لٹریری فیسٹیول فیصل آباد
لندن میں ہرمشکل کام کیا۔ایک ریلوے اسٹیشن پر"پورٹر"یعنی قلی کاکام بھی کرتے رہ
KARACHI:
پرتاثیر بلکہ حیرت انگیز تقریب۔ فیصل آباد اور ادبی ذوق۔ کپڑا بنانے والے شہر میں کیا یہ شعور متوقع تھا۔ مگر صاحبان زمینی حقائق، دل کیا روح کو خوش کرنے والے تھے۔ پچھلے جمعہ اور ہفتہ والے دن منعقد ہونے والا لٹریری فیسٹیول برسوں یاد رہنے والی تقریب تھی۔ اگر پورے پاکستان سے اہل ہنر آئے تھے، تو اہالیان فیصل آباد بھی کسی سے کم نہیں تھے۔ پورے دو دن نصرت فتح علی ہال، کچھاکھچ بھرا رہا۔ اہل ذوق، کمال سنجیدگی سے سننے والے بلکہ متین سوال کرنے والے سیکڑوں اشخاص، طلبا، طالبات، اساتذہ، عام پبلک جو ہرگز ہرگز عام نہیں ہے۔ ہر طرح کے لوگ موجود تھے۔ ثابت یہ ہوا کہ فیصل آباد علم و ادب کی ستائش میں کسی دوسرے شہر سے پیچھے نہیں ہے، بلکہ کچھ آگے ہے!
خوشگوار حیرت اس وقت ہوئی جب سبز رنگ کے ملبوسات میں نوجوان مرد، خواتین اور چند میری جیسی پختہ عمر کے بچے، مہمانوں کا استقبال کررہے تھے۔ جیسے ہی آپ آرٹس کونسل میں داخل ہوتے تھے، اس وقت کوئی مسکراتا ہوا چہرہ آپ کو ذاتی طور پر خوش آمدید کہنے کے لیے موجود ہوتا تھا۔ یہ درجنوں اشخاص رضاکارانہ طور پر انتہائی مشکل کام کررہے تھے۔ پورے نظم وضبط کے ساتھ مہمانوں کو ان کی نشست تک پہنچانے کا کام۔ مین ہال سے باہر کتابوں کے وسیع اسٹال لگے ہوئے تھے۔ ان کے اردگرد لوگوں کے ہجوم تھے۔
کون کہتا ہے کہ اب کتابیں پڑھنے کا رواج ختم ہوچکا ہے۔ ہال میں داخل ہونے سے پہلے ٹی وی انٹرویو کے لیے دو کونے بنے ہوئے تھے۔ لوگ ایمانداری سے اپنے اپنے تاثرات بیان کررہے تھے۔ جمعہ کے بعد کی افتتاحی تقریب محترمہ زہرہ نگاہ کی صدارت میں تھی۔ ان کے ساتھ آئی اے رحمن اور اعتزاز احسن براجمان تھے۔ آئی اے رحمن ان قدآور لوگوں میں سے ہیں، جن میں لسانی، نسلی، مذہبی اور فکری تعصب نہ ہونے کے برابر ہے۔ پہلے بھی کئی مرتبہ رحمن صاحب کو سن چکا ہوں۔ مگر اس دن انھوں نے کمال کردیا۔ بلوچستان، سندھ، کے پی کے اور پنجاب کے ان ادیبوں، شاعروں کے متعلق باتیں کیں، جن کے نام بھی کئی لوگوں کو معلوم نہیں تھے۔ صرف اردو تک محدود نہ رہے، انگریزی زبان کے ناول لکھنے والے اورشاعروں پربھی سیرحاصل بحث کی۔ان کی باتوں سے صاف جھلکتاتھاکہ ذہن کی جس پختگی پرہیں،اس میں تمام ترتعصبات بہت نیچے رہ چکے ہیں۔مزاج میں شائستگی ایسی،کہ باربارکہہ رہے تھے کہ اپنے مضمون سے انصاف نہیں کرپارہا۔مگریہ ہربڑے آدمی کی نشانی ہوتی ہے۔بلکہ آدمی، بڑاہی اس وقت ہوتا ہے حب اپنی نفی کر ڈالتا ہے۔ یہ وصف آئی اے رحمن میں موجودہے۔
افتتاحی تقریب میں اعتزازاحسن کی تقریرسب سے پہلے تھی۔پہلی باراندازہ ہواکہ اعتزازاحسن کالائل پورسے بہت قربت کاتعلق ہے۔چھٹیاں گزارنے کے لیے بچپن میں اس شہرمیں اکثرآتے رہتے تھے۔اعتزازصاحب کے سیاسی رجحانات جوکچھ بھی ہوں،ان کے علمی،ادبی اورتحقیقی خیالات انتہائی عمدہ ہیں۔انھیںصرف سیاستدان گرداننا کافی حد تک زیادتی ہے۔جس اندازمیں اعتزاز احسن نے پنجاب اوردیگرصوبوں کے قدآور مزاحمتی شخصیات کاذکر کیا،وہ بذات خودایک علمی دریچہ کھولنے کے برابر تھا۔ بھگت سنگھ سے لے کرآزادی کے ہرمتوالے کا ذکر،اس دلیل سے کیاکہ سیکڑوں لوگ دم بخودرہ گئے۔ کہاں آج کا فکری طور پر گُھٹاہواپاکستان اورکہاں اعتزاز احسن کے ترقی پسند خیالات۔کمال یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے تمام مضامین،اس قرینے سے اداکیے کہ لوگ بار بار داد دیتے رہے۔اس تقریب میں اصغرندیم سیداوران کی اہلیہ شیباصاحبہ نے بھی تقریب کوانتہائی متوازن طریقے سے جاری رکھا۔ اختتامی کلمات،اس ادبی میلے کی روح رواں سارہ حیات نے عمدہ طریقے سے اداکیے۔
افتتاحی تقریب کے بعدوہ شخص اسٹیج پرآیاجولفظوں اورتلفظ کابادشاہ ہے۔شائدبادشاہ لفظ اس کے لیے بے معنی ہے۔دراصل اردواورانگریزی زبان کاسامری جادوگر ہے۔اپنی دنیاکااکیلااوراجنبی سامسافریعنی ضیاء محی الدین۔ وضعداری اورخوش لباسی کامجموعہ۔فیصل آباد لٹریری فیسٹیول سے پہلے سیکڑوں بارضیاء محی الدین کوٹی وی پرسنا ہے۔ لہجے کی قادرالکلامی کابڑے عرصے سے مداح ہوں۔ مگر انکو براہِ راست سامنے بیٹھ کرسننے کااتفاق پہلی بارہوا۔کمال حسن اتفاق تھا۔نشست میں ضیاء محی الدین نے نثراور شاعری کے اساتذہ کے کمال انتخاب پڑھے۔کس لفظ پر زوردیناہے۔کہاں رُکنا ہے۔ کیوں رکناہے۔کونساجملہ کس روانی سے ادا کرنا ہے۔
میری دانست میں اب یہ صرف اورصرف ضیاء محی الدین کو ہی پتہ ہے۔خوبصورت بات یہ بھی ہے کہ جچتابھی انکوہی ہے۔ سرسیداحمدخان کی خوشگوار نثرسے لے کرطنزومزاح کے دیگرفن پاروں کوجس اعلیٰ طریقے سے ضیاء محی الدین نے پڑھا،کہ کمال ہوگیا۔ سامعین اس درجہ کھوگئے کہ جہاں بھی ضیاء محی الدین چاہتا تھا، تالیاں بجابجاکرتھک جاتے تھے۔جہاں لفظوں میں مسکراہٹ پیدا کرتا تھا، لوگ قہقہے لگانے شروع کردیتے تھے۔سیکڑوں لوگ، لگتا تھا، اس جادوگرکی مٹھی میں ہیں۔ یہ کمال فن تھا۔بلکہ لفظوں پردسترس کی معراج تھی۔یقین مانیے،ضیاء محی الدین میں اتناملکہ ہے کہ وہ کسی کوبھی کہیں بھی رُلاسکتاہے اور چند منٹ بعد کھلکھلا کر ہنسا سکتا ہے۔ پہلے دن کی آخری نشست کلاسیکل موسیقی کے بے تاج بادشاہ حسین بخش گلو کی تھی۔ان کے دونوں بیٹوں نے بھی گانے میں انکا بھرپورساتھ دیا۔ایک گھنٹے میں حسین بخش گلونے اپنی آوازکے جادوسے تمام لوگوں کوسحرذدہ رکھا۔ گلو صاحب اب کافی ضعیف ہوچکے ہیں۔سہارے سے چلتے ہیں۔ مگر آواز میں وہی گدازاورلوچ،جوجوانی میں تھا۔
دوسرے دن کی پہلی نشست افتخارعارف کی تھی۔ افتخارعارف کی شاعری کے متعلق ایک کالم میں بات کرنا نامناسب بھی ہے اورشائدغیرشائستہ بھی۔موجودہ دور کا قد آورترین شاعرافتخارعارف کمال انسان ہے۔لکھنوسے ہجرت کرکے کراچی آنااورپھرتلاشِ روزگارمیں ریڈیو پاکستان کراچی سے منسلک ہونے کے تمام واقعات کمال بے تکلفی سے افتخارصاحب بتاتے رہے۔یہ شخص شاعری کی حرمت ہے۔کسی بھی شاعرکوکسی دوسرے شاعرسے مقابلے میں پیش کرنادرست نہیں۔ہرتخلیق کاربڑاانسان ہوتا ہے۔ مگر جس خوبصورتی سے افتخارعارف اپنے خیالات کوشاعری میں پروتے ہیں،وہ ہرایک کے بس کی بات نہیں۔جس طرح پاکستان ٹیلی ویژن پرآئے۔کسوٹی جیسے بلندپایہ پروگرام کے روح رواں بنے،وہ تمام باتیں بیان کیں۔
محسوس ہواکہ عبیداللہ بیگ سے کمال دوستی رہی۔ان کی بارہا تعریف کرتے رہے۔ہربڑے آدمی کایہی خاصہ ہے کہ اپنی تعریف بالکل نہیں کرتابلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو لازوال کردیتاہے اوراسی مرحلہ میں خودبھی اَمر ہوجاتا ہے۔ضیاء الحق کے دورمیں افتخارعارف کو پاکستان سے جلاوطن ہوناپڑا،جس طرح انھوں نے بی بی سی پرمعاش کے لیے کام کیا۔افتخارعارف نے دل تھام کر تمام واقعات بتائے۔لکھنوکی عسکری تہذیب اورشاعری کاپختہ ادراک اسی عظیم شخص کے وجدان کاحصہ ہے۔کیسے کیسے عظیم شعراء کے ساتھ وقت بِتانے کاموقع ملا،یہ سب کچھ سننابذات خود ایک داستان ہوش رُباہے۔یاس سے لے کر اردوزبان کے ہر خوشبو دارشاعرسے نسبت رہی۔اس سے بھی بڑی بات کہ افتخاراپنے مزاج میں ایک سادہ دل انسان ہے۔ مجھے علم نہیں کہ وہ سرکاری نوکری کیسے اور کیوں کرپا رہا ہے۔ بہرحال ہرعہدے سے بڑاانسان ہے۔روزگارکے لیے سرکارکی نوکری کرنابہرحال کوئی غلط بات نہیں۔ خاکساربھی تیس برس سے اسی ریگستان میں انتظامی نوکری کررہاہے۔
اگلی نشست میں ضیاء محی الدین اپنی زندگی کے متعلق بھرپورطریقے سے بتارہے تھے۔آج کایہ کامیاب ستارہ، کس کس الجھنوں اورمشکلات سے گزرتا رہا ہے، اس کا اندازہ نہیں کیاجاسکتا۔گورنمنٹ کالج میں انھیں ڈرامیٹک کلب میں کام کرنے کاموقع نہیں دیاگیا۔مگرحیرت انگیز بات یہ ہے کہ کالج کے پرنسپل بخاری صاحب نے انھیں نوجوانی میں ہی لکھنے کی ہدایت کی۔کیوں۔اس کی وجہ ضیاء کو بھی معلوم نہیں۔لاہورسے لندن کے رائل تھیٹرتک جانے کاسفربے حددشواررہا۔مالی حالات اس درجہ کے نہیں تھے کہ فیس گھرسے منگوائی جاتی۔چنانچہ لندن میں ہرمشکل کام کیا۔ایک ریلوے اسٹیشن پر"پورٹر"یعنی قلی کاکام بھی کرتے رہے۔پھران کی اہلیت دیکھ کررائل اکیڈمی نے فیس معاف کردی۔بہت کم لوگوں کومعلوم ہے کہ ضیاء محی الدین امریکا میں ہالی وڈکی کامیاب فلموں میں بھی کام کرچکے ہیں۔"لارنس آف عریبیہ"ان میں سے ایک ہے۔ نیویارک میں براڈوے تھیٹرپرکام کرتے رہے۔مگران کی توجہ اورمحبت کامرکزلندن کاتھیٹرہی رہا۔پاکستان میں دوفلموں میں کام کرنے کاموقع ملامگریہاں قسمت کی یاوری نہ ہوپائی۔
دوسرے دن ہی مایہ نازفنکارہ ثانیہ سعیداورسلمان شاہدنے پاکستانی تھیٹرکے موضوع پرانتہائی دل آویز گفتگو کی۔حسینہ معین صاحبہ نے ڈرامہ لکھنے کے سفرپرروشنی ڈالی۔حسینہ پاکستان میں اردوڈرامے کی آبروہیں۔ان کے لکھے ہوئے کردارلوگوں کے دلوں میں سالہاسال سے زندہ ہیں۔لازوال کردار۔اس طرح مسعوداشعرجیسے عظیم کالم نگاراوراردودان لوگوں کی توجہ کامرکزبنے رہے۔ دودن لوگ جم کربیٹھے رہے۔نظم وضبط اسی درجہ کاتھاکہ جگہ نہ ملنے پرلوگ زمین پرکسی تکلف کے بغیربیٹھ رہے تھے۔
اس پورے فیسٹیول میں جہاں منتظمین نے کمال کیا تھا،وہاں چندکاروباری اداروں نے بھی خوب تعاون کیا۔ اس میں انٹرلوپ کے مالک اورمیرے ذاتی دوست مصدق ذوالقرنین پیش پیش تھے۔چینل41،اوراے پی پی نے بھی اس کی خوب تشہیرکی۔یہ تمام ادارے بھی فیسٹیول کی کامیابی کے ضامن تھے۔مگرکمال توفیصل آبادکے لوگوں نے کیا۔ثابت کرڈالاکہ علمی وادبی شعورمیں کسی بھی شہر سے پیچھے نہیں،بلکہ دوسرے شہروں کے لیے مثال بن سکتے ہیں۔بلکہ بن چکے ہیں۔صاحبان!پتہ ہی نہیں چلاکہ دودن کیسے گزرگئے۔شائدایک پَل میں۔مگراب یہ خوشگواریادیں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہیں۔یہی ہماراادبی ورثہ ہے۔خدااس ورثہ کوقائم رکھے!