انقلابی دانشور ٹیڈگرانٹ
برطانیہ پہنچنے کے بعد کچھ ہی دنوں بعد ٹیڈ نے فاشزم کے خلاف جدوجہد میں انتہائی سرگرمی سے حصہ لینا شروع کر دیا۔
واقعات اور حالات ایسے شعور کو جنم دیتے ہیں جو لوگوں کو انقلاب کی جانب دھکیلتے ہیں اور جب عوام کا سیلاب میدان میں ہوتا ہے تو وہ اپنا رہنما اسی کارساز جنگ میں تلاش کر لیتا ہے۔ فرد حالات کو نہیں بدلتا بلکہ حالات فرد کی سوچ کو بدل دیتے ہیں۔ تاریخ میں فرد کا رول ہوتا ہے مگر وہ سماجی حالات کا نمایندہ ہوتا ہے۔ پیش قدمی کرنیوالا شخص ہی عظیم ہوتا ہے جیسا کہ پارٹیکس، رومو، لینڈن، ریمز، ہیگل، باکونسن، پروکوتکن، ایما گولڈ مان اور ٹیڈگرانٹ ہیں۔
ٹیڈ گرانٹ پہلی عالمی جنگ سے کچھ عرصے قبل ہی جنوبی افریقہ میں جوہانسبرگ کے مضافات، جرمسٹن کے علاقے میں تقریباً100سال قبل9 جولائی1913 میں پیدا ہوئے، ان کے والد میکس بلینگ مغربی روس سے ہجرت کر کے جنوبی افریقہ آئے تھے اور یہاں آ کر کان کنی کے کاروبار سے منسلک ہو گئے تھے جب کہ کامریڈ ٹیڈ کی والدہ ایڈیلی فرانسیسی تھیں اور ان کا تعلق ماریاز سے تھا، ان کی شادی اس وقت ہوئی جب صدی تبدیل ہو رہی تھی۔ میکس کی عمر32 سال جب کہ ایڈیلی 16 برس کی تھیں۔
ان کے دو بیٹے ہوئے، ایک آئیزداور دوسرا آئیزک (ٹیڈ) جب کہ ان کے ہاں تین بیٹیاں ہوئیں، روز، رکیل اور زینا، ایک طویل عرصے کے بعد یہ شادی بالآخر طلاق پر منتج ہو گئی، 6 ماہ تک اپنے والد کے ساتھ رہنے کے بعد ٹیڈ مستقلاً اپنی والدہ کے پاس چلے گئے، وہ جوہانسبرگ میں کریانے کی دکان چلاتی تھیں، تعلیم کے لیے ٹیڈ کو ہاسٹل میں بھیج دیا گیا جب کہ اس کے بہنوں کو بھی پڑھنے کے لیے کانونٹ میں داخل کر دیا گیا۔ اپنی نوجوانی کے ایام سے ہی ٹیڈ کو روس میں ہونیوالے واقعات سے گہری دلچسپی تھی۔ لیکن جیسا کہ اس عمر میں عموماً ہوتا ہے۔ ٹیڈ کا کسی انقلابی تحریک سے پہلا تعارف حادثاتی تھا۔
گھر کی آمدنی میں اضافے کے لیے ٹیڈ کی والدہ نے گھر کا ایک حصہ کرائے پر دیا ہوا تھا۔ انھیں میں سے ایک رافلی تھا جو کہ1922 سے جنوبی افریقہ کی کمیونسٹ پارٹی کا کارکن تھا لیکن اسے پارٹی کے بعض نکات پر اختلاف پر نکال دیا گیا تھا۔ مشاق اور مخلص کمیونسٹ کے طور پر راف ہمیشہ ٹیڈ سے بحث کرتا تھا۔ وہ اسے برنارڈ شا، ایچ پی ویلز، میکسم گورکی، جیک لینڈن اور دیگر مصنفین کی کتابیں پڑھاتا رہا، چنانچہ کچھ عرصے ہی میں اس مطالعے نے ٹیڈ گرانٹ کو ایسی بنیاد فراہم کر دی جس کی مدد سے وہ مزید سائنسی نظریات کا مطالعہ کر سکے، یوں صرف 15 سال کی ہی عمر میں ٹیڈ ایک پرعزم انقلابی بن چکا تھا۔
پھر 1929 میں ٹیڈ نے ملیٹنٹ نامی رسالے میں شمولیت اختیار کر لی، انھوں نے جنوبی افریقہ میں 6 افراد پر مشتمل ایک گروپ تشکیل دے دیا، محنت کشوں میں اپنے کام کو مرکوز کرتے ہوئے لانڈری ورکرز یونین تشکیل دی۔ پھر وسیع افق کی تلاش میں ٹیڈ اور میکس برطانیہ چلے گئے اور پھر وہیں کے ہوگئے۔1934 میں برطانیہ پہنچنے پر میکس بیش نے اپنا نام بدل کرسٹر فاسٹ اور ٹیڈ نے اپنا نام آئیزک بلینک سے ٹیڈ گرانٹ رکھ لیا۔ یہ نام انھوں نے اپنے سفر کے دوران اپنے بحری جہاز کے عملے والوں سے مستعار لیے تھے۔
ٹیڈ نے پھر بحیثیت کمیونسٹ برطانیہ کی لیبر پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ کچھ عرصے بعد ٹیڈ لیبر پارٹی کے یوتھ ونگ لیبر لیگ آف یوتھ میں سرگرم ہو گئے، برطانیہ پہنچنے کے بعد کچھ ہی دنوں بعد ٹیڈ نے فاشزم کے خلاف جدوجہد میں انتہائی سرگرمی سے حصہ لینا شروع کر دیا۔ ٹیڈ اپنا نام تبدیل اس لیے کیا تھا کہ ان کے اہل خانہ کو جنوبی افریقہ میں کوئی مصیبت یا تکلیف درپیش نہ آئے چاہے ان کے ساتھ کچھ بھی ہو جائے۔ لندن میں انھوں نے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ بلکہ لندن کے ایسٹ اینڈ میں موسیلائیٹ سیاہ شرٹوں کے ساتھ جاری لڑائی میں شانہ بشانہ حصہ لیا۔ یہاں ٹیڈ مشہور زمانہ کیبل اسٹریٹ لڑائی میں بھی شریک ہوئے جس میں ایسٹ اینڈ کے مزدوروں نے گلیوں اور سڑکوں پر فاشٹوں کا رستہ روکنے کی کوششیں کی تھیں۔
اس سلسلے میں ٹیڈ کی1937 میں کھینچی جانے والی ایک تصویر بھی موجود ہے جس میں وہ لانگ لین پر مونڈسی جنوبی لندن ایک رکاوٹ پر موجود ہے۔ ریولوشنری کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے شایع کردہ اس کے کتابچے ''فاشزم کا خطرہ،، کی سرخی کے ساتھ1948 میں چھپی تھی۔ بعد ازاں وہ ورکرز انٹر نیشنل لیگ تشکیل دینے پر مجبور ہوئے۔1953 میں ٹیڈ کے زیر ادارت ''انٹرنیشنل شولزم،، کا پہلا شمارہ شایع ہوا۔ لیکن فنڈز کی غیر یقینی کیفیت اور وسائل کی کمیابی کے باعث رسالہ اپریل1954 تک کھینچ تان کے شایع ہوا۔
بعد ازاں ٹیڈ گرانٹ کے زیر ادارت ایک نیا جریدہ ''سوشلسٹ فائٹ،، نکلا جو کہ جنوری1958 سے جون1963 تک بے قاعدگی سے شایع ہوتا رہا، وسائل کی کمی کے باعث1960کے دوران رسالہ دستی تیار کر کے تقسیم کیا جاتا رہا، 1964 کی گرمیوں کے دوران ایک نئے رسالے کی اشاعت کا فیصلہ کیا گیا، اس کے لیے کافی طویل بحث مباحثے کے بعد اس کا نام ملیٹنٹ تجویز کیا گیا، بعد ازاں لیبر پارٹی نے سوشلسٹ کی مرکزی قیادت میں اکثریت حاصل کر لی اور پھر سوشلسٹوں نے یوتھ آرگنائزیشن تعمیر کرنے کی مہم شروع کر دی، 1966 میں کامریڈوں کی تعداد 100 تھی جو 1975 میں500 سے زیادہ ہو چکی تھی۔
1984 کی کان کنوں کی ہڑتال کے آغاز کے وقت برطانیہ کا بایاں بازو کا صنعتی شعبے میں کام کرنے والا بلاک ٹریڈ یونینز کے اندر کام کرنے والی کیفیت کی سب سے بڑی طاقت تھی،1988 میں لندن کے الیگزنڈر پیلس میں جو پروگرام ہوا تھا اس میں7500 سے زیادہ ساتھی شریک ہوئے تھے۔ اس تقریب سے دیگر کامریڈز کے علاوہ کامریڈ ٹیڈ اور والکوف نے بھی خطاب کیا تھا۔ ملیٹنٹ کی سب سے بڑی سرگرمی یہ تھی کہ تین ساتھی پارلیمنٹ اور لیور پول سٹی کونسل کنٹرول کے لیے منتخب ہوئے۔ اس وقت برطانیہ میں اس گروپ میں250 فل ٹائمر ورکرز تھے اور 50 کونسلرز بھی منتخب ہوئے تھے۔
تھیچر حکومت نے جب وحشیانہ پول ٹیکس عائد کیا تو ملیٹنٹ گروپ نے اس ٹیکس کے خلاف ایک بھرپور مہم چلائی اور لاکھوں عوام نہ ادائیگی کی تحریک میں شامل ہو گئے، اس تحریک کے دوران لندن میں ڈھائی لاکھ افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ جب کہ50 ہزار افراد گلاسگو کی سڑکوں پر بغیر کسی شک و شبہ پر نکل آئے تھے۔ یہی وہ تحریک تھی جس نے سرمایہ دارانہ ماہرین اور حکمت سازوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور اس کی وجہ سے ظالمانہ پول ٹیکس واپس لے لیا گیا اور پھر اسی تحریک کے نتیجے میں1990 میں تھیچر حکومت کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ ٹیڈ گرانٹ بڑھاپے سے اتنے خوفزدہ نہ تھے اور اس بات کے قائل تھے کہ بڑھاپا ان پر غالب نہ آ جائے گا، اس سے ہمیں ان کی اس پسندیدگی کا پتہ چلتا ہے جو وہ سالگرہ منانے میں محسوس کرتے تھے۔
وہ اپنی سالگرہ کے موقعے پر اپنے دروازے پر کیے گئے سجاوٹ سے لاتعلق اور بے نیاز رہے وہ صرف انقلاب، انٹرنیشنل ازم اور جد وجہد کی بات کرنا چاہتے تھے۔ وہ ایک ایسے شخص تھے کہ اپنی زندگی کو مزدور طبقہ اور انقلاب کے لیے وقف کر دیا تھا۔ خواہ وہ لندن میں ہی کیوں نہ رہتے تھے، چونکہ وہ جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئے، اس لیے ان کے بولنے کا لہجہ افریقی تھا۔ انھیں اپنے موقف کو بیان کرنے کا فن آتا تھا اور ایک عام آدمی کو اپنی بات با آسانی منتقل کر پاتے تھے۔ انھیں مضامین کو بڑے سادے انداز میں لکھنے کے فن پر عبور حاصل تھا۔ وہ حد درجہ انسان دوست اور رحم دل تھے۔ وہ قطعاً متعصب ذہن، مخاصمت رکھنے والے انقلابی نہ تھے، ان کے دروازے ہر ایک کے لیے کھلے ہوتے تھے اور ہر موضوع پر اپنے پاس موجود فرد سے گفتگو کرتے۔
کچھ نہ کچھ سقراط کی طرح لیکن سقراط تو ایگو، ایتھینز میں تھا جب کہ ٹیڈ کی جگہ کسی بس اسٹاپ پر، کسی دکان پر، کسی سے محو گفتگو ہو سکتے تھے، شاید ان کا اصول تھا کہ کوئی بھی انسان ان سے بیگانہ نہیں۔ ٹیڈ اپنی خوراک کا بہت خیال رکھتے اور ناشتے میں کثیر مقدار میں پھل کھایا کرتے تھے، کیونکہ انھوں نے کہیں پڑھا تھا کہ یہ ان کی صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔ انھیں بھوک بہت زیادہ لگتی تھی اور اگر وہ اتفاقاً بھی کسی دوست کے گھر جاتے تو کھانے پینے کی تمام چیزوں کا صفایا کر ڈالتے۔ ان کا وزن نہ بڑھتا کیونکہ وہ بڑی باقاعدگی سے ورزش کرتے جو سونے سے ایک گھنٹہ پہلے کی جاتی۔ وہ اخبار کا ایک ایک سطر کا مطالعہ کرتے۔
خاص کر The Financial Times،The Morning Star اور Daily Express کو بھی پڑھتے، وہ مظاہروں میں جاتے، وہ اپنی تقریر میں لوگوں کی توجہ اپنی جانب کر لیتے اور ذاتی حملوں سے گریز کرتے، مگر جب سرمایہ داروں اور دائیں بازو پر حملہ کرتے تو طنز بھی کرتے اور اچانک ہنس بھی دیتے تھے جس پر لوگ قہقہے لگاتے۔ انھوں نے انسانی ذہن کے بارے میں ہونے والی تحقیق میں کامیابیوں کے بعد کہا کہ ''آخر کار مادہ اپنے آپ کے بارے شعور رکھنے لگ پڑا ہے،، فلسفیانہ مادیت کا اس سے خوبصورت اظہار ممکن نہیں، ٹیڈ کا نظریہ ایک روز سارے دنیا میں پھیلے گا۔ ملکیت کا تصور ختم ہو کر دنیا کی ساری دولت اور وسائل سارے لوگوں کی ہوں گے۔ تب محبت بھرا خوشحال معاشرہ تشکیل پائے گا۔