لیبیا کا کریہہ چہرہ
لیبیا میں یورپ جانے کے خواہش مند، سب صحارا افریقا سے آئے ہوئے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔
سی این این کی جاری کردہ چھ منٹ کی ویڈیو دیکھ کر آنکھیں نم ہوگئیں۔ آخر ایسا کیا تھا اس ویڈیو میں؟ بلکہ یہ سوال زیادہ بہتر ہے کہ ایسا کیا نہیں تھا اس ویڈیو میں جو خون کے آنسو رلا دے، پتھر دلوں کو بھی رسنے پر مجبور کردے، اور تہذیب یافتہ کہلائی جانے والی دنیا کے مقدس اصولوں کے سامنے بڑا سا سوالیہ نشان لگا دے۔
لٹے پٹے، مفلوک الحال کالی چمڑی والے انسان کی فروخت کے لیے لگایا ہوا بازار اس ویڈیو کا موضوع ہے۔ اپنے مالک کے انتظار میں کھڑے بے بس آدمی کے سیاہ چہرے پر چمکتی سفید آنکھوں میں صدیوں کی تھکن نمایاں ہے۔ بیچنے والا اس کی غلامانہ خصوصیات بیان کر رہا ہے اور خریدنے والے اپنی حیثیت کے مطابق دام لگا رہے ہیں۔ بالآخر آٹھ سو ڈالر میں سودا طے ہو ہی گیا۔ انسانیت کی نیلامی میں محض چند منٹ ہی لگے۔
البتہ ویڈیو میں یہ نہیں دکھایا گیا کہ نئے مالک نے اس کے گلے میں کس رنگ کا پٹا ڈالا یا ہاتھوں میں کتنی لمبی رسی ڈال کر اس کو کیسے کھینچتے ہوئے لے کر گیا۔ آیا اسے گھٹنوں کے بل چلا کر لے گیا یا پیروں پر کھڑا رہنے کی اجازت دی۔ ویڈیو یہیں ختم نہیں ہوئی۔ مزید دردناک مناظر بھی اس کا حصہ ہیں۔ ویڈیو میں مہاجرین کے حراستی مراکز بھی دکھائے گئے، جن میں ہر عمر کے مرد اور عورتیں قید ہیں، وہ روتے ہوئے اپنی اپنی داستانیں سنا رہے ہیں، دور جاہلیت کی یادیں تازہ کرتی داستانیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق لیبیا کے ان حراستی مراکز میں بیس ہزار افریقی قید ہیں۔ یہ سب یورپ جانے کی خواہش میں، اسمگلروں کے ہتھے چڑھ کر اپنی آزادی کھو چکے ہیں۔ اچھے مستقبل کی امید کے گناہ نے ان کا حال برباد کردیا۔ سی این این کے صحافیوں نے لیبیا میں نو ایسے مقامات کی نشان دہی کی ہے جہاں غلاموں کی باقاعدہ فروخت کے لیے بازار لگایا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ان کا خیال ہے کہ یہ تعداد نو سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔
لیبیا میں یورپ جانے کے خواہش مند، سب صحارا افریقا سے آئے ہوئے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ اقوام متحدہ نے سات لاکھ تارکین وطن کی لیبیا میں موجودگی کے اعداد وشمار ظاہر کیے ہیں۔ ان میں زیادہ تر گھانا، نائیجیریا، کیمرون، زیمبیا، سینیگال، گیمبیا اور سوڈان کے باشندے ہیں، جن کے سپنوں کی منزل تھی یورپ۔ مگر تعبیر اسمگلروں کے ہاتھوں اغوا ہوکر غلامی کی زندگی قرار پائی۔
یہاں ہر ہفتے سیکڑوں غلام چار سو سے آٹھ سو ڈالر میں فروخت کیے جا رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ظلم کی جو داستانیں پوری دنیا میں سفر کر رہی ہیں، خود لیبیا کی انتظامیہ تک نہ پہنچ سکیں اور حکومتی ارکان خود کو ان تمام معاملات سے قطعاً نابلد اور لاعلم ظاہر کر رہے ہیں۔ لہٰذا ان کو غیرملکی میڈیا اب چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ جناب! لیبیا کا شہر سبھا تو یورپ جانے والے خواہش مندوں کا داخلی راستہ ہے، جہاں سے وہ سمندر کے راستے یورپ میں داخلے کا جھانسا دے کر قیدی بنا لیے جاتے ہیں، بہت سے اسمگلروں کے ہاتھوں مار دیے جاتے ہیں، بہت سے افریقی صحرا کی جھلساتی گرمی میں پیاس کی شدت سے ہلاک ہوجاتے ہیں، جن کی بے گوروکفن لاشوں سے سبھا کا مردہ خانہ بھرا پڑا ہے۔ ان ناقابل شناخت لاشوں کے ورثاء اپنے عزیزوں پر بیت جانے والی قیامت سے یکسر لاعلم ان کے منتظر ہیں، اور جو بدنصیب بچ جاتے ہیں وہ حراستی مراکز میں قید کرکے غلاموں کے طور پر بیچے جارہے ہیں۔
ایسا لگتا ہے دنیا نے ساری ترقی وقت کے ایسے پہیے پر بیٹھ کر کی ہے جو گھومتا گھومتا اپنے اسی نقطہ آغاز کی طرف لوٹ چکا ہے، جہاں انسان ہر قسم کے عقل و شعور سے عاری تھا۔ بے مہار ترقی اور جدید تعلیم کے یہ گھناؤنے ثمرات سمیٹنے کو تہذیب کا دامن تنگ پڑ چکا ہے۔ غلاموں کی شکل میں انسان کی فروخت جدید انسانی تاریخ کا وہ بدترین زلزلہ ہے جس نے ترقی یافتہ دنیا کو منہ کے بل گرا دیا ہے۔ لیبیا نے ارتقا کی کئی کروٹیں بدلی ہیں۔ یہاں کی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو یہ ہمیشہ سے ایک پراسرار ملک رہا ہے۔
ستر کی دہائی میں ہر قسم کے ٹیکس سے آزاد بظاہر آسودہ دکھائی دینے والے لیبیائی باشندے اس وقت بھی کسی انجانے خوف کا شکار تھے۔ اسی خوف کے زیراثر وہ معاشرے میں ہونے والی منفی تبدیلیوں کا بھی بانہیں کھول کر استقبال کرتے رہے۔ خود کو مذہبی شعائر کا پابند قرار دینے والے معمر قذافی کے دور میں پانچ وقت کی نماز، داڑھی اور حجاب کو جب ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا تو شہریوں نے کلین شیو ہوکر اس تبدیلی کا خیرمقدم کیا۔
مراکش سے نوکری کے لیے آنے والی عورتیں جب لیبیا میں طوائفوں کے روپ میں پھیلا دی گئیں تو بھی لیبیائی باشندے کچھ نہ بولے، انگریزی کی تمام درسی اور غیردرسی کتابوں کو سر بازار آگ لگا کر ان سے طلبا کی جان چھڑائی گئی تو بھی لیبیائی عوام نے مارے خوشی کے الفتح الفتح کے نعرے بلند کیے۔
قذافی کے بعد جب لیبیا نے بد سے بدترین کا سفر کیا تو بھی لیبیا کی سڑکوں پر وہی ہولناک سناٹا رہا اور عوام خود کو زندگی کے جھمیلوں میں گم کرتے رہے۔ لیکن لیبیا نے اس بار غلاموں کی منڈیاں سجا کر ارتقا کے سفر میں ایک اور نئی کروٹ نہیں لی بلکہ زقند ہی بھر لی ہے، جس کے خلاف دنیا بھر میں باشعور لوگ غلامی نامنظور کے بینر اٹھائے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ سوئیڈن، فرانس اور برطانیہ میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ لیبیائی باشندے اسی خاموشی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
تیزی سے بدلتے وقت نے جو نیا سماج تشکیل دیا ہے اس میں انسانیت کا دم گھوٹنے کو ماضی کے سارے وحشی اور جابر کردار فقط نام کی تبدیلی کے ساتھ بڑی شان سے موجود ہیں۔ لیبیا میں غلاموں کی فروخت سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ انسان اشرف المخلوقات کے درجے سے کہیں نیچے گر چکا ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے تشکیل کردہ ایک ٹیم نے لیبیا میں بنائے گئے ان حراستی مراکز کا دورہ کیا، ہزاروں مردوں، عورتوں اور بچوں کو ایک دوسرے کے اوپر لدے دیکھ کر ان کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔
یہاں غلاموں کو بے لباس کرکے لٹکانا اور ان کے ساتھ جنسی زیادتی اور تشدد عام بات ہے۔ لیکن اس قبیح فعل میں صرف لیبیا کو ذمے دار قرار دینا کافی نہیں بلکہ اس کا ذمے دار پورا یورپ ہے جو تارکین وطن کو قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔
یورپی یونین نے ہزاروں یورو نائیجیرین پولیس کو دیے تاکہ وہ لیبیا کے راستے یورپ میں داخل ہونے والے مہاجرین کا راستہ روک سکے۔ اسی طرح اٹلی کی حکومت نے لیبیا کے کوسٹل گارڈز کو کئی ملین یورو سے نوازا تاکہ وہ مہاجرین کو یورپ میں داخل ہونے سے روکنے کے آپریشن کو مزید تیز کردیں۔
یورپ کی ایما پر ان مہاجرین کے خلاف کارروائی کی گئی اور ان کو پکڑ پکڑ کر بند کردیا گیا۔ اور اس کے بعد ان کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کے واقعات لہو رو رہے ہیں۔ یہ کہنا ہرگز بے جا نہ ہو گا کہ جدید دور میں پرانی غلامی یورپ کی بند سرحدوں پر زندہ کی جارہی ہے۔ سرحدوں پر لگی باڑیں انسانیت کو لہولہان کر رہی ہیں، ملکوں کو تقسیم کرتی ہوئی دیواروں کے نیچے اخلاقی قدریں دفن ہو رہی ہیں۔
لیبیا اور یورپ کے حکمرانوں کو جھنجھوڑنا اس وقت اہم ترین ہے۔ دنیا بھر کے انسان دوستوں کو آگے آکر مطالبہ کرنا ہوگا کہ فی الفور تمام حراستی مراکز کو بند کرکے قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ یہاں اب تک ہونے والی تمام بدسلوکیوں اور غلام بنا کر فروخت کیے جانے کے واقعات کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کروائی جائیں، اور مجرموں کو صرف چند لوگوں کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا مجرم قرار دے کر عبرت کا نشان بنایا جائے۔
مہاجرین کے حوالے سے یورپ کی تمام پالیسیوں کو ازسرنو مرتب کیا جائے۔ یورپی ممالک اپنے گرد جو فصیل قائم کر رہے ہیں اس کو توڑ کر انسانوں کی نقل و حمل کو آسان ترین بنایا جائے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر ان پالیسیوں کے مزید دردناک نتائج بھگتنے کے لیے سب اپنی اپنی باری کا انتظار کریں۔