اس بار بھی دیر نہ ہوجائے
کراچی ایک بار پھر انتشار اور افراتفری کا شکار ہوسکتا ہے۔
کراچی جو اپنی رات گئے تک جاری رہنے والی سرگرمیوں اور چہل پہل کی وجہ سے روشنیوں کا شہر کہلایا،اس نے وہ وقت بھی دیکھا، جب اس کا بڑا حصہ بجلی کی عدم فراہمی کے باعث تاریکی میں ڈوبا رہتا تھا۔ یہ میگا سٹی مالی اور تجارتی حب ہونے کے سبب ملکی معیشت کی رفتار کے تعین میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور ملکی ریونیو کا بڑا حصہ، جو چند دعوں کے مطابق 65 سے 70فی صدہے، اسی شہر سے حاصل ہوتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل یہ شہر جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھوں یرغمال تھا۔ سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ شہری اور دیہی علاقوں میں دندناتے پھرتے تھے ۔ یہ ونگ قتل، اغوا برائے تاوان اور بھتا خوری جیسے جرائم میں براہ راست ملوث تھے۔ یہ ''گڈ گورننس'' پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی پرمشتمل حکومتی تکون کی عطا تھی۔
الطاف حسین کے ایک اشارے پر کراچی میں تمام سرگرمیاں معطل ہوجاتی تھیں۔ مسلح جتھے شہریوں کو سرعام دھمکاتے، پولیس کی گشت کو بے معنی بناتے ،سرکاری عہدے داروں اور تھانوں پر راکٹ لانچر داغتے اورنیم فوجی دستوں سے سڑکوں پر لڑتے دکھائی دیتے تھے۔گو اس زمانے میں پی پی پی نے ایم کیو ایم کو سیاسی حلیف بنا کر کسی حدتک قابو میں رکھا، مگر اس کے لیے مراعات دی جاتی رہیں۔سچ تو یہ ہے کہ کراچی ایک عرصے تک محصور رہا۔
کراچی کے حالات میں بہتری کا کریڈٹ سابق ڈی جی رینجرز میجر جنرل اعجاز چوہدری کو جاتا ہے،جنھوں نے 2012 میں انٹیلی جنس کے نظام اور رینجرز کو ٹارگٹڈ آپریشن کے لیے منظم کیا۔حالات میں بہتری کے آثار نظر آنے لگے۔ترقی پا کر کور کمانڈر کراچی ہونے کے بعد اعجاز چوہدری نے آپریشن کی رفتار کو برقرا رکھا،اس کاوش کا کریڈٹ رضوان اختر کے حصے میں آیا۔اس دوران آٹھ سے نو ماہ کا زمانہ ایسا تھا، جب کارروائی معطل رہی، لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے نہ صرف اس آپریشن کو بحال کیا، بلکہ ڈی جی رینجرز بلال اکبر کے ساتھ، جو اب لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر فائز ہیں، اس آپریشن کی رفتار میںمطلوبہ اضافہ کیا۔
بالآخر 22 اگست 2016 کادن آن پہنچا، جب الطاف حسین نے اپنی نفرت انگیز تقریر میں پاکستان کو دنیا بھر کے لیے ناسور قرار دیتے ہوئے عوام کو رینجرز اور پاک فوج کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی۔ تقریر کے فوراً بعد جو کچھ ہوا ، وہ سب کے سامنے ہے۔ اگر اس روز ٹریفک جام کی وجہ سے رینجرز کو زیب النسا اسٹریٹ پہنچنے میں تاخیر نہ ہوئی ہوتی، تو کئی بے گناہ شہری قتل کر دیے جاتے اور مورد الزام رینجرز اور آرمی کو ٹھہرایا جاتا۔
کراچی میں ایم کیو ایم کا ڈھانچا بہت مضبوط تھا۔ شہر کے 212 مقامات پر ان کے 102 سیکٹر اور یونٹ آفس موجود تھے، جو قبضے کی زمینوں پرتعمیر کیے گئے۔ 22 اگست کے گزشتہ روز سیاسی اور انتظامی حمایت کے ساتھ ان تمام سیکٹر آفس کو گرانے کا حکم دے دیا گیا۔جوں ہی یہ ڈھانچا گرا، الطاف حسین کی کراچی پر غلبے کی نفسیاتی قوت بھی ڈھے گئی۔
اس موثر ایکشن اور منظم آپریشن کی وجہ سے اب ایم کیو ایم وہ قوت نہیں رہی، جو یہ کبھی ہوا کرتی تھی۔ اب یہ گروپوں میں بٹ چکی ہے اور ہرگروپ سیاسی طور پر باقی رہنے اور اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں لگا ہے۔ایم کیو ایم پاکستان وفاقی حکومت کو اپنے سیل کردہ اور گرائے جانے والے دفاتر کی بحالی پر قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔
کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن سے ایم کیو ایم نے خاصا فائدہ اٹھایا۔ایم ڈی کے ای ایس سی شاہد حامد کو اپریل 2005 میں قتل کیا گیا، انھیں کیوں قتل کیا گیا، اب یہ کوئی راز کی بات نہیں رہی کہ وہ ادارے میں موجود مافیا کے خلاف سخت ایکشن لے رہے تھے۔ اب کمپنی کی جانب سے 361 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری سے اس کی کارگردگی میں نمایاں بہتری آئی اور صارفین کودرکارسہولیات میسر آنے لگی ہیں۔
اب چین کی سرکاری کمپنی شنگھائی الیکٹرک پاور کمپنی (SEPCL) کے الیکٹرک کو خریدنے میں دل چسپی لے رہی ہے۔ اس معاہدے کی مالیت اندازہ 1.77 بلین ڈالر ہے۔ اقتصادی انڈیکیٹرز کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگا جارہا ہے کہ SEPCLانفرااسٹرکچر کی تعمیر و بہتری،ٹرانسمیشن اور تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے 9.5 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتی ہے۔
مختلف گروہوں کے سیاسی اور مسلکی مفادات، غیرقانونی اسلحہ، منشیات جیسے مسائل اگر ناقص گورننس سے مل جائیں اور پھر ویسی ہی لوڈشیڈنگ شروع ہوجائے، جیسے پہلے ہورہی تھی ،توکراچی ایک بار پھر انتشار اور افراتفری کا شکار ہوسکتا ہے۔
کے الیکٹرک کی صلاحیت بڑھانے اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے چینی سرمایہ کاری ضروری ہے۔ پیاسے اور گرمی سے ستائے شہری پانی اور بجلی کے لیے باہم دست و گریباں ہوجائیں گے۔ یوں بھی پانی کی موٹریں ناکارہ ہوتی جارہی ہیں۔ چینی کمپنی کو کے الیکٹرک میں سرمایہ کاری سے روکنادراصل را کی پاکستان کے خلاف جاری ہائبرڈ جنگ کا حصہ ہے۔ یہ تنزلی مکمل انتشار میں ڈھل سکتی ہے۔ انتشار، جو کراچی کے مستقبل کو تاریکی میں دھکیل دے گا۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)