دشمن کو سامنے رکھیں
پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی ہے یا ہمارے اعمال نے یہ رنگ وروپ اختیار کر لیا ہے کہ باہرسے دشمن کی للکاریں سنائی دے رہی ہیں
ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ لکھنے بیٹھیں تو سمجھ نہ آئے کہ کیا لکھیں کیونکہ آج کل لکھنے کے لیے مواد اتنا زیادہ ہے کہ یہ سمجھ نہیں آتا کہ کس موضوع پر لکھیں، کس کا رونا روئیں، کس کس رنج و الم کا تذکرہ کریں اور کس کا نوحہ لکھیں۔
آج کل وطن عزیز کے حالات کچھ اس طرح کے ہو گئے ہیں کہ پاکستانی پھٹی پھٹی نمناک نظروں سے خلاؤں میں گھور رہے ہیں ،ان کے دلوں کی دھڑکنوں میں توازن نہیں، یہ دھڑکنیں کبھی تو تیز ہو جاتی ہیں ،کبھی بالکل ہی بیٹھ جانے لگتی ہیں۔ ٹانگیں نامعلوم خطرات کا سن کر کانپ رہی ہیں اور بیٹھ جائیں تو دل کی بے کلی چین نہیں لینے دیتی۔
پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی ہے یا ہمارے اعمال نے یہ رنگ و روپ اختیار کر لیا ہے کہ باہر سے دشمن کی للکاریں سنائی دے رہی ہیں اور اندر سے ہم اپنوں کی للکاریں سن بھی رہے ہیں اور ان کو اپنی للکاریں سنا بھی رہے ہیں ۔ جنگ کے بیرونی محاذوں کے علاوہ ہم نے کئی محاذ اندرونی طور پر بھی کھول رکھے ہیں۔
یہ اندرونی محاذ ہمارے کسی مخالف نے نہیں بلکہ ہماری حکومت اپنی حماقتوں سے ہی ان اندرونی محاذوںمیں مصروف ہے جن کی وجہ سے حالات خطرناکی کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ بلوچستان کی اگر بات کی جائے تو وہاں سے آئے روز کسی نہ کسی شورش کی خبر آجاتی ہے۔ بیرونی دشمنوں نے بلوچستان کو اپنا تختہ مشق بنایا ہوا ہے اور یہ خبریں بھی گردش میں ہیں کہ بھارت نے کروڑوں ڈالر بلوچستان میں شورش برپا کرنے کے لیے مخصوص کر دیے ہیں جس کا مقصد پاک چین راہداری منصوبہ کو ناکام بنانا ہے، اس حوالے سے بھارت کھلم کھلا جارحیت پر اترا ہو ا ہے۔
اس راہداری منصوبہ نے فوج کی نگرانی میں مکمل ہونا ہے اور اس کی سیکیورٹی کی ذمے داری بھی فوج کی ہے، اس لیے بھارت جمع خاطر رکھے۔ یہ منصوبہ مکمل بھی ہوگا اور اس کے فوائد پاکستان کو منتقل بھی ہوں گے۔ پاکستان کو متوقع فوائد دیکھ کر بھارت نے ابھی سے بلبلانا شروع کر دیا ہے۔
بھارت کی حالت وہی ہے جب اونٹوں نے اپنے سامنے رکھے بوجھ کو دیکھ کر ہی بلبلانا شروع کر دیا تو بھارت بھی پاکستان کی ترقی کے منصوبہ کو دیکھ کر اس میں رخنہ اندازی کرنا چاہتا ہے ، اس نے پاکستان کے علاوہ بیرون ملک پاکستان کے خلاف بلوچستان کی آزادی کے بارے میں اشتہارات کی بھر مار شروع کر رکھی ہے جس کے لیے وہ بلوچستان کی نام نہاد علیحدگی پسند تنظیموں کی سر پرستی کر رہا ہے جن سے وابستہ افراد بیرون ملک بیٹھ کر پاکستان مخالف مہم میں اس کے شریک کار بنے ہوئے ہیں۔
بھارت نے افغانستان میں اپنے آپ کو مضبوط بناتے ہوئے افغانستان کے بڑے شہروں اور خاص طور پر پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بلا ضرورت اپنے قونصل خانے قائم کر رکھے ہیں جن کا واحد مقصد باآسانی پاکستان کے سرحدی علاقوں کے اندر شورش پیدا کرنا ہے اور اس میں رکاوٹ ڈالنے والا بھی کوئی نہیں کہ افغانستان خود اپنی سلامتی کی جنگ لڑ ر ہا ہے اور اس کی بربادی کے اپنے الگ قصے ہیں۔
اندورن ملک اگر معاشی ناہمواری کی بات کی جائے تو حال یہ ہے کہ ایک طرف تو پاکستان کی سڑکوں پر لاکھوں نئی چمکدار گاڑیاں فراٹے بھر رہی ہیں تو ان کے ساتھ ہی افتاں و خیزاں پیدل چلنے والوں کو محفوظ راستہ نہیں ملتا کہ وہ اپنا سفر جاری رکھ سکیں لیکن جب اس سلسلے میں کچھ عرض کیا جائے تو سڑکوں کے ہمارے شوقین حکمران اور سیاستدان ناراض ہو جاتے ہیں کہ انھیں تو ہر طرف امن و خوشحالی دکھائی دے رہی ہے تو کیااخبار والوں کی نظریں خراب ہو گئی ہیں کہ ان کو امن و خوش حالی نظر نہیں آتی۔ ہمارے حکمران کل بھی اقتدار کی مسند پر براجمان تھے اور آج بھی ہیں۔
امریکا کے ایک سابق صدر کو اس کے امیر و کبیر باپ نے کہا تھا کہ فکر نہ کرو اگر تم الیکشن ہار بھی گئے تو میں تمہیں ایک ملک خرید دوں گااور آج یہ صورتحال ہم اپنے ہاں بھی دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے جدی پشتی حکمرانوں نے لوٹ مار کر دولت کا اتنا ذخیرہ کر رکھا ہے کہ وہ بھی اپنے سیاسی جانشینوں کے لیے الیکشن میں ہار کی صورت میں ایک ملک خرید سکتے ہیں اور اس کی ادائیگی غیر ملکی کرنسی میں بھی کر سکتے ہیں۔
یہ بھی درست ہے کہ ان کے پاس سرمایہ بھی ہے لیکن ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ جن کاا پنا گھر نہیں ہوتا ان کو کوئی گھاس بھی ڈالتا ہے بلکہ اب تو ہوٹلوں والے بھی اتا پتہ پوچھ کر ہی کمرہ دیتے ہیں۔ اشرافیہ کو یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ دولت کی طاقت ہمیشہ مشروط ہوتی ہے۔ بعض اوقات تو زر کثیر کے باجود قبر کی بھی جگہ نہیں ملتی اور اس طرح کی کئی مثالیں ہمارے ارد گرد بکھری پڑی ہیں۔
شاہ ایران سے لے کر صدام حسین اور کرنل قذافی کی دولت دنیا میں ہی رہ گئی، اسی طرح پاکستان کی اشرافیہ کی آنکھوں پر بھی دولت کی چربی بہت چڑھ گئی ہے، انھیںکچھ دکھائی نہیں دیتا بلکہ آمدن سے زائد اثاثے اور رہن سہن کے بارے میںاگر کوئی سوال کر بیٹھے تو جواب ملتا ہے کہ آپ کو اس سے کیا تکلیف ہے ۔
عوام تو سوال ہی کر سکتے ہیں جواب دینا یا نہ دینا حکمران کی مرضی پر منحصر ہو تا ہے، ہاں ایک بات ضرور ہے کہ اگر حکمران کی جانب سے عوام کے سوالوں کا تسلی بخش جواب نہ ملے تو تو عوام کسی بھی حکومت سے ناراضگی کو الیکشن میں نکال لیتے ہیں اور اپنی پسند کی حکومت لے آتے ہیں۔
دشمن تو ہر ملک کے ہوتے ہیں چاہے وہ اندرونی ہوں یا بیرونی اور اس تاک میں بھی ہوتے ہیں کہ کوئی کاری ضرب لگا سکیں اس لیے حکومت کو اپنے کان اور آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں اور حالات کو ایسا رکھا جائے کہ دشمنوں کو متحد اور منظم قوم سے خوف آتا رہے اور ایسی صورت پیدا نہ ہونے دی جائے جس سے کوئی دشمن فائدہ اُٹھا سکے لیکن ہم خود ہی بعض اوقات حالات کو اس نہج پر لے جاتے ہیں کہ دشمن کو ہمارے اندر رخنہ ڈالنے کا موقع مل جاتا ہے اور یہی رخنہ بسا اوقات بڑی خرابی کا باعث بن جاتا ہے اور ملک میں انتشار پھیل جاتا ہے اس انتشار سے جذبات سے نہیں عقل سے ہی نپٹا جا سکتا ہے۔