آتی جاتی یا مستقل بجلی
ان دنوں ایک بار پھر زور و شور سے یہ چرچا جاری ہے کہ ملک میں بجلی کی کمی کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔
اسے اپنی خوش قسمتی کہیں یا کچھ اور کہ پاکستان اپنے محل وقوع سے دنیا کے لیے اہمیت کا حامل ایک ایسا ملک ہے جس کے بغیر بڑی بڑی عالمی طاقتوں کا گزارا ممکن نہیں اور وہ اپنے مخصوص اور مذموم ہر طرح کے مقاصد کے لیے پاکستان کے تعاون کی مرہون منت رہتی ہیں، اور ہم بھی فراخ دلی سے ان طاقتوں کو ہمیشہ اپنا کندھا فراہم کرتے آئے ہیں جس پر وہ چڑھ کر اپنے اچھے برے مقاصد کی تکمیل کرتے رہے اور کر بھی رہے ہیں۔ ہمارے سیاستدان جو کہ ہم پر بطور حکمران مسلط رہتے آرہے ہیں۔
ان کھوٹے سکوں نے پاکستان کو کبھی اپنا ملک سمجھا ہی نہیں بلکہ وہ اس ملک کو ایک جاگیر سمجھ کر اس سے اپنا مطلب ہی نکالتے رہے اور پھر اس فقیر کی طرح چل دیے جس کو شہر کے لوگوں نے اس لیے حکمران بنا دیا تھا کہ وہ صبح کے وقت شہر میں داخل ہونے والا پہلا شخص تھا، اس لیے اس کو عزت و تکریم سے بادشاہت کے تخت پر بٹھا دیا گیا۔ لیکن جب ملک پر کڑا وقت آیا تو اس نے گدڑی سے اپنے پرانے کپڑے نکالے اور یہ کہہ کر چل دیا کہ ہم تو حلوہ کھانے آئے تھے سو وہ کھا لیا اب آپ جانو اور آپ کا ملک۔ تو ہمارے یہ حلوہ خور حکمران پاکستان کے وسائل کو حلوے کی طرح کھاتے رہے بلکہ اس حلوے کو فراخ دلی سے بانٹتے بھی رہے اور جب دیکھا کہ دیگ میں اب کچھ نہیں بچا تو ٹکٹ کٹا کر یہ کہہ کر چل دیے کہ چل اُڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ۔ درحقیقت انھوں نے بیگانگی کے ساتھ ملک پر حکومت کی۔ اپنے آپ کو ملک کے لیے ناگزیر ثابت کرتے رہے، لیکن ملک کے اصل مسائل کے بجائے نمود و نمائش کے کاموں کو ترجیح دی تا کہ عوام پر اپنی دھاک بٹھائی جا سکے۔
ان دنوں ایک بار پھر زور و شور سے یہ چرچا جاری ہے کہ ملک میں بجلی کی کمی کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا بلکہ بجلی وافر تعداد میں موجود ہے البتہ ان علاقوں میں ابھی لوڈ شیڈنگ ہو گی جہاں سے حکومت کو بجلی کے بلوں کی وصولی نہیں ہوتی اور بجلی چوری کی جاتی ہے۔ حکومت کو اس بات کی داد ضرور دینی چاہیے کہ انھوں نے سردیوں میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا اعلان کیا ہے جو کہ کسی حد تک درست بھی ہے جس علاقے میں میری رہائش ہے وہاں لوڈ شیڈنگ ختم ہو گئی ہے سوائے چند ایک جھٹکوں کے جو دن میں کسی بھی وقت لگ جاتے ہیں البتہ ایک جھٹکا ایسا ہے جو کہ ہر ماہ کی آخری تاریخوں میں لگتا ہے جب جیب بھی خالی ہوتی ہے اور بجلی کے بل کی ادائیگی میں اس کی آمد کے بعد صرف ایک دن کا وقفہ دیا جاتا ہے ورنہ ایک بھاری جرمانہ بھی ساتھ لکھا ہوتا ہے۔
بڑی سادہ سی بات ہے ہر مہینے کی آخری تاریخوں میں عوام کی قوت خرید بالکل ختم ہو چکی ہوتی ہے اور اس پر بجلی کے بھاری بل حقیقت میں بم بن کر گرتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ بجلی کے وزیر جناب لغاری صاحب ایک حکم یہ بھی جاری کر دیں ہر ماہ کے شروع میں بجلی کے بلوں کی ادائیگی ہوگی۔ مہنگی بجلی استعمال کرنے والے عوام اس آسانی پر حکومت کے شکر گزار ہوں گے۔ اس کے ساتھ حکومت کو ایسا لائحہ عمل ترتیب دینا ہو گا کہ جن علاقوں سے بلوں کی وصولی ممکن نہیں وہاں سے اس کو ممکن بنایا جائے تا کہ بل دینے والوں پر بوجھ کم ہو اور وہ ناکردہ گناہوں کی سزا نہ بھگتتے رہیں کہ جو بل ادا نہیں کرتے ان کے حصے کا بل بھی مہنگی بجلی کی صورت میں ان سے ہی وصول کیا جا رہا ہے۔
بجلی کی وافر مقدار میں دستیابی کے بارے میں تو آیندہ گرمیاں ہی اس کا حال بتائیں گی، لیکن سردیوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم اور گیس کی شروع ہو چکی ہے۔ روزانہ ہر گھر میں اس بات پر جھگڑا چل رہا ہوتا ہے ناشتے یا کھانے میں دیر کیوں ہو رہی ہے تو کچن سے زور دار آواز میں خاتون خانہ کی جانب سے جواب ملتا ہے کہ گیس انتہائی کم آرہی ہے لہذا صبر کریں کیونکہ صبر کے سوا عوام کر بھی کیا سکتے ہیں۔
سردیوں گرمیوں کے چکر میں حکومت نے عوام کو چکرا کر رکھا ہوا ہے ورنہ ایک ایسا ملک جس نے دنیا کی دو بڑی سپر پاورز سے ٹکرا کر جدید ٹیکنالوجی کا حامل ایٹم بم بنا لیا جو ٹیکنالوجی ابھی تک ہمارے ہمسائے کے پاس بھی نہیں اور باجود سب خرابیوں اور عالمی طاقتوں کے دباؤ کے ہم نے اپنے ایٹم بم کو محفوظ رکھا ہوا ہے، دنیا کی ایک بڑی سپر پاور کا شیرازہ بکھیر دیا بڑی طاقتوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی چین کے ساتھ مل کر اس صدی کا سب سے بڑا راہداری منصوبہ زیر تکمیل ہے۔
ان گنت ایسی مثالیں موجود ہیں جو کہ پاکستان کی مضبوطی کا اظہار ہیں لیکن اگر ہم کمزور ہیں تو اندرونی طور پر اور اپنے عوام کی سہولت کے لیے ایک آبی ڈیم بنانے سے قاصر ہیں جس میں بقول سابق چیئر مین واپڈا شمس الملک ہماری بقاء ہے۔ انھوں نے ایک بار پھر ایک سیمینار سے خطاب میں اس بات کو دہرایا ہے کہ پاکستان کا مستقبل کالا باغ ڈیم سے وابستہ ہے۔
اس آبی ذخیرے کو گزشتہ کئی حکومتوں نے پس پشت ڈال رکھا ہے، ہاں کبھی کبھار بوقت سیاسی ضرورت اس کی گرد آلود فائلوں کو جھاڑ پونچھ کر اس مسئلہ کو اجا گر کرنے کی بے دلی سے کوشش کی جاتی ہے، حالانکہ اگر آبی ماہرین کی رائے کو مقدم جانا جائے تو اس ڈیم کے بغیر پاکستان کا وجود ہی خطرے میں نظر آتا ہے۔ بات صرف اس سے سستی بجلی پیدا کرنے کی نہیں سستی بجلی تو شاید اس ملک کے عوام کے مقدر میں نہیں بلکہ موسمی تغیرات کی وجہ سے پاکستان میں بارشوں کی کمی اور ہندوستان سے آنے والے دریاؤں پر بھارت کی جانب سے ڈیموں کی تعمیر نے صورتحال کو مزید مخدوش کر دیا ہے۔
آیندہ بھارت کے ساتھ جنگ پانی کے مسئلے پر ہونے کی پیش گوئیاں سچ بھی ثابت ہو سکتی ہیں کیونکہ پاکستان کو آنے والے پانی کو بھارت نے روک رکھا ہے تا کہ پاکستان کو بنجر کیا جا سکے۔ اگر ملک میں دستیاب آبی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے آبی ذخائر تعمیر نہیں کیے جائیں گے تو جو بچا کچھا پانی قدرت کی مہربانی سے پہاڑوں پر جمی برف پگھلنے کی صورت میں آرہا ہے وہ بھی ضایع ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے زرعی پاکستان کی زمینیں بنجر ہوتی جارہی ہیں۔ سیاسی ضروریات کی اگر بات کی جائے تو اس ناگزیر مسئلے سے سیاسی طور پر فائدہ اُٹھانے کے لیے بھی حکومت کو اس کی تعمیر کا فوری اعلان کر دینا چاہیے۔
ہم اگر دنیا سے ٹکرا کر بڑے بڑے منصوبے بنا کر انھیں کامیابی سے مکمل بھی کر سکتے ہیں تو کالاباغ ڈیم کا منصوبہ کیوں شروع نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر کام کا آغاز فوری طور پر کرنے کے باوجود اس کی تکمیل کے لیے ایک طویل مدت درکار ہے، اس منصوبے نے کوئی راتوں رات مکمل نہیں ہوجانا لیکن وہ مدت تب شروع ہو گی جب عملی طور پر اس منصوبے کا آغاز ہو گا۔ سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر ملکی مفاد کے اس اہم ترین منصوبے کی دوبارہ سے داغ بیل ڈالنے والا تاریخ میں اپنا مقام بنا جائے گا اور تا عمر بادشاہت کا حقدار ہو گا۔