بدل کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
اس ملک کے باسیوں کو ریاست گریز رجحان کی طرف دھکیلنے کا سبب غلط ریاستی پالیسیاں ہیں۔
اپنے ہی وطن میں اب تو ہم وطنوں سے خوف آنے لگا ہے۔ کچھ پتا نہیں کہ کب کون مار دے کافر کہہ کر۔ لگتا ہے ہم انسانوں کے درمیان نہیں، خون کے پیاسے درندوں کے درمیان رہتے ہیں، جو آپ کی حرکات و سکنات پر خونخوار نظریں گاڑے ہوئے ہیں کہ جیسے ہی آپ کے منہ سے کوئی متنازع لفظ یا جملہ نکلے، آپ کو چیر پھاڑ کر رکھ دیں۔ خون انساںاس قدر ارزاں ہوچکا ہے کہ کہیں عقیدے کے نام پر، کہیں نسلی و لسانی تفاخر کے نام پر، جب چاہے، جو چاہے اسے بہا سکتا ہے۔ جو کچھ وطن عزیز میں ہورہا ہے، اسے دیکھ اور سوچ کر ہی ریڑھ کی ہڈی میں ٹھنڈی لہر دوڑ جاتی ہے۔
جب تک غیر مسلم اور ان کی بستیاں شدت پسندوں کی زد پر رہیں، ہم مذمتی بیان داغ کر یہ سمجھتے رہے کہ ذمے داری ادا ہوگئی۔ مگر جب مشال خان کو توہین مذہب کے الزام میں بغیر کسی ثبوت سفاکی کے ساتھ قتل کیا گیا، تو اندازہ ہوا کہ معاشرہ سفاکی کی کس سطح تک جا پہنچا ہے۔ مگر اس کے بعد بھی کانوں میں ٹھسی روئی اور آنکھوں پہ چڑھی چربی نہ ہٹ سکی۔ کیونکہ اصل چربی تو ذہنوں پر چھائی ہے، جس نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کر رکھی ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج تک کسی بھی مسئلے کو اجتماعی دانش اور قومی شعور کے ساتھ حل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد پر 22 روز تک جو کچھ ہوا، اس نے ہماری ذہنی، فکری اور سماجی پسماندگی پر مہر ثبت کردی ہے۔ وطن عزیز کی ستر برس کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ دل سوز انکشاف ہوتا ہے کہ جھوٹ، دروغ گوئی اور دھوکا دہی ہماری حکمران اشرافیہ کا روز اول ہی سے وطیرہ رہا ہے۔ وہ اخلاقی اقدار جو کبھی ہمارے لیے باعث فخر ہوا کرتی تھیں، وقت گزرنے کے ساتھ قصہ پارینہ ہوئیں۔ جب خواص ہی آئین و قانون کی دھجیاں بکھیرنے لگیں، تو عوام کیوں کر پیچھے رہ سکتے ہیں۔ وہ بھی بے نتھے بیل کی طرح چہار سو منہ مارنے لگتے ہیں۔ گویا جس کا جو جی چاہتا ہے، کر گزرتا ہے۔ نہ کوئی روکنے والا، نہ کوئی ٹوکنے والا۔ ایسے ماحول میں کہاں کا انصاف اور کہاں کی منصفی۔
کہا جاتا ہے کہ لوگ پاکستانی بن کر سوچیں۔ مگر جو تلقین کررہے ہیں، پہلے خود تو اس پر عمل کرکے دکھائیں۔ آئین و قانون کی پاسداری کو اپنی زندگیوں میں شامل کریں، پھر واعظ بن کر تلقین کریں۔ عام آدمی تو بیچارا نہ تین میں نہ تیرہ میں۔ وہ اس ریوڑ میں شامل ہے، جسے جہاں موڑ دیا جاتا ہے، چل پڑتا ہے۔ کسی نے درست کہا ہے کہ اس ملک میں جو خرابی یا بگاڑ ہے، اس میں غریب اور ان پڑھ کا کوئی کردار نہیں۔ ہر خرابی کی بنیاد طاقتور، بااثر اور تعلیم یافتہ لوگوں نے ڈالی ہے، جو دیگرے را نصیحت، خود را فضیحت کی تفسیر بنے ہوئے ہیں۔ جب یہ تسلیم کرلیا جائے گا کہ ہر قومیت کی اپنی زبان، تہذیب و ثقافت اور شناخت ہے، تو ہر شہری میں پاکستانیت کا جذبہ از خود بیدار ہوتا چلا جائے گا۔ پھر سرکاری خزانے سے تنخواہ لینے والے کسی اہلکار کو دانشوری جھاڑنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
مگر یہاں عالم یہ ہے کہ جو تلخ حقائق سے پردہ اٹھادے، اس کی حب الوطنی مشکوک ہوجاتی ہے۔ جو اشرافیہ کی ہاں میں ہاں ملائے، اس کی ہر حماقت بھی قابل قبول۔ حالانکہ سات دہائیوں کی تاریخ میں اس ملک کو جو نقصان پہنچا ہے، انھی نام نہاد محب وطن عناصر نے پہنچایا ہے۔ جن پر غداری اور وطن دشمنی کا الزام لگایا گیا، وقت و حالات نے ثابت کیا کہ وہی اصل محب وطن تھے۔ ان کا کہا کل بھی درست تھا، آج بھی درست ہے۔ مگر اشرافیہ پھر اشرافیہ ہے، وہ رات کو دن کہے تو تسلیم کیا جانا چاہیے، وہ صبح کو شام کہے تو سر خم تسلیم کرنا چاہیے۔
اشرافیہ کی دانش کا عالم یہ ہے کہ جو اس ملک کے درودیوار کو خون سے بھگوتے رہتے ہیں، انھیں اپنا سمجھتی ہے اور گلے لگاتی ہے۔ ان کے ہر ظلم و ستم سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔ مگر جس نے عوام کے حقوق کی بات کی، ریاست کے منطقی جواز کی درستی کی بات کی، اس پر عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش کی آزادی ایک نشان عبرت تھا، جو غرور و تکبر اور احساس برتری کے منہ پر طمانچے کی صورت ظاہر ہوا۔ مگر ہماری کوتاہ بین اشرافیہ نے اس سانحہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ آج بھی اسی فکری نرگسیت پر اصرار ہے۔ مگرکوئی پلٹ کر دیکھنے اور دماغ سے سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کررہا۔ یہ نہیں سوچا جارہا کہ جن پر ہم تکیہ کیے ہوئے ہیں، وہی پتے ہوا دے رہے ہیں۔ وہی ہماری عالمی رسوائی اور قومی تباہی کا سبب بن رہے ہیں۔ آج ملک کا کون سا حصہ ہے، جو محفوظ ہے؟ کس جگہ بے چینی نہیں ہے۔ مگر عقل و دانش سے عاری اشرافیہ وہی راگنی الاپ رہی ہے، جس کی وجہ سے اس حال کو پہنچے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ فیض آباد پر 22 دن کے دھرنے نے ہماری اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا۔ تو ان سے پوچھتا ہوں کہ 126 دن کے دھرنے میں کون سی کوثر و تسنیم میں دھلی گفتگو ہوئی تھی۔ آج سوشل میڈیا پر کون سی اردو معلیٰ تحریر کی جارہی ہے۔ لگتا ہے کہ گالم گلوچ ہمارا قومی تفاخر بنتی جارہی ہے۔ کسی دانشور نے کہا تھا کہ جس معاشرے میں بدتہذیبی ثقافتی شکل اختیار کرجائے، جنونیت اور جذباتیت روایت بن جائے۔ اس معاشرے میں عقل و دانش اور دلیل ومکالمہ کی توقع عبث ہے۔ پاکستانی معاشرہ اسی ڈگر پر جا پہنچا ہے یا پہنچا دیا گیا ہے کہ جہاں سے واپسی اب ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
پھر عرض ہے کہ اس ملک کے باسیوں کو ریاست گریز رجحان کی طرف دھکیلنے کا سبب غلط ریاستی پالیسیاں ہیں۔ یہ تسلیم کرنے میں کیا قباحت ہے کہ پاکستان ایک کثیرالقومی اور کثیرالعقیدہ ملک ہے؟ جس میں مسلمان اکثریت میں ضرور ہیں، مگر غیر مسلم بھی اس کے شہری ہیں۔ انھیں شہری حقوق اور سیاسی آزادیوں سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بھی قبول کیا جائے کہ مسلمانوں کے کئی فقہ، فرقے اور مسالک ہیں۔ ان سب کا ریاست پر مساوی حق ہے اور بنا کسی پہرے اپنی عبادات کرنے کی پوری آزادی ہے۔
بابائے قوم کے وعدے کے مطابق ہر شہری کو اپنے عقیدے کے مطابق اپنی عبادت گاہیں تعمیر کرنے اور ان میں عبادت کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس عمل میں رکاوٹ ڈالنے والا دراصل وطن دشمن ہے۔ ہر قوم، قومیت اور کمیونٹی کو اپنی زبان، ثقافت اور طرز حیات پر آزادانہ عمل پیرا ہونے کا حق آئین پاکستان دیتا ہے۔ ان شقوں سے انحراف آئین پاکستان سے انحراف ہے۔ تمام شہریوں کو بلاامتیاز نسل، لسان، صنف اور عقیدہ تحفظ فراہم کرنا بھی ریاست کی ذمے داری ہے۔ انتشار و افتراق کا سبب یہ ہے کہ ریاست یہ ذمے داریاں پوری کرنے میں مسلسل ناکام ہے۔ جو عوام کی الجھنوں اور اغیار کی سازشوں کا راستہ کھولنے کا سبب ہے۔
مگر جن کے ہاتھوں میں اقتدار و اختیار کی باگیں ہیں، جو بااثر و بااختیار ہیں، ان کی سمجھ میں درویشوں کی صدائیں نہیں آتیں۔ وہ اس وقت تک خواب خرگوش میں محو رہتے ہیں، جب تک کہ کوئی بڑا سانحہ یا المیہ رونما نہ ہوجائے۔ مگر ہماری اشرافیہ کی بے حسی کی تو شاید تاریخ میں بھی نظیر نہ ملے۔ کیونکہ جس کی آنکھیں سقوط ڈھاکا جیسے المیہ سے نہ کھل سکیں، اسے شاید بڑے سے بڑا سیلاب رواں بھی بیدار نہ کرسکے۔ کیونکہ بیدار اگر ہونا ہوتا تو ہوچکے ہوتے۔