رنجیت سنگھ سے شہباز شریف تک
حکمرانوں کو اب اس بات کا یقین ہو جانا چاہیے کہ عوام ان کے اچھے کاموں کو کبھی نہیں بھولتے۔
پنجاب کے ترقیاتی منصوبوں کی تقلید کرنے کے بجائے دوسرے صوبے ناراضگی کا اظہار زیادہ کرتے ہیں اگرچہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گزشتہ چار برسوں سے حکمرانی کے مزے لوٹنے کے بجائے پنجاب کی طرح عوام کی فلا ح کے منصوبے بنائے جاتے جن پر داد عیش بھی پائی جاتی اور آنے والے الیکشن میں انھی کاموں کی بدولت عوام سے دوبارہ ووٹ کا تقاضہ بھی کیا جاتا لیکن بد قسمتی سے اس کے اُلٹ ہوا اور اگر کسی دوسرے صوبے نے ترقیاقی کاموں میں پنجاب کا مقابلہ کرنے کی کوشش بھی کی تو اتنی بددلی سے کی کہ یا تو وہ ادھوری رہی یا پھر صرف یہ ترقی کاغذی منصوبوں اور اعلانات تک ہی محدود رہی۔
پنجاب سے ناراضی تو اس لیے نہیں بنتی کہ پنجاب نے اپنے وسائل کو خوبصورتی سے استعمال کر کے عوامی فلاحی منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا ہے جس پر پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف فخر بھی کرتے ہیں اور بجا طور پر داد کے بھی مستحق ہیں۔ پنجاب میں تقریباً گزشتہ دس برسوں سے مسلم لیگ ن کی حکومت چلی آرہی ہے جس کے دوران ترقی کی رفتار خاصی بڑھ چکی ہے لیکن اس کو تسلی بخش بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ دس سال ایک طویل عرصہ ہوتا ہے جس کے دوران اگر ترقی کی رفتار صحیح رہی ہو تو تمام مسائل کا خاتمہ ممکن ہے اور دودھ اور شہد کی نہریں محاورتاً نہیں حقیقت میں بہائی جا سکتی ہیں۔
تنقید کرنا بڑا ہی آسان اور سہل معاملہ ہے جب کہ تعریف کرنا مشکل ترین کام تصور کیا جاتا ہے لیکن پنجاب میں ترقیاتی کاموں کی اگر تعریف نہ بھی جائے تو تنقید کرنا بھی جائز نہیں ہو گا کہ شہباز شریف نے گزشتہ کئی برسوں سے اپنے صوبے میں ترقیاتی کاموں کے جال بچھا رکھے ہیں اور وہ اب جیسے تیسے ان کو پایہ تکمیل تک بھی پہنچا رہے ہیں ان پر سب سے بڑی تنقید یہ کی جاتی ہے کہ وہ صرف لاہور کی ترقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کہ لاہور میں ترقیاتی کام سب سے زیادہ ہوئے ہیں چونکہ لاہور صوبائی دارالحکومت بھی ہے، علاج معالجے اور تعلیم کے علاوہ روزگار کے وسیلے بھی سب سے زیادہ لاہور میں ہی موجود ہیں، اس لیے اس بڑے شہر کی ترقی پر زیادہ توجہ دی گئی ہے تاکہ یہ صوبے کے باقی شہروں سے آنے والے مہمانوں کا اچھا میزبان ثابت ہو سکے بلکہ لاہور میں تو دوسرے صوبوں سے بھی لوگ آکر رہنا شروع ہو گئے ہیں۔
خود میرے ہمسائے میں چند ایسے گھر ہیں جن کے باسی سندھ کے رہنے والے ہیں لیکن انھوں نے لاہور کو اپنی رہائش کے لیے پسند کیا ہے حالانکہ وہ کاروبار ابھی بھی سندھ میں ہی کر رہے ہیں۔ شہباز شریف کی لاہور کی ترقی کی دلچسپی کی دوسری وجہ ان کا اس شہر کا باسی ہونا ہے گو کہ وہ اب لاہور کے مضافات میں ایک بڑے فارم ہاؤس میں رہائش رکھتے ہیں لیکن ان کی جم پل اسی لاہور کی گلیوں کی ہے جن میں ہنس کھیل کروہ جوان ہوئے اور اپنی زندگی کے ابتدائی ایام گزارے۔
یہ قدرتی بات ہے کہ ہر شخص کو اپنے آبائی علاقہ سے انسیت ہوتی ہے اور وہ اس کے بارے میں زیادہ جذباتی بھی ہوتا ہے لیکن ایک حکمران کے لیے سب علاقے برابر ہونے چاہئیں کیونکہ اس کو سب کی حکمرانی کے لیے چنا گیا ہے اور اس میں کسی مخصوص علاقے کی پابندی نہیں ہو سکتی وہ سب کا حکمران ہے۔ شہباز شریف نے لاہور کو دنیا کے کسی بھی جدید شہر کے مقابل لا کھڑا کیا ہے۔
گھر کی مرغی دال برابر کی بات ہے ورنہ لاہور شہر کی تعریف نہ کرنا کنجوسی ہو گی۔ ہمارے اس خوبصورت شہر کو مغلوں کے بعد اگر کسی نے اس کے حسن کو چمکایا ہے تو وہ شہباز شریف ہی ہیں ان کے پیشرو پرویز الٰہی نے بھی ان کے سابقہ دور کی ترقی کا مقابلہ خوب کیا۔ اور یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ لاہور کی خوبصورتی میں ہر حکمران نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ پنجاب کی ترقی کی بات شروع ہوئی اور لاہور پہنچ گئی دراصل لاہور میں اتنا زیادہ ترقیاتی کام ہوا ہے کہ نظر بار بار ادھر ہی ٹھہر جاتی ہے۔
جہاں تک پنجاب کے دوسرے اضلاع کی بات ہے وہاں پر بھی مقدور بھر ترقی کی کوشش کی گئی ہے لیکن اس میں وہ زور شور نہیں کہ اس کا موازنہ لاہور کے ساتھ کیا جا سکے اور باقی اضلاع کی بھی مثالیں دی جا سکیں شہباز شریف کو اب لاہور کو چھوڑ کر دوسرے اضلاع کی جانب بھی متوجہ ہونا پڑے گا اس میں جنوبی پنجاب یا شمالی پنجاب کی بات نہیں کیونکہ ہمیشہ رونا یہ رویا جا تا ہے کہ جنوبی پنجاب کو کچھ نہیں ملا۔
اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو جنوبی پنجاب سے حکمران بھی اقتدار کی مسند پر رہے لیکن انھوں نے اپنے علاقوں کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ جنوبی پنجاب کے علاوہ بھی پنجاب کے دوسرے اضلاع میں مزید ترقیاتی منصوبے نہ سہی پہلے سے موجود سڑکوں اور اسپتالوں کی صورتحال ہی بہتر بنائی جا سکتی ہے تا کہ ان اضلاع کے باشندوں کے گلے بھی دور ہو جائیں۔
بات یہ ہے کہ ترقیاتی کام چلتے رہنے چاہئیں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں اگر شہباز شریف وزیر اعلیٰ ہوں تو ایسے ترقیاتی منصوبے چلیں گے اگر کل کلاں وہ نہ ہوں تو یہ فلاحی منصوبے رک جائیں۔ ایسے منصوبے حکومتوں کی اجتماعی اور مستقل پالیسیوں کی مدد سے چلتے ہیں افراد کا آنا جانا لگا رہتا ہے مگر یہ تو ایک آئیڈیل حالات کی بات ہے۔ غنیمت یہ ہے کہ بعض حکمران ایسے آجاتے ہیں جو اپنے دور میں بہت کچھ فلاحی اور ترقیاتی کام کر جاتے ہیں جو ان کے نام کو زندہ رکھتے ہیں۔
حکمرانوں کو اب اس بات کا یقین ہو جانا چاہیے کہ عوام ان کے اچھے کاموں کو کبھی نہیں بھولتے۔ پنجاب کے عوام بھی شہباز شریف کو نہیں بھول سکتے۔ انھوں نے ایسے دکھائی دینے والے کام کیے ہیں کہ جو ان کی یاد دلاتے ر ہیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام کے حکمران افسروں کی طنابیں بھی اگر کسی نے کَسی ہیں تو یہ شہباز شریف ہی ہیں۔ دیکھتے ہیں آیندہ الیکشن میں شہباز شریف کے کام کیسے بولتے ہیں اور ان کے ساتھ پنجابی عوام کیا سلوک کرتے ہیں یا پھر حسبِ عادت انھیں بھی ایک پرانا حکمران ہی سمجھتے ہیں جس کا آغاز شاید کسی سکھ حکمران سے ہوا تھا جیسے رنجیت سنگھ جو پنجاب کا پہلا وزیر اعلیٰ سمجھا جاتا ہے۔