سرمایہ داری شدید بحران کا شکار
پاکستان بنتے وقت ڈالر 3 روپے اور اب 106 روپے کا ہے، امریکا ہمیں ایک ڈالر دے کر 14 ڈالر لے جاتا ہے
پاکستان عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا ایک ادنیٰ سا حصہ ہے ہمیں پاکستان کی معیشت اور سیاست کو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے تناظر میں ہی دیکھنا ہوگا۔
اب سوشلسٹ بلاک نہیں ہے مگر کمیونسٹ نظریہ اور غیر طبقاتی سماج کے قیام کے لیے لڑنے والے دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں اور ہر جگہ، ہر سطح پر لڑ رہے ہیں, چونکہ اس وقت عالمی طور پر سامراج کئی مراکز میں تقسیم ہے، جس میں دو مراکز امریکا اور چین خاص توجہ کے مراکز ہیں۔ آج سے کئی صدی قبل اشتمالی نظریہ کو ماننے والے انقلابی دانشور اور فلسفیوں نے کہا تھا کہ جوں جوں سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی میں اضافہ ہوگا، توں توں دولت چند ہاتھوں میں مرکوز ہوگی اور دوسری جانب افلاس زدہ لوگوں کی فوج۔ آج یہ بات درست ثابت ہوگئی ہے۔
اس وقت دنیا کے 8 امیر ترین انسان دنیا کی آدھی دولت کے مالک ہیں جب کہ اسی دنیا میں روزانہ صرف بھوک سے 75 ہزار انسان مر رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں الٹ پھیر اور اٹھک پٹخ اگر نہیں ہوگی تو یہ نظام چل نہیں سکتا ہے۔ یہ نظام پیداواری قوتوں کا خون چوس کر ہی جونک کی طرح پلتا ہے۔ اس لیے دنیا میں سامراجیوں کا آپس کا تضاد اور اندرون خانہ تضاد بھی عروج پر ہے۔ جہاں تک عالمی سرمایہ داری اور عالمی مزدور تحریک کا تضاد، تو ایک مسلسل فطری قانون ہے۔ اس لیے بھی کہ جہاں استحصال ہوگا وہاں ردعمل ہوگا اور تضاد بھی۔
اندرون ملک مفادات کے کچھ حوالے دینا ضروری ہے، اس لیے کہ اس کے بغیر تجزیہ ادھورا رہ جائے گا۔ چین میں سرمایہ داری کی بڑھتی ہوئی تیز رفتار ترقی یا یوں کہہ لیں کہ ریلوے، سڑکیں، کارخانے اور مالز دھڑا دھڑ بن رہے ہیں تو دوسری طرف ان کی پیپلز اسمبلی میں 203 ارب پتی موجود ہیں اور 27 کروڑ عوام بے روزگار ہیں۔ دوسری طاقت امریکا ہے، جس کے 68 بحری بیڑے دنیا بھر کے سمندروں میں لنگر انداز ہیں۔ 30 کروڑ کی آبادی میں 3 کروڑ لوگ بے روزگار ہیں۔ امریکا کی صنعتی پیداوار میں 70 فیصد اسلحہ کی پیداوار ہے۔ چین اور سعودی عرب میں کرپشن کے الزامات میں سزائے موت اور عمر قید کی سزائیں دی جاتی ہیں، ان میں شاہی خاندان کے اراکین کی بھی تفتیش ہورہی ہے۔ مگر چین اور سعودی عرب میں ارب پتیوں کی دولت میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، اس لیے کہ سرمایہ داری نام ہی ہے عوام کا خون چوس کر اپنی دولت میں اضافہ کرنے کا۔ اسی کو کہتے ہیں قدر زائد، جسے سرمایہ دار منافع کہتا ہے۔
امریکا اور چین مختلف ممالک میں پراکسی وار میں ملوث ہیں۔ افغانستان، شام، یمن، پاکستان، صومالیہ اور سوڈان میں ان کی پراکسی وار جاری ہیں۔ جیسا کہ کردوں نے آزادی کے لیے ریفرنڈم کروائے اور قطعی اکثریت بلکہ 90 فیصد ووٹوں سے اور کیٹالونیہ کے عوام 80 فیصد ووٹوں سے جیت گئے۔ یہاں کوئی دھاندلی کی رپورٹ نہیں آئی، اس کے باوجود عراقی حکومت نے کردستان اور ہسپانوی حکومت نے کیٹالونیہ پر قبضہ کرلیا۔ امریکا اور یورپ نے ان قبضوں کی حمایت کی۔ اس سے قبل صحرائے اعظم افریقہ پر مراکش نے قبضہ کرلیا تھا۔ ابھی ترکی نے عراقی کردوں پر بمباری شروع کردی ہے۔
سول حکومت اور فوجی اداروں کے مابین دنیا بھر میں اکثر تضادات اور اقتدار کی چھیناجھپٹی بھی رہتی ہے۔ حال ہی میں ترکی، امریکا، زمبابوے، سوڈان اور صومالیہ ان کی واضح مثالیں ہیں۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ سرمایہ داری میں ایسے تضادات ناگزیر ہوتے ہیں۔ یوگوسلاویہ میں جب مارشل ٹیٹو سربراہ تھے تو رنگ و نسل، فرقہ اور مذہب سے بالاتر ہوکر سوشلسٹ نظریہ پر سب یکجا تھے۔ جب انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی ہار گئی اور نیشنلسٹ جیت گئے تو مسلمانوں اور کروٹ کیتھولک عیسائیوں کا سربیا کے کیتھولک عیسائیوں نے قتل عام شروع کیا۔
ان عالمی تناظر میں پاکستان کو دیکھیں تو 1948 میں 3 رو پے کا ایک ڈالر تھا اور آج 106 روپے کا ایک ڈالر ہے۔ آخر ایسا کیوں؟ اس لیے کہ امریکا ہمیں ایک ڈالر دے کر 14 ڈالر لے جاتا ہے۔ پھر یہاں بھی نوکرشاہی کی سازش اور قبضے جابجا جاری ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیا قت علی خان کا قتل، پھر جنرل اسکندر مرزا، جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ ایوبی آمریت میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنما کامریڈ حسن ناصر کو جسمانی اذیت دے کر قتل کردیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو جب کنونشن مسلم لیگ کے سیکریٹری تھے اور ایوب خان صدر، تو بھٹو ٹھیک تھے، جب پی پی پی بنائی اور ایوبی آمریت کے خلاف ہوگئے تو غدار ٹھہرے، بعد ازاں انھیں جنرل ضیا الحق کی آمریت میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھٹو اور نواز شریف جب ایوبی اور ضیائی آمریتوں کے خلاف بولنے لگے تو انھیں چاہیے تھا کہ عوام سے غیر جمہوری حکمرانوں کا ساتھ دینے پر معافی مانگتے۔ اب پھر اسی قسم کی کوششیں ہورہی ہیں۔ حالیہ فیض آباد دھرنا اسی کا تسلسل ہے۔ دھرنا ڈال کر حکومت کو مفلوج کرنا، عدالتوں پر دباؤ بڑھانا، اگر وزیر داخلہ کارروائی کرتا تو اسے عہدے سے ہٹانا، اگلے مرحلے میں وزیراعظم کو ہی برخاست کروانا۔ دوسری جانب اگر حکومت دھرنے کے شرکا کے خلاف کوئی کارروائی کرتی تو ملک بھر میں افراتفری پیدا کرنا، پھر مارشل لاء لگوانا، اگر ایسا نہ ہوتا تو نگراں حکومت قائم کرکے اسے طول دینا، اور اس دوران مذہبی عناصر کو نواز لیگ سے الگ کرنا۔ ساتھ ساتھ ایسا ماحول پیدا کرنا جس میں نوازشریف غیر جمہوری قوتوں کو للکار نہ سکے۔
اب اصل بات یہ ہے کہ یہ غیر جمہوری قوتیں حزب اقتدار کی ہوں یا حزب اختلاف کی، عوام کے دیرینہ مسائل پر دم بخود رہتی ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، افلاس، غربت، ناخواندگی اور بیماری کے خلاف جدوجہد کرنا تو درکنار بیان تک نہیں دیتیں۔ ابھی گزشتہ ماہ چار سو سے زائد چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، حال ہی میں پھر ایک بار پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، اس پر سب خاموش ہیں۔ نہ حکومت مہنگائی روکتی ہے اور نہ حزب اختلاف ایک دن کی بھی ہڑتال کرتی ہے۔
فیض آباد میں پاکستان کے کسی مظاہرے کی مثال نہیں ملتی جہاں دس افراد قتل ہوئے ہوں اور انھیں ایک ایک ہزار روپے بانٹے گئے ہوں۔ اس دھرنے کی وجہ سے دس گاڑیاں جلیں، دس افراد مارے گئے، 180 زخمی ہوئے، توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ میں 27 کروڑ کا سرکاری نقصان ہوا۔ اور یہ سب کچھ کرنے والے کسی بھی فریق کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ جب کہ اسی پاکستان میں 7 جون 1972 اور 18 اکتوبر 1973 میں درجنوں مزدوروں کے قاتلوں کو آج تک کوئی سزا نہیں ہوئی۔ حال ہی میں لیڈی ہیلتھ ورکرز، اساتذہ، معذوروں اور نابیناؤں کے مطالبات ماننے کے بجائے ان پر تشدد کیا گیا، انھیں اپنے گھر واپس جانے کا کوئی کرایہ نہیں دیا گیا۔ حکمران طبقات ان نان ایشوز پر اقتدار کی رسہ کشی کرتے رہیں گے، جب تک مزدور طبقہ، کسان اور پیداواری قوتیں ایک غیر طبقاتی سماج کے قیام کے لیے انقلاب برپا نہیں کرتیں۔