صرف تغیر ہی اٹل ہے
میرے ملک کے اہم کردارو، تم سکندر اعظم اور کریس کی خاک کے برابر بھی نہیں ہو اور نہ ہی تم سولن سے زیادہ عقل مند ہو۔
ہمارے ملک کے عقل رکھنے والے، سوچنے والے، دور اندیش اور تاریخ پر گہری نظریں رکھنے والے ہمارے اہم کرداروں کے کردار دیکھ کر دل کھول کر ان سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، ان کی حرکات و سکنات، اعمال، بے مقصد اچھل کود، الٹی چھلانگیں انھیں چارلی چپلن کی گونگی مزاحیہ فلموں کی یاد دلا رہی ہیں، کیونکہ ان کی حرکات بالکل چارلی چپلن جیسی ہیں، وہ بھی حرکات سے کام لیتا تھا، بولتا نہ تھا، یہ بھی حرکات سے ہی کام لے رہے ہیں بول کچھ نہیں رہے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ چارلی چپلن کی فلمیں دیکھنے والوں کو اس کے اختتام کا پہلے پتہ چل جاتا تھا اور ہمارے کرداروں کے اختتام کا بھی پہلے ہی پتہ چل گیا ہے۔ وہ اس لیے بھی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ دنیا کے دیگر کرداروں کی طرح ہمارے کرداروں کو بھی آخر میں کچھ نہ ہاتھ رہے گا، سوائے بدنامی، رسوائی، مقدمات کے۔ ان کے جمع کردہ سب ذخیرے آخر میں لٹ ہی جانے ہیں۔ آہ ہمارے معصوم، بھولے بھالے، سیدھے سادے کردار۔
اگر یہ تاریخ کے شاگرد ہوتے تو ایسی حرکات، سکنات، اعمال کبھی نہ کر رہے ہوتے۔ خدارا کوئی انھیں شاہ ایران، فرعون، قارون، قذافی، صدام حسین، ہٹلر، مسولینی اور ہزاروں دیگر کی کہانیاں جا کر سنا دے۔ خدارا کوئی انھیں زندگی کے اصل فلسفے سے آگاہ کر دے۔ خدارا کوئی انھیں خدا کی تعلیمات سمجھا دے۔ لیکن چونکہ ان کے تمام دوست، احباب، ساتھی اور مشیر سب کے سب طاقت اور اقتدار کے نشے میں دھت ہیں، اس لیے ہم اپنی سی کوشش کر کے دیکھ لیتے ہیں۔
یونان کے عظیم فلسفی سولن کو ایک بار قبرص کے بادشاہ کریس نے اپنے ہاں مدعو کیا۔ سولن نے دعوت قبول کر لی۔ ملاقات کے دن بادشاہ اپنے بیش قیمت لباس اور ہیرے جواہرات زیب تن کر کے تخت پر جلوہ افروز ہوا اور پورے شاہانہ طمطراق سے سولن کا انتظا رکرنے لگا۔ سولن آیا اور اطمینان و بے نیازی سے بادشاہ کے سامنے بیٹھ گیا، اس نے بادشاہ کے جاہ و حشم اور سطوت پر کوئی توجہ نہ دی، جس پر بادشاہ بے چین ہو گیا۔ اس نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ سولن کو ہمارے خزانے دکھائے جائیں۔ وزیر نے سولن کے سامنے سونے، چاندی، لعل و زمرد کا ڈھیر لگوا دیا۔ یہ چمک دمک بھی سولن کو متاثر نہ کر سکی، وہ بے پرواہ بیٹھا رہا تو بادشاہ سے نہ رہا گیا اور اس نے بلند آواز سے سولن کو مخاطب کیا۔
سولن! تم یونان کے نامور فلسفی ہو، بتاؤ تمہارے نزدیک دنیا کا سب سے خوش نصیب آدمی کون ہے؟ سولن نے باوقار لہجے میں کہا ''بادشاہ میرے ملک میں یلس نامی ایک آدمی بہت خوش نصیب تھا، وہ بہادر، نیک، صاحب جائیداد اور اچھے بچوں کا باپ تھا، اس نے اپنے وطن کی خاطر لڑتے لڑتے جان دے دی''۔ دوسرا سب سے زیادہ خوش نصیب کون ہے؟ بادشاہ نے دریافت کیا۔ سولن نے کہا ''دو بھائی سب سے زیادہ خوش نصیب ہیں، انھوں نے اپنی ماں کی خدمت کرتے کرتے جان دی''۔
بادشاہ آگ بگولا ہو گیا ''کیا تم ہمیں خوش نصیب نہیں سمجھتے''؟ ''خوش نصیب وہ ہوتا ہے جس کے ساتھ خوش نصیبی زندگی کے آخری لمحے تک رہے''۔ سولن نے وضاحت کی ''جس کی زندگی ابھی ختم نہ ہوئی ہو اس کی متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا، انسان کی زندگی ہمیشہ ایک حالت پر برقرار نہیں رہتی۔''
یہ سن کر بادشاہ مشتعل ہو گیا اور اس نے سولن کے ساتھ انتہائی نفرت و حقارت کا سلوک کیا۔ کچھ عرصے بعد شہنشاہ سائرس نے قبرص فتح کر لیا اور بادشاہ کریس کو زندہ جلا دینے کا حکم دیا۔ کریس کو جلانے کے لیے لکڑیوں پر بٹھایا گیا تو اس کے منہ سے دردناک چیخ نکلی ''ہائے سولن''۔ فاتح شہنشاہ نے ہاتھ اٹھا کر کارروائی اچانک روک دینے کا حکم دیا اور کریس کے قریب جا کر سوال کیا ''ہائے سولن سے تمہاری کیا مراد ہے''۔ کریس نے اسے پورا واقعہ سنا دیا۔ فاتح سن کر اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے کریس کی جان بخش دی اور اس کے ساتھ عزت و تکریم سے پیش آیا۔
ہیرا کلیتس کہا کرتا تھا ''صرف تغیر ہی اٹل ہے''۔ پلوٹارک ہمیں بتاتا ہے کہ سکندر اعظم اہل فارس کے خلاف یونانیوں کی فوج کا سالار بننے پر کورنتھ میں تمام لوگوں سے مبارکباد وصول کر رہا تھا۔ ڈایو جینز کے سوا سب اسے مبارک دینے آئے۔ سکندر اسے جانتا تھا، وہ اس قدر نخوت کا مظاہرہ کرنے والے شخص سے ملنے کا خواہش مند ہوا۔ سکندر ڈایوجینز کو ڈھونڈنے نکلا اور اسے دھوپ میں ایک ٹب کے اندر بیٹھا ہوا پایا۔
اس نے قریب جا کر کہا ''میں سکندر اعظم ہوں'' ڈایو جینز نے جواب دیا اور میں ہوں ''دیو جانس کلبی''۔ تب سکندر نے پوچھا ''میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں؟'' ''میرے اور سورج کے درمیان سے ہٹ جاؤ''۔ فلسفی نے جواب دیا۔ سکندر اس کی بے نیازی سے اس قدر متاثر ہوا کہ کہہ اٹھا ''اگر میں سکندر نہ ہوتا تو ڈایو جنیز بننے کی خواہش کرتا''۔
میرے ملک کے اہم کردارو، تم سکندر اعظم اور کریس کی خاک کے برابر بھی نہیں ہو اور نہ ہی تم سولن سے زیادہ عقل مند ہو اور نہ ہی ہیرا کلیتس سے بڑے فلسفی ہو، اس لیے اپنے دولت کے خزانوں پر اتنا مت اتراؤ اور نہ ہی اپنی آج کی خوش نصیبی کو حتمی اور دائمی خوش نصیبی سمجھنے کی غلطی کرو۔ اپنے قیمتی وقت میں سے تھوڑا سا وقت نکال کر سولن کی کہی گئی باتوں کو باربار پڑھنا اور سوچنا کہ تم صحیح ہو یا سولن صحیح تھا، اور آپ کو چھوٹا سا مشورہ یہ بھی ہے کہ بادشاہ کریس والی غلطی کبھی نہ دہرانا، جو اس نے سولن کی بات نہ مان کر کی تھی۔ وقت بدلتے کبھی دیر نہیں لگتی ہے، کیونکہ صرف تغیر ہی اٹل ہے۔