مقامی سطح پر پی پی پی اور عوام میں فاصلے

میر نادر علی مگسی کے کیمپ کی رونقیں ماند پڑنے لگیں۔


Deedar Sumro March 13, 2013
میر نادر علی مگسی کے کیمپ کی رونقیں ماند پڑنے لگیں۔ فوٹو: فائل

شہداد کوٹ، پیپلزپارٹی کی شہید قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کا روایتی حلقۂ انتخاب رہا ہے۔

ان کی شہادت کے بعد پی پی پی کی راہ نما اور صدرآصف علی زرداری کی بہن فریال تالپور نے شہداد کوٹ سے اس حلقے پر کام یابی حاصل کی۔ موجودہ حکومت کی رخصتی اور نگراں حکومت کے لیے سیاسی میدان میں بات چیت آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے، لیکن مقامی سطح پر پی پی پی کی طرف سے کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دے رہی۔

پیپلزپارٹی کی مخالف جماعتوں نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہیں اور عام انتخابات میں نتائج ماضی کے مقابلے میں مختلف ہوسکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ پارٹی کے کئی عہدے دار اور فعال کارکن سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے کے بعد سیاسی سرگرمیوں سے دور ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے مقامی سطح پر پی پی پی کا عوام سے رابطہ کم زور ہو گیا ہے۔

یہاں سے فریال تالپور ایم این اے اور میر نادر علی مگسی ایم پی اے منتخب ہوئے ہیں اور دونوں پی پی پی کی بااثر شخصیات ہیں۔ ان کی اسمبلیوں میں موجودگی کے باوجود شہر کی حالت ابتر ہے اور عوام پریشان ہیں۔ پی پی پی کے بعض راہ نماؤں پر ملازمتوں کی بندر بانٹ، اداروں میں کرپشن اور اپنوں کو نوازنے کے الزامات عاید کیے جارہے ہیں، جس نے مقامی شہریوں اور پیپلز پارٹی کے درمیان خلیج پیدا کردی ہے۔

کہا جارہا ہے کہ محکمہ خوراک، تعلیم، صحت اور ریونیو سمیت دیگر محکموں میں اہلیت رکھنے والوں کے بجائے بااثر سیاسی شخصیات کے منظور نظر افراد کو ملازمتیں دی گئی ہیں، جس کے باعث پیپلزپارٹی کی مخالفت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس ساری صورت حال سے دیگر جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ(ن) اور فنکشنل لیگ نے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔ تھوڑا عرصہ قبل جن سیاسی جماعتوں اور قائدین کا لوگ نام لینا گوارا نہیں کرتے تھے، آج شہر میں ان کی تصاویر اور مختلف نعروں پر مبنی بینر آویزاں ہیں۔

مقامی سطح پر پی پی پی کے مخالفین کے جلسوں میں عوام کی بڑی تعداد کی شرکت سے واضح ہوتا ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کی مقامی قیادت سے نالاں ہیں اور اس کے اثرات عام انتخابات میں ظاہر ہوں گے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت میں صوبائی وزیر خوراک میر نادر علی مگسی ضلع قمبر شہداد کوٹ میں سیاہ وسفید کے مالک رہے، ان کے حکم پر تمام تقرریاں اور تبادلے ہوتی رہی ہیں، ضلع میں دو ایم این اے اور چار ایم پی اے ہیں، مگر فریال تالپور کے علاوہ تمام منتخب نمایندے ایک صوبائی وزیر کے رحم وکرم پر رہے۔

تاہم حکومت کی رخصتی کے قریب صوبائی وزیر میر نادر علی مگسی کے طاقت ور ترین حریف اور چانڈیہ قبیلے کے سربراہ نواب سردار احمد چانڈیو کی پیپلزپارٹی میں شمولیت کے بعد ضلع میں اختیارات دو شخصیات کے درمیان واضح طور پر تقسیم ہوگئے۔ سردار احمد چانڈیو کی پی پی پی میں شمولیت رکن اسمبلی فریال تالپور کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ دونوں شخصیات نے اپنے اپنے علاقوں کے افسروں کی اکھاڑ پچھاڑ شروع کردی ہے اور مختلف محکموں میں من پسند افسران کی تعیناتی عمل میں لائی جارہی ہے۔

نادر علی مگسی کے کیمپ سے تعلق رکھنے والی سیاسی شخصیات نے بھی اپنی ہم دردیاں سردار احمد خان چانڈیو کے پلڑے میں ڈال دی ہیں۔ یہ بات ان کی پیپلزپارٹی میں شمولیت کے باضابطہ اعلان کے سلسلے میں منعقدہ جلسۂ عام میں سامنے آئی، کیوں کہ اس تقریب میں ان کے مخالف کیمپ کے کئی لوگ شریک تھے۔ پیپلزپارٹی کو ضلع میں ماضی کی طرح بھرپور مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ تاہم سیٹوں پر ایڈجسٹمنٹ میں قدرے پریشانی ضرور ہوگی، کیوں کہ ضلع میں پارٹیوں کے بجائے افراد مضبوط ہیں۔

مگسی اور چانڈیہ قبائل سیاسی لحاظ سے بھی طاقت ور ہیں اور پیپلزپارٹی میں سردار خان کی شمولیت سے قبل کافی عرصہ تک دونوں قبائل کے سربراہ سیاسی طورپر ایک دوسرے کے بڑے حریف کے طورپر آمنے سامنے رہے ہیں۔ متوقع عام انتخابات کے لیے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، فنکشنل لیگ اور دیگر جماعتوں کے امیدواروں نے پارٹی ٹکٹ کے لیے درخواست دی ہے۔ اگر پیپلزپارٹی کی مخالف جماعتوں، سیاسی شخصیات اور بااثر سرداروں نے اتحاد کر کے الیکشن میں حصہ لیا تو پھر ضلع قمبر شہداد کوٹ کی دو، تین نشستوں پر پیپلزپارٹی کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں