سیرت ِرسول کریمؐ اور خدمت خلق
’’ساری مخلوق میں سب سے زیادہ اﷲ کے نزدیک وہ ہے جو اﷲ کی عیال یعنی مخلوق کے ساتھ زیادہ بھلائی سے پیش آتا ہے۔‘‘
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے تمام اہل ایمان بھائی بھائی ہیں۔ فوٹو : فائل
مسلمانوں کو آپس میں معاملات اور معاشرت بھائیوں کی طرح کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کے ساتھ رحمت، شفقت، نرمی برتنے اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون میں پورے اخلاص اور خیر خواہی سے پیش آنا چاہیے۔ حدیث شریف میں ہے، مفہوم : ''رحم کرو تم زمین والوں پر، رحم کرے گا تم پر آسمان والا۔ '' (ترمذی)
ایک اور حدیث میں آتا ہے، مفہوم : ''ساری مخلوق میں سب سے زیادہ اللہ کے نزدیک وہ ہے جو اللہ کی عیال یعنی مخلوق کے ساتھ زیادہ بھلائی سے پیش آتا ہے۔'' حضرت علی ؓ شمائل نبویؐ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں، مفہوم : '' آپ ﷺ کے قریب بہت لوگ ہوتے تھے لیکن ان میں سے آپؐ کی نظر میں زیادہ صاحب فضیلت وہی ہوتا جو عام لوگوں کی زیادہ بھلائی چاہتا تھا اور آپ ﷺ کے نزدیک وہی شخص صاحب مرتبہ ہے جو لوگوں کے دین و دنیا کے کام آتا اور ان کے ساتھ محبت و اخلاق سے پیش آتا ہے۔''
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں، جناب رسول اکرمؐ نے فرمایا، مفہوم : '' مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس سے خیانت کرے گا اور نہ وہ اس سے جھوٹ بولے گا اور نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑے گا۔ مسلمان کا سب کچھ دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ اس کی آبرو ریزی اس پر حرام ہے، اور اس کا مال اس پر حرام ہے اور اس کا خون اس پر حرام ہے اور (دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا) تقویٰ یہاں ہے اور کسی آدمی کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر و توہین کرے۔'' (ترمذی)
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: '' مومن دوسرے مومن کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے کہ اس عمارت کا بعض حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کردیتا ہے۔'' (ترمذی)
اس حدیث میں حضور ﷺ نے مسلمانوں کے باہمی اتفاق و اتحاد اور ایک دوسرے سے تعاون و تناصر اور ہر کارخیر میں ایک دوسرے کی مدد کرنے پر زور دے کر ایک مثال سے اس کی توضیح کی ہے۔
جس طرح ایک عمارت متفرق اجزاء سے بنی ہوئی ہوتی ہے۔ جیسے ہر جز نے دوسرے جز سے چمٹ کر اس کو مضبوطی سے پکڑلیا، خود بھی مضبوط ہوا اور اس کو بھی مضبوط بنالیا اور اس طرح ایک مضبوط خوب صورت اور بلند عمارت ظہور پذیر ہوئی۔ مسلمانوں کو بھی ایک دوسرے سے افتراق اور ایک دوسرے سے قطع تعلق کرنا درست نہیں بل کہ آپس میں نرمی، رحم دلی اور محبت کے ساتھ مل کر رہنا چاہیے۔ نظم و ضبط اور اتفاق و اتحاد سے زندگی بسر کرنی چاہیے اور جس طرح دیوار سے نچلے حصے اوپر والے حصوں کا بوجھ اٹھائے ہوتے ہیں، اسی طرح مسلمانوں کواپنے استحکام اتفاق و اتحاد قائم کرنے اور پھر اپنی منظم قوت و شوکت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے آپ کو بڑی سے بڑی قربانی کے لیے پیش کرنا ہوگا۔
جو قوم اپنے اجتماعی نظام، قوت و استحکام اور نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے اپنے بھائی کا بوجھ خوشی اور محبت کے ساتھ اُٹھانا گوارا نہیں کرتی تو دشمن ان پر مسلط ہوکر زبردستی ان کے سروں پر بیٹھ جاتا ہے اور پھر ناگواری کے ساتھ دشمن کا بوجھ اٹھاتی ہے۔ بلاشبہ سچ یہ ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے امت کی خیر خواہی کا اکمل طریقے سے حق ادا فرمایا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کی راہ نمائی فرمائی ہے لیکن کا ش کہ امت محمدی ﷺ خواہشات نفسانی کی پیروی اور یہود و نصاریٰ کا اتباع چھوڑ کر جناب رسول اکرم ﷺ کی تعلیمات کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے لیے بنیاد بنالے اور امت کی کام یابی اور فلاح کے لیے جدوجہد کرے تو امید کی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں پر چھائے ہوئے ان گھٹا ٹوپ اندھیروں کا جلد خاتمہ ہو اور مسلمان طلوع سحر کی نوید سن لیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: '' بے شک تم میں سے ہر ایک (مسلمان ) اپنے بھائی (دوسرے مسلمان ) کا آئینہ ہے پس اگر اس نے اس مسلمان میں کوئی بُری اور تکلیف دہ چیز دیکھی تو اس چیز کو اس سے دور کردے۔'' (مسلم)
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے تمام اہل ایمان بھائی بھائی ہیں۔ آج خالص مادی دور میں شاید اس کو سمجھنا مشکل ہو۔ اخبار میں اکثر یہ خبریں بھی آنے لگی ہیں کہ ماں نے بیٹے کو قتل کیا، نوزائیدہ بچہ کو اس کی ماں کوڑے دان میں ڈال گئی، ماں بچیوں سمیت دریا میں کود گئی وغیرہ۔ بعثت نبویؐ سے پہلے عربوں میں ہزار جہالتوں کے باوجود یہ درندگی نہ تھی، وہ بھائی کے رشتۂ محبت سے آشنا تھے، اسی رشتے کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے ایک بھائی کا بھائی سے جو تعلق ہوتا ہے وہی تعلق ایک ایمان والے کا دوسرے ایمان والے سے ہوتا ہے۔ یہ ہے وہ ایمانی اخوت کا مضبوط تر رشتہ جس کے نتیجے میں ایک صحابیؓ نے جان دے دی لیکن اپنے پیاسے ایمانی بھائی سے پہلے خود پانی پینا گوارہ نہ کیا۔
اس نوع کے متعدد واقعات کتب حدیث میں مذکور ہیں۔ کیا انتہا ہے ایثار کی کہ اپنا بھائی آخری دم توڑ رہا ہو اور پیاسا ہو، ایسی حالت میں کسی دوسرے کی طرف توجہ کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے چہ جائیکہ اس کو پیاسا چھوڑ کر دوسرے کو پانی پلایا جائے۔ اور ان شہداء کی روحوں کو اللہ جل شانہ اپنے لطف و فضل سے نوازیں کہ مرنے کے وقت بھی جب ہوش و حواس سب ہی جواب دیتے ہیں یہ لوگ ہم دردی میں جان دیتے ہیں۔
دینی اخوت کی فضیلت کے بارے میں سرکا ر دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا! '' اللہتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہے جو میرے لیے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے رہیں، میری محبت ان لوگوں کے لیے ثابت ہے جو میری خاطر ایک دوسرے کو چاہتے ہیں۔ میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔''
(احیاء العلوم )
خالق کی عبادت کے ساتھ اس کی مخلوق سے حسن سلوک بے پناہ اجر کا باعث ہے۔ احادیث مبارکہ سے پتا چلتا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نماز روز ہ اور دیگر عبادات کے بارے میں تاکید کے ساتھ صحابہ کرامؓ کو دوسرے انسانوں سے بھلائی اور خیر خواہی کی بھی بھرپور تلقین فرماتے تھے۔ صحابہ کرامؓ کے ایثار کی حق تعالیٰ شانہ نے کلام اللہ میں تعریف فرمائی اور اس صفت کا ذکر فرمایا کہ وہ لوگ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ اُن پر فاقہ ہی ہو۔
کنز العمال میں ایک حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ یہ عمل پسند ہے کہ کسی مسکین کو کھا نا کھلایا جائے۔ اسی طرح انسانی تعلقات میں باہمی خیر خواہی کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے سرکار دوعالم ﷺ نے معاشرت کا یہ زریں اصول عطا فرمایا : '' ایسے شخص کی محبت میں کوئی خوبی نہیں جو تمہارے لیے بھی وہ کچھ نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے یا اس انداز میں نہ سوچے جس انداز میں وہ اپنی بہتری اور بھلائی سوچتا ہے۔''
رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''خد ا کی قسم تم مومن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ کچھ نہ چاہو جو اپنے لیے چاہتے ہو۔'' رحمت عالم ﷺ کے فرمودات ہمارے لیے فلاح و نجات کی راہیں متعین کرتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم : ''مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ تو اسے وہ رسوا کرے اور نہ ہی اس پر ظلم کرے اور جو اپنے بھائی کی حاجت روائی میں رہے گا اللہ اس سے قیامت کے دن کی تکالیف دور کرے گا اور جو مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا قیامت کے دن اللہ اس کی پردہ پوشی کرے گا۔''
حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے : ''آپس میں خصومت اور دشمنی سے گریز کرو کیوں کہ اس سے خوبیاں فنا ہو جاتی ہیں اور فقط عیوب زندہ رہتے ہیں۔'' اسی طرح پڑوسیوں کے ساتھ حسن معاملہ کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ''جو شخص خدا اور روز جزا پر اعتقاد رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسیوں کی عزت کرے اور اسے ایذا نہ دے۔ وہ شخص جس کی شرارتوں سے اس کا ہمسایہ امن میں نہیں وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ رسول اکرمؐ صحابہ کرام ؓ میں سے کسی کو مصیبت و تکلیف میں مبتلا دیکھتے تو سخت رنجیدہ ہوجاتے، دل میں رقت پیدا ہوجاتی اور گریہ طاری ہوجاتا۔
حضرت عمرؓ کی زبانی آپؐ کا ارشاد مروی ہے، مفہوم : '' تم میں سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں یتیم معزز طریقے سے رہتا ہے۔'' ایک شخص نے حضور ﷺ سے عرض کیا۔ میرا دل سخت ہے اس کا علاج کیا ہے ؟ آپؐ نے فرمایا کہ یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو اور مسکین کو کھانا کھلایا کرو۔''
حضور ﷺ نے فرمایا: '' جو زمین والوں پر رحم نہیں کرے گا آسمان والا اس پر رحم نہیں کرے گا۔''