یہ پھیلے ہوئے ہاتھ
ملکی آئین میں اسلامی وضاحت کی شقیں موجود ہونے کے باوجود ہمارے اکثر حکمران سیکولر رہے
کبھی کبھی انسان پر کچھ ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کوکسی اور ہی دنیا کا باسی محسوس کرنے لگتا ہے، وجہ بڑی سادی سی ہوتی ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ کے احکامات پر عمل اور سزاوجزا کے معاملے پر جب غورو فکر کیا جائے تو دنیا ہیچ نظر آتی ہے۔ ایک بزرگ نے ایک بار نصیحت کی کہ تمہارے سامنے اگر کوئی ہاتھ پھیلائے تو یہ ہاتھ خالی نہ جانے دو۔ حضورؐ نے تو یہ بھی فرمایا کہ اگر آپ کے پاس کچھ نہ ہو تو مسکراہٹ بھی ایک صدقہ ہے یعنی آپ کی ایک مسکراہٹ بھی مانگنے والے کے چہرے پر تبسم بکھیر سکتی ہے۔
ہماری زندگی میں روزمرہ کا یہ معمول ہے کہ گھر سے باہر نکلتے ہی ہر سگنل پر کسی بازار میں راہ چلتے ہوئے اچانک کوئی ہاتھ آپ کے آگے آجاتا ہے اور سوال دراز کر دیتا ہے ان میں بڑی تعداد میں پیشہ ور گداگر جو کہ ہٹے کٹے اور صحت مند تندرست و توانا ہوتے ہیں مگر بازاروں اورچوراہوں میں مانگتے پھرتے ہیں ان کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ یہ ان کا ذریعہ روزگار ہے، ان میں سے بیشتر جعلی معذور بھی بن جاتے ہیںاگر بغور دیکھا جائے تو ان کا یہ جعلی اور مصنوعی عذر نظر بھی آجاتا ہے لیکن اس کے باوجود مجھے ان بزرگ نے یہی کہا کہ کوئی جیسا بھی ہو اس کا صرف پھیلا ہوا ہاتھ دیکھو اور خالی مت لوٹاؤ اور اس کے ساتھ بحث و مباحثے میں نہ پڑو کہ ہٹے کٹے ہو تو مزدوری کیوں نہیں کرتے کیونکہ تم کو نہیں معلوم کہ اس صحتمندی کے باوجود اس کی کیا مجبوری ہے، اس کو اللہ پر چھوڑ دو اور تم اپنا فرض ادا کرو۔ ہماری حالت تو یہ ہے کہ دن رات خدا کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں، زبانی کلامی ایمان لاتے ہیں مگر اس کے مطابق عمل نہیں کرتے ۔
یہی بات جب میں نے اپنے ایک خیر خواہ کے ساتھ کی تو اس نے کہا کہ آج جو یہ سب کچھ تمہارے پاس ہے کیا تم اپنے آپ کو اس کا حقدار سمجھتے ہو، خدا نے تمہیں جو کچھ دے رکھا ہے کیا تم اس کا حق ادا کر سکتے ہو، اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کیا تم یہ کہہ سکتے ہو کہ تم حقوق اللہ اور حقوق العباد پورے کر رہے ہو بلکہ ہماری حالت تو اس ملازم کی سی ہے جو مالک کے حکم پر حاضر جناب تو کہتا ہے مگر اس کے احکامات کو بجا نہیں لاتا، زبان سے خدا کو اپنا رازق سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں رازق اپنے آپ کو یا دنیاوی خداؤں کو سمجھتے ہیں، یہ آج ایمان کے کمزور درجے پر ہیں توکل بالکل ختم کر بیٹھے ہیں نوکری اور کاروباری ذرایع سے حاصل آمدن کو ہی اپنا رزق بنا چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو صفات اپنی ذات کے لیے مخصوص کر رکھی ہیں وہ ہم اپنے رویوں میں پیدا کر کے خدا کے ساتھ شرک کرتے ہیں، وہ شرک جو کہ ناقابل معافی جرم ہے کیونکہ وحدہ لاشریک صرف وہی ہے۔
اس سب کے باوجود ہم یہ بھول جاتے ہیں خدا ہماری کتنی کوتاہیوں پر درگزر کر کے ہمیں رزق دیتا ہے اور دنیاوی طور پر ہمیں ایک بہتر زندگی گزارنے کی توفیق دیتا ہے۔ کیا ہم ان بندوں میں شامل ہیں جو اپنی ایک وقت کی روٹی کا بھی کفارہ ادا نہیں کر سکتے، ہم اس کی اطاعت میں بے شمار کوتاہیاں کرتے ہیں، ہم تو اس کی اطاعت میں اتنی مزدوری بھی نہیں کرتے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ اسی رب کی دین ہے اور اس کو جائز قرار دے سکیں لیکن اس کے باوجود اس کی ذات اپنی بے پایاں رحمت سے مجھے رزق فراہم کر رہی ہے۔ میں خود جب کبھی یہ سوچتا ہوں کہ میں جو قلم کی مزدوری سے رزق کما رہا ہوں کیا میں نے کبھی اس کا حق بھی ادا کیا ہے، میری ضروریات کے مطابق سب کچھ میرے پاس موجود ہے، مجھے تو اپنے آپ میں کوئی ایسی خوبی نظر نہیں آتی کہ میں ان سب نعمتوں کا حقدار ہوں کجا کہ میں اپنے رب کے احکامات پر عمل کر کے ایک باعمل مسلمان کہلانے کا حقدار بھی ہوں۔
عملی طور پر ہم میں سے بیشتر رب کے احکامات سے رو گردانی کرتے ہیں اس کی نعمتوں کا حق اور شکر ادا نہیں کرتے ۔ بطور قوم ہم سب اس حد تک کرپٹ ہو چکے ہیں کہ ہمارا ہر عمل اللہ کے احکامات سے روگردانی کا ہی ہے چاہے وہ ناپ تول کا معاملہ ہو ،وہ لوگوں کے درمیان لین دین کی کوئی صورت ہو ہمارے دوہرے معیار ہمیں اللہ کے دین سے کہیں بہت دور لے گئے ہیں۔ بازار چلے جائیں تو اپنا بلڈ پریشر ہائی کر کے ہی واپس آئیں گے کیونکہ دکانداروں کے اپنے معیار اور پیمانے ہیں اور جب ان سے اس کے متعلق پوچھنے کی کوشش کی جائے تو وہ ناراض ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات تو سودا دینے سے بھی یہ کہتے ہوئے انکار کر دیتے ہیں کہ جہاں اس سے ارزاں داموں پر دستیاب ہے وہاں سے لے لیں ۔ ایک مستند حدیث ہے کہ جو قوم ناپ تول میں بددیانتی کرتی ہے اس کا رزق روک لیا جاتا ہے لیکن ہمیں اس کی پرواہ نہیں ۔ایک قوم پر اس لیے ہی عذاب نازل ہوا تھا کہ وہ ناپ تول میں کمی کرتی تھی جس کی سزا میں وہ تباہ و برباد کر دی گئی مگر ایسے مستند واقعات کو جانتے بوجھتے بھی ہم عبرت پکڑنے کو تیار نہیں۔
ہمارے ملکی آئین میں اسلام کے بارے میں بڑی وضاحت کی شقیں موجود ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے اکثر حکمران سیکولر رہے اور اسی میں اپنی نجات ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں ہمارے بعض حکمرانوں کے آئیڈیل بھی سیکولر لیڈر ہی رہے اور سود جس کے بارے میں قرآن میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ براہ راست جنگ ہے، اسے ہم نے جائز قرار دے رکھا ہے اور اس پر اصرار بھی کرتے ہیں، اس کو جائز قرار دینے میں مختلف تاویلیں بھی پیش کرتے ہیں۔ دنیاوی زندگی میں اللہ کے احکامات سے رو گردانی کے لیے ہم نے کئی حیلے بہانے تراش رکھے ہیں اور پھر ان حیلے بہانوں پر سختی سے کاربند بھی رہتے ہیں اور ان کے بارے میں من گھڑت وضاحتیں بھی دینے سے نہیں چوکتے۔
میں جب بھی گھر سے باہر نکلتا ہوںتو سر خ بتی پر گاڑی رکنے کے بعد لاتعداد ہاتھ پھیلے دیکھتا ہوں جن میں سے کئی ایسے معصوموں کے بھی ہوتے جن کے ان معصوم ہاتھوں میں قلم اور کتاب ہونی چاہیے کچھ ہاتھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی عمر ان ہاتھوں سے اپنی اولاد کے لیے محنت مزدوری کرتے ہوئے گزر گئی لیکن اب وہ بڑھاپے میں بھی اپنی بھوک مٹانے کے لیے چوراہوں میں گداگری کرتے نظر آتے ہیں، یہ سب ایک ایسے معاشرے کی باتیں ہیں جہاں پر صاحب حیثیت لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنی روزمرہ کی خوراک میں جتنا ضایع کرتے ہیں اس سے کئی معصوموں اور بزرگوں کے پیٹ بھر ے جا سکتے ہیں ۔ میری ایک گزارش ہے کہ اپنے سامنے پھیلا ہوا ہاتھ خالی نہ جانے دیں چاہے وہ کیسا ہاتھ بھی کیوں نہ ہو، اس مالک کا شکر ادا کریں کہ یہ ہاتھ آپ کا نہیں کسی دوسرے کا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ'' لوگوں کی ضرورتوں کا تم سے وابستہ ہونا تم پر اللہ کا خاص کرم ہے۔ ''