دھرنا معاہدہ پارلیمنٹ یا کابینہ میں پیش کیا جائے اسلام آباد ہائیکورٹ

معاہدے میں آرمی چیف کا نام آنے پر سیکریٹری دفاع سے جواب طلب،بیرسٹرظفراللہ نے حلفنامہ تبدیلی کی تحقیقات سے معذرت کرلی


Monitoring Desk/Numainda Express December 05, 2017
دھرنے میں املاک تباہ ہوئیں،پولیس پر تشدد کیا گیا، اہلکاروں کی تسلی نہ ہوئی تودہشت گردی مقدمات ختم نہیں ہونے دونگا، جسٹس شوکت۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیض آباد دھرنے سے متعلق کیس میں تحریری حکم نامے میں قرار دیا ہے کہ سیکریٹری دفاع دھرنا مظاہرین اورحکومت کے درمیان معاہدے میں آرمی چیف کا نام استعمال کرنے کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کریں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ پولیس والوں کو دھرنے میں مارا گیا، اس لیے کہ وہ پولیس کی وردی میں تھے، اگر خاکی وردی میں ہوتے تو پورے ملک میں شور مچ جاتا،مساجد اور مدارس سے کفر کے فتوے بند کرائے جائیں،اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کوئی نہیں بچے گا۔ خادم رضوی خون کیسے معاف کر سکتے ہیں؟ جب کہ تحریک لبیک کا دوسرا گروپ کہہ رہا ہے کہ انھوں نے کروڑوں روپے لیے، دھرنامنتظمین نے طرح طرح کی جو باتیں منسوب کیں اس سے تو وہ خود گستاخی کے مرتکب ہوئے، معاہدے کی ایک شق بھی قانون کے مطابق نہیں، یہ معاہدہ نہیں مظاہرین کے مطالبات ہیں ۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کی جانب سے پولیس آپریشن کی ناکامی پر سربمہر رپورٹ پیش کی گئی جبکہ چیف کمشنر اسلام آباد نے بھی رپورٹ پیش کی۔عدالتی حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ عدالت نے اٹارنی جنرل کو دو تجاویز دی ہیں جن میں پہلی معاہدے کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں زیر بحث لایا جائے،جبکہ دوسری وفاقی کابینہ کے سامنے معاہدے کو پیش کیا جائے۔

اٹارنی جنرل کی جانب سے دوسری تجویز سے اتفاق کیا گیا ہے۔ اٹارنی جنرل دھرنا مظاہرین کے ساتھ معاہدے کی آئینی اور قانونی حیثیت سے آگاہ کریں۔4 صفحات پر مشتمل حکمنامہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے تحریر کیا، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سپریم کورٹ میں دھرنے سے متعلق کیس زیر سماعت ہے، جب تک وہ کوئی فیصلہ نہیں سناتی، مزید کاروائی نہ کی جائے۔

جسٹس شوکت صدیقی کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کی جانب سے جو تجاویز دی گئی ہیں وہ سپریم کورٹ کے حکم نامے میں شامل نہیں لیکن پھر بھی عدالت سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک کوئی قابل ذکر فیصلہ جاری نہیں کرے گی۔ فاضل جج نے ریمارکس دیے کہ پولیس والوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، سرکاری املاک کو نقصان پہنچا، اسکا کیا ہو گا۔ جو سرکاری املاک کا نقصان ہوا اسکا ازالہ کیاوفاقی اور صوبائی حکومت کرے گی، دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج مقدمات کیسے ختم کئے جاسکتے ہیں؟ مجروح میں ہوا ہوں، زخمی میں ہوا ہوں، ریاست کون ہوتی ہے فیصلہ کرنے والی۔ عدالت اس معاہدے کی توثیق نہیں کرسکتی، جب تک پولیس والوں کی تسلی نہیں کی جاتی مقدمات ختم نہیں ہونے دینگے۔

فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ دھرنے والوں کیخلاف دہشت گردی کی دفعات ختم نہیں ہونے دوں گا،آپ خودپارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتے ہیں ،میں پارلیمنٹ کوعملی طور پر طاقتور بنانا چاہتا ہوں۔ مزید سماعت 12 جنوری تک ملتوی کر دی گئی۔

قبل ازیں حلف نامہ میں تبدیلی کے معاملے میں وزیراعظم کے معاون خصوصی بیرسٹر ظفراللہ نے جواب جمع کرادیا۔ انھوں نے عدالتی حکم پر تحقیقات سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کے ایک رکن نے اجلاس میں انکی موجودگی پر اعتراض اٹھایا جس پر اجلاس میں جانا چھوڑدیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں