دیے سے دیا جلتا رہے
شہرت اور وہ بھی عزت اور مقبولیت کے ساتھ رب کریم کا ایک ایسا احسان ہے جس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے
شہرت اور وہ بھی عزت اور مقبولیت کے ساتھ رب کریم کا ایک ایسا احسان ہے جس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے لیکن عملی زندگی میں اس کا بوجھ اٹھا کر چلتے رہنا، بعض اوقات بوجوہ بہت مشکل بھی ہوجاتا ہے بالخصوص وقت گزرنے اور عمر اور دائرہ احباب کے بڑھنے سے یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے کہ دن اور رات کے گھنٹے تو 24 ہی رہتے ہیں مگر ان میں سے اپنا حصہ مانگنے والوں کی تعداد اور فرمائشیں کسی بھی قاعدے اور کلیے میں سما نہیں پاتیں۔ سو ایسے میں اس طرح کی باتیں بھی منہ سے نکل جاتی ہیں جن پر آسانی سے ناشکری کا گمان ہوسکتا ہے۔ جیسے مثال کے طور پر اس طرح کے شعر کہ
ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو
خود سے ملنے کی بھی ملتی نہیں فرصت ہم کو
تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ مختلف النوع تنظیموں اور بالخصوص تعلیمی اداروں کی طرف سے ان کی تقریبات میں بطور مہمان خصوصی شمولیت کے دعوت نامے اور تقاضے اس کثرت سے ملتے اور کیے جاتے ہیں کہ معذرتیں کرتے کرتے زبان سوکھنے لگتی ہے۔ مگر دوسری طرف سے گلے، منت، درخواست اور سفارشوں کا طوفان تھمنے میں ہی نہیں آتا۔ آپ لاکھ خیال خاطر احباب اور انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کا سبق دہرائیں۔ مگر ایک ہی وقت میں چار چار مختلف تقریبات میں حاضری دینا نہ صرف یہ کہ عملی طور پر ممکن نہیں ہوتا بلکہ بیشتر میں آپ کی موجودگی ایک شو پیس سے زیادہ نہیں ہوتی۔
خاص طور پر ایسے تعلیمی اداروں کی وہ تقاریب تقسیم انعامات جن میں آپ کو کئی کئی گھنٹے بیٹھنے کے ساتھ درجنوں کے حساب سے سرٹیفکیٹ، کپ اور شیلڈیں تقسیم کرنا ہوتی ہیں۔ جن کا واحد مقصد بچوںکے والدین کو یہ یقین دلانا ہوتا ہے کہ وہ صحیح جگہ پر فیس خرچ کررہے ہیں کہ یہاں ہر بچے کے حاصل کردہ نمبر کل نمبروں کے قریب قریب ہی ہوتے ہیں۔ ایسے تعلیمی اداروں کی تعداد بھی کم نہیں جہاں واقعی تدریس کی سطح اور معیار بہتر ہے لیکن ان میں سے بیشتر کا مسئلہ وہ تعلیمی اسٹرکچر ہے جس میں بچوں کو نیشنل کے بجائے انٹرنیشنل شہری بنانے پر زیادہ ضرور دیا جاتا ہے اور یوں وہ ایسے روبوٹس کی شکل اختیار کر جاتے ہیں جن کا تعلق اپنی زبان، تہذیب، قوم، اخلاقیات اور ماضی سے زیادہ اپنے معاشی اور طبقاتی مستقبل سے ہوتا ہے۔
ان فرمائشوں کا دباؤ کم کرنے کے لیے چند برس قبل میں نے ایک حکمت عملی وضع کی کہ ایسے ادارے اگر مادری اور قومی زبان، کتب بینی، شعر و ادب، مضمون نگاری یا خوش نویسی وغیرہ سے متعلق کسی تقریب کا اہتمام کریں تو میں ان میں شمولیت کو ترجیح اور اولیت دوں گا۔ میں نے نہ صرف اس کا باقاعدہ اعلان کیا بلکہ اس پر عمل بھی کرنا شروع کردیا جس سے صورت حال فوری طور پر بہتر ہوگئی کہ بیشتر اداروں کی انتظامیہ بوجوہ اس کے لیے تیار نہیں تھی لیکن میرا یہ عذر یا بہانہ زیادہ دن نہ چل سکا اور اگرچہ اس کی ناکامی کی وجہ سے اب پھر سے مجھ پر فرمائشوں کا دباؤ بڑھ گیا ہے لیکن اس بار مجھے پریشانی کے بجائے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ ان اداروں نے نہ صرف اپنی روش بدلی اور رویے کو تبدیل کیا ہے بلکہ میری توقع سے بھی بہتر انداز میں ان باتوں کو اپنے تعلیمی پروگراموں کا ایک باقاعدہ اور مستقل حصہ بنا لیا ہے اور یوں کچھ عرصہ سے میں ایک ایسی خوشگوار حیرت اور مسرت سے دوچار ہوں جس میں شہرت سے متعلق مبینہ آزار ایک خیر کی خبر کی شکل اختیار کرگیا ہے کہ اس کی معرفت اب ہمارے بچے ایک ایسے بہتر ذہنی، فکری اور تعمیری ماحول میں اپنی فطری صلاحیتوں کو اجاگر کرسکیں گے جو ان کا حق بھی ہے اور پہچان بھی۔
ایسی ہی ایک صورت حال میں گزشتہ روز مجھے تین گھنٹے لاہور میں ایک معروف اسکول سسٹم کے کیمپس میں گزارنے کا موقع ملا جس کی ایک اسٹاف ممبر عزیزہ سعدیہ کامران اپنے ادارے کی طرف سے گزشتہ دو ماہ سے مجھ سے مسلسل رابطے میں تھی لیکن ان کی بار بار کی یقین دہانیوں کے باوجود میرا یہ شبہ اپنی جگہ قائم تھا کہ تبدیلی اگر ہوئی بھی تو دس پندرہ فیصد سے زیادہ کیا ہوگی کہ ان مغرب بنیاد مہنگے انگلش میڈیم اسکولوں کا بھرم ہی ان کے ولائتی نظر آنے میں ہے۔
یہ اسکول جماعت ہفتم تک ہے اور اس وقت وہاں ہفتہ اردو کی تقریبات ''برگ اردو'' کے عنوان تلے جاری تھیں۔ کہیں تقریری مقابلہ ہورہا تھا تو کہیں ڈرامائی انداز میں داستان گوئی، تحت اللفظ، مضمون نگاری اور اردو خوش نویسی کا سلسلہ بھی جاری تھا جب کہ آڈیٹوریم میں تقسیم انعامات سے قبل کلام اقبال، مشاعرے اور مشاہیر ادب سے متعلق گٹ اپ کے ساتھ ایک تعارفی پروگرام کا اہتمام تھا۔ سب کام بہت محنت، سلیقے اور دل سے کیے گئے تھے۔ موسیقی، اسٹیج کرافٹ، ملبوسات اور ایکٹنگ ہر شعبے میں بچوں کی پرفارمنس عمدہ اور پیش کیا جانے والا مواد اخلاقیات، تہذیب، تاریخ اور زبان و ادب کا ایک خوبصورت گلدستہ تھا۔
پرنسپل اور اساتذہ سے گفتگو کے دوران یہ جان کر مزید خوشی ہوئی کہ یہ ماحول صرف اس ہفتے تک محدود نہیں بلکہ اب بچوں کوایک اچھا انسان اور اپنی زبان، معاشرت، دین اور تاریخ کا شعور رکھنے والا ذمے دار شہری بنانے کا یہ فریضہ مستقل اور مسلسل طریقے سے ادا کرنے پر بھر پور توجہ دی جا رہی ہے۔
اب لازم ہے کہ ہمارے تمام تر تعلیمی ادارے بچوں کو علوم پڑھانے کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت اور کردار کی تعمیر اور تربیت پر نہ صرف بھر پور توجہ دیں بلکہ ان کی بنیاد میں اس ''اپنے پن'' کے شعور اور فخر کو بھی مستقل جگہ دیں جس کے بغیر انسان اور روبوٹ کا فرق عملی طور پر ختم ہوجاتا ہے۔ قوی امید ہے کہ یہ سلسلہ اب مزید فروغ پائے گا اور ہم سب بھی اپنی اپنی مصروفیات میں سے کوشش کرکے اس مہم میں اپنا حصہ زیادہ سے زیادہ ڈالنے کی کوشش کریں گے اور یوں اس طرح کے شعر کہنے کی گنجائش بھی نہیں رہے گی کہ
دنیا کے اس شور نے امجد کیا کیا ہم سے چھین لیا ہے
خود سے بات کیے بھی اب تو کئی زمانے ہوجاتے ہیں