سانحہ جوزف کالونی…اب کیا کہیں
پاکستان میں ہم جسے انتہا پسندی یا جنونیت کہتے ہیں‘ یہ دراصل خوشحال طبقے کی پیداوار ہے۔
پاکستان میں کوئی سانحہ ہونا' اب نئی بات نہیں رہی۔ خیبر سے لے کر کراچی تک ایک ہی کہانی ہے، بس نام جدا جدا ہیں۔ اب تو کسی سانحے کی سنگینی اور شدت بیان کرنے کے لیے لفظ بھی باقی نہیں بچے۔ ظلم' زیادتی' سفاکی' بربریت سب اپنی اہمیت کھو بیٹھے ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ لاہور میں بادامی باغ کی جوزف کالونی کے مکینوں کے ساتھ جو کچھ ہوا' انھیں کون سے الفاظ کا جامہ پہنائوں جن سے متاثرین کے جذبات اور ہمارے معاشرتی رویے کی سچی عکاسی ہو جائے۔
مجھے کوئی ایسے الفاظ نہیں مل رہے کیونکہ سانحے اتنے تواتر سے ہوتے ہیں کہ سارے الفاظ استعمال ہو چکے ہیں لہٰذا پانی میں مدھانی ڈالتے ہوئے میں بھی اس ملک کے عظیم سیاستدانوں' علمائے کرام و مشائخ عظام ' دانشوروں اور قلم کاروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ کہتا ہوں کہ جوزف کالونی کے مکینوں پر ظلم ہوا ہے۔ کسی ایک شخص کے جرم کی سزا پوری قوم کو نہیں دی جا سکتی، شرپسندوں کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ ہو سکتا ہے۔
زیادہ دن نہیں ہوئے جب کوئٹہ میں ہزارہ منگول کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے بے قصور لوگوں کو بارود سے اڑایا گیا تھا' پھر کراچی میں عباس ٹائون کا سانحہ ہوا' لیکن کیا ہوا' لواحقین کا ماتم و گریہ زاری ہوئی' چند دن دھرنے ہوئے، سیاستدانوں کے گرما گرم بیانات سامنے آئے' علمائے کرام نے بیانات جاری کیے کہ اسلام میں کسی بے گناہ کا قتل انسانیت کا قتل ہے۔ حکمران نے یقین دلایا کہ تحقیقاتی کمیشن قائم کر دیا گیا ہے، ملزم سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ یوں معاملہ رفع دفع ہو گیا اور زندگی معمول کے مطابق رواں دواں ہو گئی۔ سانحہ کوئٹہ کے ذمے دار کون تھے، وہ گرفتار ہوئے یا نہیں، تحقیقات کا کیا بنا، کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے۔ جن کے پیارے قتل ہو گئے، وہ روتے رہیں گے، بس یہی تحقیقات کا نتیجہ ہے۔
میں یقین سے کہتا ہوں کہ سانحہ بادامی باغ کا انجام بھی ایسا ہی ہو گا' جو گرفتار ہیں' ان کی ضمانتیں ہو جائیں گی' بعد میں انکوائری ہو گی اور لوہے کے تاجر بے گناہ ثابت ہو جائیں گے، وہ دوبارہ کڑکڑاتے ہوئے سفید لٹھے کے سوٹ پہنے' چمچماتی قیمتی گاڑیوں سے اتر کر غریبوں میں زکوٰۃ تقسیم کرتے نظر آئیں گے۔ معطل ہونے والے پولیس افسر بھی دوبارہ بحال ہو کر اپنی سیٹوں پر براجمان ہو کر دوبارہ کسی سانحہ کے منتظر ہوں گے۔ سانحہ گوجرہ جن افسروں کی غفلت سے ہوا، وہ بڑے مزے سے نوکری کر رہے ہیں، قومی خزانے سے بھاری تنخواہیں اور مراعات سے لطف اٹھا رہے ہیں۔
پاکستان میں ہم جسے انتہا پسندی یا جنونیت کہتے ہیں' یہ دراصل خوشحال طبقے کی پیداوار ہے۔ اسے کسی امریکا یا بھارت نے نہیں، پاکستانی اشرافیہ نے پروان چڑھایا ہے۔ انتہا پسند تنظیموں کی مالی معاونت خوشحال طبقہ ہی کرتا آ رہا ہے۔ اس میں تاجر طبقہ سرفہرست ہے۔ واجبی تعلیم کا حامل یہ طبقہ ضرورت سے زیادہ دولت مند ہو گیا ہے۔ یہ سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ بھی کرتا ہے اور مذہبی جماعتوں کو بھی سپورٹ کرتا ہے۔ یہ طبقہ اصل میں انتہا پسندوں کی لائف لائن ہے' یہی وجہ ہے کہ کراچی' لاہور' فیصل آباد' حیدر آباد' پشاور' راولپنڈی اور کوئٹہ جیسے شہروں میں انتہا پسند تنظیمیں انتہائی طاقت ور ہیں۔
اب معاملات بہت آگے بڑھ گئے ہیں' انتہا پسند تنظیمیں خوشحال طبقے کی مسلح فورس کا روپ دھار چکی ہیں۔ کسی سرکاری یا اقلیتوں کی جائیداد پر قبضہ کرنا ہو تو انھی تنظیموں کی آڑ لی جاتی ہے۔ بیورو کریسی کی حالت یہ ہے کہ گریڈ بییس کا افسر تھری پیس سوٹ پہنے ہوئے ہے' دیکھنے میں بڑا ماڈرن ہے' دنیا داری کے جو عیب ہوتے ہیں' اس میں بھی پورا ہے لیکن خیالات و نظریات ویسے ہی ہیں جیسے کسی تاجر یا آڑھتی کے ہوتے ہیں۔ وہ کاروبار بھی کر رہا ہے اور افسری بھی۔ میں ایک ایسے سرکاری افسر دانشور کو جانتا ہوں، جو باتیں اسلام کی کرتا ہے لیکن 18 کنال کی سرکاری رہائش گاہ میں رہتا ہے۔
اب آپ ہی سوچیں سانحہ جوزف کالونی کی تحقیقات کا نتیجہ کیا ہو گا۔ کہتے ہیں کہ دیگ میں ایک چاول کا دانہ دیکھ کر پتہ چل جاتا ہے کہ دیگ پک گئی ہے یا نہیں۔ حکومتی دیگ کا پہلا دانہ یہ تھا کہ اتنا بڑا سانحہ ہو چکا تھا لیکن اگلے روز لاہور میں ایک میراتھن میلہ لگا دیا گیا۔ اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ سانحہ جوزف کالونی کی تحقیقات کس کروٹ بیٹھے گی۔ ہو یہ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی اس کی آڑ میں پنجاب حکومت کو لتاڑ رہی ہیں۔ ق لیگ کا بھی یہی رویہ ہے۔ عمران خان صاحب پشاور میں سونامی برپا کرتے رہے اور ان کے شہر میں ایک بستی جل گئی۔
اب سارے اجڑی بستی میں جا رہے ہیں، اور دھواں دار بیانات داغ رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتیں مل کر لاہور میں لاکھوں کا احتجاجی جلوس نکالتیں، جلسہ کرتیں تا کہ اس شہر میں ان کا وجود نظر آتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اسے موقع پرستی نہ کہا جائے تو اور کیا نام دیا جائے۔ موقع پرستی کا یہ کلچر ہر پارٹی میں موجود ہے۔ مسلم لیگ ن نے بھی سندھ اور بلوچستان میں ہندووں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر کوئی احتجاجی جلسہ نہیں کیا اور نہ جلوس نکلا، ویسے میاں نواز شریف ہر دوسرے روز سندھ کے کسی نہ کسی شہر میں جلسہ کرتے نظر آتے ہیں۔
مجھے ایک تلخ بات کہنے دیں، اس ملک کی سیاسی قیادت اور بیوروکریسی بھی اپنی سرشت میں تاجر ہے۔ جس طرح تاجر کوئی کام کرنے سے پہلے نفع و نقصان کے بارے میں سوچتا ہے، اسی طرح سیاستدان اور افسر حضرات بھی اپنی ذات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ جوزف کالونی کے غریب لوگوں سے اشرافیہ کو کیا ہمدردی ہو سکتی ہے۔
بعض لوگ تو یہ کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ یار، جوزف کالونی والوں کی تو موج ہو گئی ہے، پانچ لاکھ حکومت پنجاب اور پانچ لاکھ وفاقی حکومت نے دے دیے، گھر بھی حکومت بنا رہی ہے، انھیں اور کیا چاہیے۔ یہ باتیں ہماری اجتماعی سائیکی بن گئی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ چند روز بعد کسی کو یاد بھی نہیں ہو گا کہ بادامی باغ میں کسی بستی کو جلایا گیا تھا، کالعدم تنظیمیں بھی اسی طرح اپنا کام کرتی رہیں گی جسے وہ پہلے سے کرتی آ رہی ہیں اور سیاستدان اگلی حکومت بنانے کے لیے انتخابی مہم پر ہوں گے جب کہ بیوروکریسی نئے حکمرانوں سے وفاداری کا عہد نامہ تیار کررہی ہوگی۔