاہور کو خیرباد کہہ کر کراچی میں ہی سکونت اختیار کرچکے تھے۔ ایک دن میں ان سے ملنے ان کے گھر گیا تو جلیل افغانی سے ملاقات کے دوران ایک اچھی خبر یہ ملی کہ کراچی کے ایک فلمساز نے جلیل افغانی سے ایک فلم کی کہانی لکھنے کا رابطہ کیا ہے اور اسے دو ماہ کے دوران ایک مکمل اسکرپٹ چاہیے، جلیل افغانی بولے، یونس ہمدم! اب تم روزانہ چند گھنٹے نکال کر میرے گھر آجایا کرو میں روزانہ فلم کے چند سین تم کو لکھ کر دوں گا۔
جلیل افغانی کا گھر سوک سینٹر سے تھوڑا آگے گلشن اقبال کی طرف تھا اور اب ان کا گھر میری بھی بیٹھک بن چکا تھا۔ میں اب باقاعدگی سے جلیل افغانی کے ساتھ بیٹھ کر فلم کے لیے مکالمے لکھ رہا تھا۔ میری شام کی چائے اور رات کا کھانا جلیل افغانی صاحب کے گھر ہی ہوتا تھا اس دوران میں نے جو حیدرآبادی لذیذ ڈشیں اور چٹنیاں ان کے گھر میں کھائی تھیں ان کا مزہ ہی کچھ اور تھا اور وہ مزہ میں آج تک نہیں بھولا ہوں، جب میں نصف سے زیادہ فلم کے مکالمے لکھ چکا تھا تو میری فیملی کا امریکا سے ویزا آگیا تھا۔ پھر امریکا جانے کی تیاریوں میں لگ گیا تھا اور جلیل افغانی صاحب سے باقی مکالمے لکھنے کی معذرت کرلی تھی۔ اسی دوران جلیل افغانی شدید بیمار بھی ہوگئے تھے۔
میں آخری بار جب ان سے ملنے گیا تو وہ کافی نحیف و نزار تھے اور ان کی شگفتہ مزاجی میں بھی کمی آگئی تھی۔ ان کے تین بیٹے تھے اور دو بڑے بیٹے اس دوران اچھی فرموں میں ملازمت حاصل کرچکے تھے اس بات سے جلیل افغانی کافی مطمئن تھے۔ اس ملاقات کے بعد میں بھی اپنی تمام کشتیاں جلاکر پاکستان سے امریکا آچکا تھا پھر کچھ عرصے بعد ہی امریکا میں مجھے اخبارات کے ذریعے ان کے انتقال کی خبر ملی تھی مجھے کئی دن تک ان کی موت کا دکھ رہا ان کے ساتھ لاہور اور پھر کراچی میں بہت ہی یادگار اور اچھا وقت گزرا تھا۔ وہ بڑے نفیس انسان تھے۔ لاہور اور کراچی میں ان کے ساتھ گزرا ہوا وقت آج بھی مجھے یاد آتا ہے تو میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اللہ انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ (آمین)