بے ربط آوازوں کا کرب

جس معاشرے میں جبری رویوں کا بیج بویا گیا ہو وہاں فراریت پسندی فروغ پانے لگتی ہے


Shabnam Gul December 07, 2017
[email protected]

QUETTA: ایک بہت ہی منتشر کلاس تھی لڑکیوں کی۔ اسکول کو خیرباد کہنے کے بعد جب طلبا کالج میں داخلہ لیتے ہیں تو خود کو ماورائی مخلوق سمجھنے لگتے ہیں۔ اسکول میں قدرے نظم و ضبط کی زندگی گزارنے کے بعد کالج کے مختلف ماحول میں قدم رکھتے ہی ان کی سوچ بدل جاتی ہے۔ عمر کا انتہائی نازک دور سولہواں یا سترہواں سال کالج میں گزرتا ہے۔ تیرہ سے اٹھارہ سال کی عمر بے چین، مہم جوئی کی طرف مائل اور باغی رویوں پر مبنی ہوتی ہے۔ بچے اسی عمر میں یا منظم ہوجاتے ہیں یا پھر راستہ بھٹک جاتے ہیں۔ ان کے ذہن خام مال کی طرح ہوتے ہیں۔ والدین یا اساتذہ رہنمائی کے اصول جانتے ہیں تو ان کے بکھرے افکار اور غیر منظم سوچوں کو تصور کے سانچے میں ڈھال کر مجسم روپ عطا کرتے ہیں۔

تخیل، تکمیل تک رسائی کے لیے خون پسینہ مانگتا ہے۔ سچائی کی طاقت پاکر کرب کا حسن سامنے آتا ہے۔ جس تخیل میں محنت اور تپسیا کا رنگ شامل نہ ہو وہ تخلیق بے ہنر رہ جاتی ہے۔ جب کہ ذہنی ہنرمندی انسان کو سوچ کی کاملیت عطا کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں سوچ کا سلیقہ احساس کے ہنر سے ہم آہنگ ہوکے رہبر کی تشکیل کرتا ہے۔ رہبر ایسے نہیں بنتے۔ انھیں من کو مارنا پڑتا ہے۔ عمل کی بھٹی میں جل کر کندن بنتے ہیں۔ یہ ریڈی میڈ اسکالرز اور مسیحاؤں کی طرح نہیں ہوتے بلکہ لفظ کی حرمت سے آشنا ہوتے ہیں۔

بہرکیف تجربہ کار معلمہ سے درخواست کی گئی کہ وہ منتشر کلاس کو دیکھے۔ کیونکہ نوجوان اساتذہ سہل پسند ہیں۔ انھیں نوجوانوں کے کردار کی تعمیر سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ جو پیسے انھیں تنخواہ کی صورت ملتے ہیں، وہ گھر پر نہیں بلکہ شخصیت کی تزئین و آرائش پر خرچ کرتے ہیں۔ ڈیزائنرز و میک اپ کی دکانوں کا کاروبار خوب چمکتا ہے۔

معلمہ جب کلاس میں داخل ہوئی تو ایک سو سے زائد لڑکیاں دیکھ کر گھبرا گئی۔ یہ ایک بڑی اور منتشر کلاس تھی۔ لڑکیاں خوب ہنس بول رہی تھیں۔ جیسے کلاس کے بجائے کسی تفریح گاہ میں بیٹھی ہوں۔ اس نے انھیں اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی مگر انھوں نے ایک نہ سنی۔

کلاس میں پچاس سے زیادہ طالب علم نہیں ہونے چاہئیں۔ لیکن سیکشنز بڑھیں گے تو کلاس کا بوجھ بھی بڑھے گا۔ کون تین یا چار کلاسز لے گا۔ وہ زمانے گئے جب اساتذہ دن میں زیادہ کلاسز لے کر بھی تازہ دم رہا کرتے تھے۔

ٹیچر نے سوچا لڑکیوں کو تحرک کی ضرورت ہے۔ لہٰذا اس نے ایک لڑکی سے کوئی سوال کیا۔ درست جواب ملنے پر اس نے لڑکیوں سے تالی بجانے کو کہا۔

تالیوں کی گونج میں بے جان ماحول میں ایک توانائی سی پیدا ہوگئی۔ اس کے بعد کلاس پر طاری جمود کا طلسم ٹوٹ گیا۔ شہر، قصبے، دیہات، ادارے و سیاست کے ایوان جمود کا شکار تھے۔ کسی بھی جگہ نیا پن نہیں ملتا۔ بلکہ بوسیدہ اور میکانیکی رویوں کی سڑاند پھیلی ہے۔ اب لڑکیوں کے چہرے پر قدرے سکون تھا۔

وہ مختلف کلاسز لیتی رہی تھیں لہٰذا وہ کلاس میں جاتے ہی Warm Up (جسمانی طور پر فعال کرنے کی) ایکسرسائز کرواتی تاکہ طالبات اپنے وجود میں ایک نئی ترغیب کا اثر محسوس کرسکیں۔ اکثر لڑکیوں کے شانے ڈھلکے ہوئے تھے۔ ان کا پوسچر (ساخت) ڈھیلا اور زندگی کی انگیزش سے محروم تھا۔ چہرے پر تازگی کے بجائے بے زاری تھی۔ آنکھوں سے امید کی کرن مفقود!

''رات کو جلدی کون کون سوتا ہے؟''

مگر کسی لڑکی نے جواب دیا اور نہ ہی ہاتھ اوپر اٹھائے۔ لڑکیوں کی آنکھوں کے نیچے بے خوابی کے دائرے بنے تھے۔

موبائل اور کمپیوٹرز نے ان سے تمام تر تازگی اور فطری احساس چھین لیا ہے۔ ان کے جسموں میں سانس لیتی توانائی منجمد تھی۔ یہ نوجوانوں کے جسموں میں قید حرارت، سنسناتی گولی سے زیادہ مہلک ہے۔ معلمہ نے ایک گہری سانس لی تاکہ ماحول کی بے حسی سے نجات حاصل کرسکے۔ نجی اسکول بنگلوں میں سمٹ آئے ہیں اور گورنمنٹ اسکول و کالجز میں اگر گراؤنڈ ہوتے ہیں تو وہاں فقط کھیلوں میں حصہ لینے والے طلبا مشقیں کیا کرتے ہیں۔ فزیکل ایجوکیشن کا مضمون تمام طلبا کو نہیں پڑھایا جاتا۔ یہاں تو پیشہ ورانہ مہارت محض پیسہ کمانا ہے۔ ملازمت بھی ایسی چاہیے جس میں محنت کم اور تنخواہیں زیادہ ہوں۔ اور ان تنخواہوں میں پانچ فیصد جتنا حصہ شامل نہیں ہوتا فلاحی کاموں کے لیے ۔

بدامنی و دہشت گردی کی وجہ سے بچے اور نوجوان نہ باہر گلیوں میں کھیل سکتے ہیں اور نہ ہی کھلے میدانوں و باغات میں جاسکتے ہیں۔ یہاں تو پالیسی میکرز نہ خود کوئی کھیل کھیلتے ہیں اور نہ ہی جسمانی مشق کی افادیت سے باخبر ہیں۔

فرصت کی وجہ سے منفی سوچ کا رجحان بڑھا ہے۔ اور یہ منفی سوچ، جسمانی مشق کیے بغیر جسم سے رہائی نہیں پاسکتی۔

''ٹیچر! آپ بہت مختلف ہیں۔'' ایک لڑکی نے جھجکتے ہوئے کہا۔

''مختلف وہ کیسے؟'' اس نے مسکراتے ہوئے سوال کیا۔

''آپ نے ہمیں ایک بار بھی نہیں ڈانٹا۔'' لڑکی نے آنکھوں میں حیرت سمیٹ کر کہا۔

شاید موجودہ تعلیمی نظام میں استاد اور ڈانٹ ڈپٹ لازم و ملزوم ہے۔ طالب علموں کو زندگی کے مختلف ادوار میں، اساتذہ کی بے جا سختی کے تجربے ہوتے رہتے ہیں۔ لڑکے زیادہ تر تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ اسے معلوم تھا کہ ڈانٹ سے طالب علموں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ بار بار ڈانٹ ڈپٹ سے وہ ڈھیٹ اور بے حس ہوجاتے ہیں۔ جب کہ خوشگوار رویے اپنا کر یا ان کا دوست بن کر اساتذہ ان سے مطلوبہ نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔

توجہ، محبت اور یقین کا مرہم، ڈانٹ کے زہر سے زیادہ مفید ہے۔ یہ زہر تو تمام عمر ان کے جسموں میں گردش کرتا رہے گا۔ اور پھر ان کی نسلوں میں منتقل ہوجائے گا۔ نسل در نسل ہم کیونکر زہر بانٹتے رہیں؟ ہر برے احساس کو جڑ پکڑنے سے پہلے ختم کردینا چاہیے۔

لیکن یہاں سوچنے اور سمجھنے کی فرصت کہاں! لڑکیوں کے چہروں پر محرومیوں کا عکس تھا۔

اطمینان کی بہار کم چہروں پر دکھائی دیتی ہے۔

انھیں تمام دن میں آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت کا وقفہ ملتا ہے۔ ان کے بیگ کتابوں سے بوجھل ہیں۔ یہ اتنا پڑھ لکھ کر بھی کیوں اچھے انسان نہیں بنتے؟

شاید انھیں فقط پڑھایا جاتا ہے۔ علم کو سکھانے اور سمجھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے تو علم آگہی یا ذہن سنوارنے کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ ان کا ایک پیریڈ گیمز کا ہونا چاہیے۔

اسے سوچ میں ڈوبا دیکھ کر لڑکیاں ایک بار پھر شور مچانے لگیں۔ وہ بھی ان کے شور کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ شور ان کی احساس محرومی اور اندر کے خوف کا نتیجہ ہے۔ یہاں شور زندگی بخش جب کہ خاموشی مارے ڈالتی ہے۔ جس معاشرے میں جبری رویوں کا بیج بویا گیا ہو وہاں فراریت پسندی فروغ پانے لگتی ہے۔ پھر شور اور بے ہنگم آوازوں کا طوفان اٹھتا ہے ہر طرف۔ اور زندگی فطری مسکراہٹوں سے محروم ہوجاتی ہے۔

جدید دنیا کی تمام تر جدوجہد، شور کی فرینکوئنسی کو بحال رکھنے کے لیے ہے۔

شور کو ختم کرنے کے لیے بے ربط آوازوں کے کرب کو سمجھنا پڑتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔