تباہی کے راستے
آج ہمیں پاکستان میں آئین و قانون کی بالادستی کہیں نظر نہیں آتی، طاقتور اور کمزور کے لیے انصاف کے پیمانے الگ الگ ہیں۔
عید میلادالنبیؐ کے موقع پر مجھے علامہ اقبال کا یہ شعر بار بار یاد آرہا ہے کہ:
خوب ہے تجھ کو شعار شاہ یثرب کا پاس
کہہ رہی ہے زندگی تیری کہ تو مسلم نہیں
پاکستان مسلمانان ہند نے اس لیے بنایا تھا کہ یہاں ایک فلاحی اسلامی ریاست اور اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھی جائے گی، جہاں امن و آشتی اور مساوات کا دور دورہ ہوگا۔ لوگوں کو اپنے اپنے مذاہب، عقائد، اظہار رائے کی آزادی اور تحفظ حاصل ہوگا۔ جس کے لیے علامہ اقبال نے سیکڑوں برس کی غلام قوم میں ایک نئی روح پھونکی، اسے رفعت کی بلندیوں تک پہنچانے کے لیے اس کے ضمیر کو جھنجوڑا، خودی کا درس دے کر اس کی بد دلی و بے حسی کو امنگ و جدوجہد سے ہمکنار کرنے کی کوششیں کیں۔ اقبال کا کلام قرآن پاک کی ترجمانی اور ان کی شاعری عشق رسولؐؐ کی طرف راغب کرتی ہے۔
کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
علامہ اقبال کے کلام کا ایک ایک لفظ اپنے اندر مقصدیت، تربیت اور اصلاح کا پہلو رکھتا ہے۔ جمود توڑ کر اور بددلی اور بے حسی کو چھوڑ کر عزم و ولولے کے جذبے سے سرشار کرتا ہے، قوم کو بے غیرتی، محکومی اور محرومی سے نکلنے کی راہ دکھاتا ہے، اپنی خودی پہچاننے، پوشیدہ قوتوں کو عیاں کرنے اور شاہی ایوانوں کے بجائے اپنا طواف کرنے اور اپنے مقام سے آگاہ ہونے کا درس دیتا ہے۔ لیکن اقبال کے خواب کو ایک منظم سازش کے تحت چکنا چور کردیا گیا ہے۔
کلام اقبال جو طلبا کو ازبر کرایا جاتا تھا، تقریروں اور تحریروں میں اس کا برجستہ استعمال کیا جاتا تھا، قومی پروگراموں میں خبرنامے سے پہلے اور بعد میں نشر کیا جاتا تھا، اس کا سلسلہ تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ مسلم لیگی حکومت نے، جو پاکستان کی خالق ہونے کی دعویدار ہے، اس نے قومی تعطیلات کی فہرست میں یوم اقبال کی چھٹی کو سب سے غیر اہم سمجھتے ہوئے ختم کردیا اور پھر اس تعطیل کی بحالی کی سمری کو اسی حکومت کے وزیر نے بجائے کوئی حکم تحریر کرنے کے اقبال کا ایک شعر تحریر کرکے اپنی جان خلاصی کرلی۔
بدقسمتی سے ہم اقبال سے ناآشنا ہی رہے ہیں، جو کچھ آشنائی تھی اسے بھی بھول کر انگریز کی محکومی سے بڑھ کر عالمی محکومی میں جکڑتے جارہے ہیں۔ کسی نے صحیح کہا تھا کہ اگر انگریز اقبال کو سمجھ جاتا تو ان کی زندگی کا ایک دن بھی قید فرنگ سے باہر نہ گزرتا اور اگر مسلمان انھیں سمجھ جاتا تو ایک دن بھی غلام نہ رہتا۔
مجھ کو بھی تمنا ہے کہ ''اقبال'' کو دیکھوں
کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے
آج ہمیں پاکستان میں آئین و قانون کی بالادستی کہیں نظر نہیں آتی، طاقتور اور کمزور کے لیے انصاف کے پیمانے الگ الگ ہیں۔ طاقت کے مظاہرے کے ذریعے کوئی بھی پرتشدد گروہ اپنے مطالبات منوا سکتا ہے، اداروں اور ارباب اقتدار و اختیار کے فکر و عمل میں تضادات ہیں۔ سیکیورٹی معاملات پر ادارے بٹے ہوئے ہیں۔ عدم برداشت، لسانیت اور فرقہ وارانہ منافرت اپنے عروج پر ہے، الزام تراشی اور انتشار کی سیاست، مذہبی و سیاسی بلیک میلنگ تمام حدود پار کرچکی ہے۔ انتشار و افتراق کے راستے نے ہمیں تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہے۔ عوام اپنی جان و مال اور مذہب و عقیدہ سے متعلق شدید تحفظات کا شکار ہیں۔
مملکت خداداد میں کمزوروں کے ساتھ روح فرسا مظالم کا لامتناہی سلسلہ روز بروز دراز ہوتا جا رہا ہے۔ بچوں پر انسانیت سوز اور سفاکانہ مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ خواتین کی جانیں اور عزتیں تار تار کرکے انھیں سڑکوں اور بازاروں میں برہنہ گھمایا جارہا ہے۔ جنھیں روکنے کی عوام میں تو ہمت نہیں ہے، پولیس بھی ان کے خلاف کارروائی کرتے تھر تھر کانپتی ہے، بلکہ اسے الٹا مظلومین کے خلاف کارروائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ ایسے واقعات کے پیچھے ہمیشہ طاقتور طبقات کا ہاتھ کارفرما ہوتا ہے۔
شاہ رخ کیس میں ملزمان کی سزائیں معطل کردی گئی ہیں، جن کے مظالم کے خلاف سول سوسائٹی کے شدید احتجاج کے بعد کارروائی عمل میں آئی تھی۔عام طور پر طاقتور لوگوں کے خلاف مقدمے کے گواہان بھی شدید خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں۔ طاقتور ملزمان عدالتوں میں سیٹیاں بجاتے ہیں، عدالت آتے جاتے فاتحانہ انداز میں وکٹری کا نشان بناتے ہیں، جیسے کوئی کارنامہ انجام دیا ہو۔ ان کے ہشاش بشاش اور توانا چہروں سے کہیں ندامت و شرمندگی کا احساس تک نہیں ہوتا ۔ ان کے چہروں پر اعتماد اور طبیعت میں جولانی نظر آتی ہے، اس کے پیچھے شاید ان کا یہ اعتماد ہوتا ہے کہ ان کے سرپرست انھیں باآسانی باہر نکال لائیں گے۔
کئی برس کے بعد سزا کا فیصلہ اور اس کے بعد اس سزا کی معطلی کا فیصلہ، ایسے عناصر کے حوصلے مزید بلند کرنے اور پولیس و عوام میں ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کے جذبے اور انصاف کے عمل پر ان کے اعتماد کو مزید کمزور کرے گا۔ اس قسم کے لاتعداد واقعات قانون سے اٹھتے اعتماد کا مظہر ہیں۔
ملک میں گزشتہ کئی ہفتوں سے جو کچھ ہو رہا ہے، دھرنوں میں اور دھرنوں پر جس قسم کی سیاست کی گئی، ٹی وی چینلز پر جس انداز میں غیرمحتاط، غیر مہذب اور اپنے اپنے مفادات اور منشا کے مطابق تبصرے و بحث ہوئے، اس میں حکومت اور اداروں کا جو کردار سامنے آرہا ہے وہ ہر محب وطن اور سچے مسلمان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ عوام کو بری طرح تقسیم کردیا گیا ہے۔ ریاست اور مفتیان کرام کا اختیار لوگوں نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے، حتیٰ کہ محض سیاسی وابستگی کی بنا پر وزرا تک کے گھروں پر حملے ہو رہے ہیں۔ وزرا کو استعفے سمیت آستانوں میں طلب کیا جا رہا ہے اور وہ جاں بخشی کے لیے ایسا کر بھی رہے ہیں۔
اس وقت ملک بیرونی سے زیادہ اندرونی خطرات میں بری طرح گھرا ہوا ہے، قانون کی حکمرانی اور اداروں کی اپنے اپنے دائرہ کار میں فعالیت وقت کی بڑی ضرورت ہے۔ ان نامساعد حالات میں قوم میں روح پاکستان کا دوبارہ بیدار اور ولولہ اور عزم پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ بے حسی اور ذاتی و گروہی مفادات سے بالاتر ہوکر اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں۔ اس کے لیے اقبال شناسی اور فلسفہ اقبال ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔